قبر کھودنے کا سنت طریقہ

Darul Ifta mix

قبر کھودنے کا سنت طریقہ

سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں، ایک صاحب نے اپنی والدہ کی قبر اونچی بنائی ہے اورعلاقہ کے رواج کے خلاف کیا ہے جس کی بعض علماء نے بہت زیادہ مخالفت کی۔

واضح رہے کہ ہمارے علاقے میں قبر ایک بالشت کے برابر بناتے ہیں اور قبر کے سرہانے اور پائنتی جانب درخت کی ایک ایک ٹہنی گاڑ دیتے ہیں۔

پہلے زمانہ میں یہ درخت کی ٹہنی اس لیے گاڑی جاتی تھی تاکہ کوئی جانور آکر مردہ کو نہ کھائے لیکن اب آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے یہ خطرہ بھی نہیں۔

اب آپ حضرات سے یہ پوچھنا ہے کہ ان صاحب کا یہ عمل کہ قبر کو ایک شبر تک اونچا کرنا یہ سنت کے مطابق ہے یا دوسرے علماء کا عمل سنت ہے او رقبر کے سرہانے اور پائنتی جانب لکڑی گاڑ نا یا گاڑنے کو ضروری سمجھنا کیسا ہے؟

جواب

مسئلہ کو سمجھنے کے لیے آپ حضرات کو یہ جاننا ضروری ہے کہ قبر کھودنے کا سنت طریقہ کیا ہے ؟ تو جان لیں کہ شریعت میں قبر کھودنے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ جس علاقے کی مٹی سخت ہے، نرم نہیں ہے ، تو وہاں لحد ( بغلی قبر) بنانا سنت ہے، اور جس زمین میں لحد بنانا، زمین کی نرمی اور نمی کی وجہ سے ممکن نہیں تو وہاں صندوقی قبر (شق) بنائی جائے گی۔

لحد بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کے نصف یا مکمل قامت کے بقدر قبر کھودی جائے اور پھر قبلہ کی جانب ایک حفیرہ ( قبلہ کی دیوار کو نیچے کی جانب سے کھود کر ایسا خلا بنا لیا جائے کہ اس میں میت کو لٹا دیا جائے ) کھود ا جائے، جس میں میت کو لٹایا جائے، میت کو لٹانے کے بعد اس حفیرہ کو پتھر وغیرہ سے بند کر دیا جائے تاکہ میت کو مٹی نہ لگے، اس کے بعد اس گڑھے میں پہلے سے نکالی ہوئی مٹی واپس ڈال دی جائے۔

او رجہاں لحد بنانا ممکن نہ ہو تو وہاں نصف یا مکمل قامت کے بقدر کھودنے کے بعد قبر کے بیچ میں ایک حفیرہ ( گہرائی میں زمین اتنی کھود دی جائے کہ اس میں میت کو لٹایا جاسکے) کھودا جائے ، جس میں میت کو رکھا جائے اور اس حفیرہ کو پھر لکڑیوں یا پتھروں سے اتنے فاصلے سے ڈھک دیا جائے کہ میت کے چہرے یا جسم سے وہ لکڑی یا پتھر نہ لگے، اور پھر اس کے اوپر وہ مٹی ڈال دی جائے جو پہلے نکالی تھی۔

تفصیل بالا کے مطابق قبر کھودی جائے اور قبر سے نکالی گئی مٹی واپس قبر میں ڈال دی جائے، اس صورت میں اکثر مٹی واپس قبر میں ڈل جائے گی، اور بعد میں اگر قبر ایک یا ڈیڑھ بالشت سے زیادہ اونچی ہو تو زائد مٹی کو ہٹا دیا جائے، علامہ شامی رحمہ الله نے ردالمحتار اور علامہ ابن نجیم رحمہ الله نے البحرالرائق میں یہی طریقہ لکھا ہے۔

قبر کے سرہانے لکڑی گاڑنے سے مراد اگر درخت کی ٹہنی ہے تو اگرچہ یہ عمل حضور صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے لیکن اس کو ضروری سمجھنا اور تخفیف عذاب کا بالجزم اعتقاد رکھنا درست نہیں ، بلکہ محض امید کا درجہ ہونا چاہیے، اورجہاں عوام میں یہ اعتقاد جازم ہو اور وہ اس کو ضروری سمجھیں تو ان کے لیے یہ فعل جائز نہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی