ٹھیکہ میں دوسرے آدمی کو شریک کرنا

Darul Ifta mix

ٹھیکہ میں دوسرے آدمی کو شریک کرنا

سوال

 کیا فرماتے ہیں حضراتِعلماءِ کرام مندرجہ ذیل مسائل کے متعلق کہ:
1..بندہ ایک گارمنٹس کمپنی سے منسلک ہے، جوکپڑا وغیرہ بنانے کے متعلق ہے، بندہ بطور ٹھیکیدارکمپنی سے کپڑا بنانے کا معاہدہ کرتا ہے، جس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ کمپنی سے ٹھیکہ لے کر کام شروع کروا دیتا ہوں، جب کہ کمپنی کام مکمل کرنے پر ٹھیکے کی طے شدہ رقم ادا کرتی ہے، اس دوران میں اپنے طور پر اپنے ورکروں کی تنخواہیں وغیرہ اور دیگر متعلقہ امور کا خرچ برداشت کرتا ہوں، لیکن بوجہ مجبوری اتنی رقم کا بندوبست نہ ہونے کی بناء پر کسی دوسرے شخص کو اپنے ساتھ اس لیے ہوئے ٹھیکہ میں شریک کرتا ہوں، سوال یہ ہے کہ اس طرح کسی دوسرے شخص کو اپنے ساتھ شریک کرنا کیسا ہے؟ اور اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ نفع ونقصان کی ترتیب کیا ہونی چاہیے؟

2..نیز آج کل کمپنیوں میں یہ طریقہ مروج ہے کہ ٹھیکیدار کے ساتھ بعض لوگ اسی کپڑے کے لیے ہوئے ٹھیکے میں شریک ہوتے ہیں اور ترتیب یہ ہوتی ہے کہ کپڑے کے ہر پیس پر متعین منافع رکھتے ہیں، مثلاً: ایک پیس پر ایک روپیہ، دو پیس پر دو روپیہ وغیرہ، لیکن اگر درمیان میں کسی مہینے کام نہیں ہوا، تو اس کے نفع ونقصان میں اپنے آپ کو ٹھیکیدار کے ساتھ شریک نہیں سمجھتے، کیا ان شرکاء کا مذکورہ طریقہ درست ہے؟ اگر درست نہیں تو اس کا جائز حل کیا ہو گا؟

جواب

1.. صورت مسئولہ میں ٹھیکیداری کا معاملہ استصناع کا ہے جو کہ جائز ہے، البتہ مذکورہ طریقے پر شرکت جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ شرکت فی العروض ہے اور شرکت فی العروض جائز نہیں ہے، اس شرکت کے جواز کا طریقہ یہ ہے کہ ٹھیکیدار اپنے مال کا کچھ فیصدی حصہ مثلاً:(50 فی صد) اپنے شریک پر بیچ دیے، اس کے بعد دونوں اس ٹھیکہ میں شریک ہو جائیں گے، شرکت کے اس معاملے سے حاصل ہونے والا نفع دونوں کے درمیان بقدر حصص ہو گا او رنقصان کا ضمان بھی ہر ایک پر بقدر حصص ہو گا، یعنی نفع اور نقصان کا ضمان ہر شریک پر اس کے مال کے تناسب کے اعتبار سے ہو گا۔

2..شرکت کے معاملے میں کسی ایک شریک کے لیے نفع کی متعین مقدار مقرر کرنا مثلاً:(ہر پیس پر ایک روپیہ میرا باقی آپ کا) جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی شریک کا یہ شرط لگانا کہ جس مہینے کام نہیں ہو گا اس میں میں نفع اور نقصان کا ضامن نہ ہو ں گا، یہ بھی جائز نہیں ہے، جائز طریقہ یہ ہے کہ نفع اور نقصان دونوں پر بقدر حصص ہو گا یعنی مال کے تناسب کے اعتبار سے نفع اور نقصان کو دونوں پر تقسیم کیا جائے گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی