ماہ صفر کو منحوس سمجھنا

Darul Ifta mix

ماہ صفر کو منحوس سمجھنا

سوال

صفر کو منحوس سمجھنا اورا س میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات سے پرہیز کرنا یا اس مہینے میں کچھ پکاکر اس نیت سے تقسیم کرنا کہ اس کی نحوست سے حفاظت ہوجائے، درست ہے یا نہیں؟
بینوا وتوجروا۔

جواب

اسلام جس طرح بتُ پرستی کا مخالف ہے، اسی طرح توہم پرستی کا بھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو جس طرح باطل خیالات اور غلط نظریات و عقائد سے منع فرمایا،اسی طرح توہم پرستی سے بھی لوگوں کو منع فرمایا۔

موجودہ دور میں ماہ صفر کے متعلق کچھ غلط نظریات و خیالات پائے جاتے ہیں، اسی طرح کے خیالات زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں کے اذہان میں موجود تھے جن کو حضرات محدثین نے بیان فرمایا ہے، چناں چہ صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں:

”صفر سے متعلق متعدد اقوال بیان کیے گئے ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے تیرہ تیزی کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے اور جس کو صفر کہتے ہیں، کمزور عقیدے والے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینے میں آفات و بلا اور حوادث و مصائب کا نزول ہوتا ہے، ارشاد نبوی کے ذریعے اس کو باطل بے اصل قرار دیاگیا ہے۔

صفر سے متعلق زمانہ جاہلیت میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے جس کو صفر کہا جاتا ہے اور بقول ان کے جب پیٹ خالی ہو اور بھوک لگی ہو تو و ہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بھوک کے وقت پیٹ میں جو بے چینی پیدا ہوتی ہے وہ اسی سانپ کے سبب ہوتی ہے۔

علامہ نووی نے مسلم شریف کی شرح میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا گمان تھا کہ صفر ان کیڑوں کا نام ہے جو پیٹ میں ہوتے ہیں اور بھوک کے وقت کاٹتے ہیں، ان کے سبب سے آدمی کا رنگ فق ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ ختم ہو جاتا ہے، یہ سب بے اصل توہمات ہیں جن کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں۔“(مظاہر حق، ج:4،201)

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سب توہمات کی تردید فرمائی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لاطیرة ولاھامة ولاصفر“ یعنی بدشگونی اور پرندوں سے فال لینا اور صفر کے بارے میں غلط خیالات یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں۔(بخاری شریف)

دوسری روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لاصفر ولاغول“ یعنی صفر اور غول بیابانی سب فاسد خیالات ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔(مسلم شریف)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنایا اس میں شادی وغیرہ نہ کرنا سب فاسد خیالات ہیں ان کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں اور اسلام اس قسم کی فضول باتوں سے برأت کا اظہار کرتا ہے، لہٰذا جو لوگ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں ان کو توبہ کرنی چاہیے، الله تعالیٰ ہمیں ان توہمات وخرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی