گھر سے بغیر اجازت نکلنےپر بیوی کے حرام ہونے کو معلق کرنا

Darul Ifta mix

گھر سے بغیر اجازت نکلنےپر بیوی کے حرام ہونے کو معلق کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو چار دیواری کے اندر پابند کرنے کے لیے اس سے کہا ”اگر تو میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو ،تومجھ پر حرام ہے“ پھر تیسرے دن اس آدمی کی بچی نے اجازت لی، کہ میں کالج اپنی امی کو ساتھ لے جارہی ہوں تو اس آدمی نے بچی کو اجازت دے دی امی کو ساتھ لے جا۔
پھر کچھ دنوں بعد بچی نے اجازت مانگی ہم فلاں کام کے لیے جارہے ہیں ،آپ امی کو اجازت دیں، لیکن اس آدمی کا کہنا ہے کہ میں نے کہا میں سوچوں گا ؛ یعنی میں نے اجازت نہیں دی ؛لیکن بیوی چلی گئی۔
پوچھنا یہ ہے کہ بیوی پر طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اور یہ بھی پو چھنا ہے کہ اگر اس سے پہلے ایک ،یا دو طلاق دے چکا ہو تو پھر کیا حکم ہے؟

جواب 

صورتِ مسئولہ میں بغیر اجازت گھر سے نکلنے  کی وجہ سے بیوی پر ایک طلاقِ بائن  واقع ہوچکی ہے،اب ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ  تجدید ِ نکاح   ضروری ہے،اس کے بعد بیوی کےبغیر اجازت گھر سے نکلنے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔نیز  اگر وہ شخص پہلےبھی  ایک طلاق دے چکا ہو  تو  اب اس کے پاس صرف ایک طلا ق کا اختیار باقی رہ جائے گا،اگر وہ اس سے پہلے دو طلاقیں دے چکا ہو ، تو اب اس کی بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے ؛ لہذا اب بغیر حلالہ شرعیہ نہ تو رجوع ممکن ہوگا اور نہ ہی تجدید ِ نکاح، بلکہ ان کے درمیان علیحدگی کرانا  ضروری ہے۔

وفي الهندية:

" وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق.(كتاب الطلاق،الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،1420،ط:دارالفكر)

 لما في المحيط البرهاني:

"إذا علّق طلاق امرأته بفعل إن حصل التعليق بكلمة إن وإذا وإذا ما ومتى ومهما، فهذا على

مرّة  واحدة، حتّى لو فعلت ذاك الفعل مرّة وقع الطلاق، ولو فعلت ذلك الفعل مرّة أخرى لا يقع الطلاق.                     (كتاب الطلاق،الفصل السابع عشر،3681،:دارإحياء التراث)

وكذا في التاترخانية: (كتاب الطلاق،الفصل السابع عشر554،ط:مكتبه فاروقيه)

وفي التنويرمع الدر:

 (وينكح)مبانته بمادون الثلاث في العدة وبعدها...... بالاجماع ومنع غيره فيها لاشتباه النسب.

 (كتاب الطلاق،باب الرجعة،مطلب:في العقدعلى المبانة،542،ط:رشيدية)

وفي البدائع:

"فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد". (كتاب الطلاق،باب الرجعة،فصل:في حكم الطلاق البائن،3295،ط:رشيدية)

وفي الهندية:

" وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا وإن كانت غير مدخولة طلقت واحدة " .(كتاب الطلاق ،الباب الثاني:في ايقاع الطلاق ،الفصل الاول:في الطلاق الصريح،1423،دارالفكر) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:170/304