موٹر سائیکل اسکیم کا شرعی حکم

Darul Ifta mix

موٹر سائیکل اسکیم کا شرعی حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان ان مسائل کے بارے میں کہ کچھ عرصہ سے اکثر بذریعہ لاٹری وقرعہ اندازی موٹر سائیکل وغیرہ کی خرید وفروخت کثرت سے ہو رہی ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص یا کمپنی موٹر سائیکل کی اسکیم شروع کرتی ہے، سو یا اس سے کم یا زیادہ ممبرز رجسٹر کیے جاتے ہیں، ہر ممبر کے ذمہ پانچ سویا ہزار روپے ماہانہ قسط ہوتی ہے ، کمپنی ہر ماہ ممبران کے ناموں کی قرعہ اندازی کرتی ہے، جس ممبر کا قرعہ نکل آئے اسے موٹر سائیکل دے دی جاتیہے اور بقیہ اقساط اُسے معاف ہو جاتی ہیں، یوں کسی ممبر کو پہلے مہینے صرف پانچ سو یا ہزار روپے میں موٹر سائیکل ملی اور کسی کو دوسرے مہینے ایک ہزار یا دوہزار میں، کسی کو چالیس ماہ بعد پچاس ہزار روپے کی موٹر سائیکل ملتی ہے، متوسط اور غریب طبقہ کے لوگ سواری کے حصول کے لیے دھڑا دھڑ اس اسکیم کے ممبر بن رہے ہیں، انہیں جلدی یا دیر سے موٹر سائیکل مل جاتی ہے۔

جواب

  صورت مسئولہ میں ذکر کردہ اسکیم میں موٹر سائیکل کی خرید وفروخت کئی مفاسد کی وجہ سے ناجائز ہے اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر ممبر کمپنی کو قرض دے رہا ہے، یعنی: قرعہ اندازی سے پہلے جو رقم کمپنی کو دی جاتی ہے وہ رقم حقیقت میں شرکاء کی طرف سے موٹر سائیکل کی کمپنی کے ذمہ قرض ہے، اور قرض دینے والے کا قرض پر نفع وصول کرنا سود ہے، لہٰذا پانچ سو یا ایک ہزار روپے کے بدلے جو کم قیمت پر موٹر سائیکل کی شکل میں نفع مل رہا ہے، شرعاً یہ نفع سود کے حکم میں ہے، جو کہ ناجائز ہے۔

او راگر یہ معاملہ بیع تصور کیا جائے، یعنی: قرعہ اندازی سے پہلے جو رقم کمپنی کو دی جاتی ہے یہ حقیقت میں موٹر سائیکل کی قیمت ہے جو کہ قسطوں کی صورت میں ادا کی ہے تو یہ بیع بالتقسیط ہے، جس میں بیچنے والے کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ثمن کی ادائیگی تک مبیع کو اپنے پاس روکے رکھے، جب کہ صورت مسئولہ میں اس وقت تک موٹر سائیکل نہیں دی جاتی ہے، جب تک کہ خریدار پوری اقساط ادا نہ کرے۔

اسی طرح عقد بیع میں ثمن کا معلوم ہونا ضروری ہے، جب کہ مذکورہ معاملہ میں قرعہ اندازی سے پہلے شرکاء میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اسے موٹر سائیکل کتنے کی پڑے گی۔

او راگر یہ معاملہ بیع سلم تصور کیا جائے ( جس میں خریدار پہلے پیسے ادا کرتا ہے، اور بیچنے والا معینہ مدت میں مبیع خریدنے والے کے حوالے کر دیتا ہے ) تو اس میں خرابی یہ ہے کہ بیع سلم میں ضروری ہے کہ خریدنے والا مجلس عقد ہی میں راس المال، مسلم الیہ کے حوالے کر دے، بصورت دیگر یہ بیع الکالی بالکالی ہو گی جو کہ ناجائز ہے۔

بہرحال سوال میں مذکور موٹر سائیکل کی خریدوفروخت کا طریقہ ناجائز اور خلاف شرع ہے، اس لیے اس سے احتراز کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی