کیا معاشرے میں رائج اسباب معیشت حرام ہیں؟

Darul Ifta mix

کیا معاشرے میں رائج اسباب معیشت حرام ہیں؟

سوال

 ہمیں آپ کی رائے لینے کے لیے رابطہ کرنا پڑا، آج معاشرے میں معیشت کے اسباب جتنے بھی دیکھ رہے ہیں حرام ہی نظر آرہے ہیں، کیا مسلمانوں میں کوئی کامل حلال نوکری یا کام ہے؟ جو وقت پر نماز، سچے ماحول میں جس کے ذریعہ20000 روپے تنخواہ ماہانہ، اس سے زیادہ، یا سات سو سوروپے روزانہ یا اس سے زیادہ مل سکتا ہے( چاہے ماہرفن ہو یا نہیں)؟ ہم الله سے استخارہ بھی کررہے ہیں اور ہم آپ کی خاص دعاؤں کے طلب گار ہیں، ہمارے علاقے میں پڑھے لکھے لوگ کم ہیں ،اس لیے ہم آپ کا مشورہ چاہتے ہیں، آپ ہماری رہبری کیجیے ،از راہ کرم، حدیث پاک کا مفہوم ہے، جو مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں کوشش کرتا ہے، اس کو دس سال اعتکاف سے بھی زیادہ ثواب ملے گا۔ (فضائل اعمال)

جواب 

یہ بات درست ہے کہ صنعتی انقلاب کے اس دور میں سود کو معیشت وتجارت کا ایک لازمی حصہ قرار دے دیا گیا ہے، اہلِ مغرب کا تویہ تصور ہے ہی، اب مسلمان تاجروں کا بھی یہ نظر یہ بن گیا ہے کہ سودی معیشت کی ہزار ہا خرابیوں کے باوجود تجارت اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلم معاشرے میں سودی کاروبار کے علاوہ کوئی حلال کاروبار میسر نہیں۔

اسلام نے انسان کو روزی حاصل کرنے اور مال کمانے کی اجازت دی ہے، لیکن کمائی کے سلسلے میں دو باتوں کی خاص طور سے ہدایت دیتا ہے، ایک یہ کہ انسان خود کمائے، خود محنت ومزدوری کرے، دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے، دوسرے یہ کہ وہ جو کمائے وہ حلال ہو، حرام کمائی نہ ہو۔ الله رب العزت نے مسلمانوں کو حکم دیا ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ﴾․(البقرہ، آیت:172)
ترجمہ:”اے ایمان والو! جو ہم نے تم کو رزق دیا ہے اس میں سے پاک چیزوں کو کھاؤ۔“

جب کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کسبِ حلال کو ایک فریضہ قرار دیا ہے ”طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة․“(السنن الکبری:236/6، ط: دارالحدیث)

ترجمہ:”حلال کمائی کا طلب کرنا، فرض عبادتوں کے بعد ایک فرض ہے۔“صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے دریافت کیا اے الله کے رسول ”أي الکسب أطیب؟“ کون سی کمائی سب سے پاک ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم! نے فرمایا:”عمل الرجل بیدہ، وکل بیع مبرور“ آدمی کے اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ خرید وفروخت جو پاک ہو۔ آپ بطور پیشہ تجارت، شراکت، نوکری وغیرہ کو اسلامی احکام کے تحت بروئے کار لاسکتے ہیں، جو بھی پیشہ اختیار کرنے کا ارادہ ہو علماء حضرات سے مشورہ کرکے اختیار کیا جائے، تاکہ حرام کاروبار کی دلدل میں پھنس نہ جائیں اور ساتھ میں دعاؤں کا بھی اہتمام ہو۔ الله تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو رزق حلال عطا فرمائے ،حرام سے بچائے اور رزق حلال کے اسباب پیدا فرمائے۔ آمین۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی