فاریکس ٹریڈنگ کاروبار کا حکم

Darul Ifta mix

فاریکس ٹریڈنگ کاروبار کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ”فوریکس ٹریڈنگ“ کے نام سے ویب سائٹ میں سرمایہ کاری کرکے پیسے کمانا جائز ہے یا ناجائز؟ برائے مہربانی اس کے بارے میں فتوی بھیج دیں تو ہم آپ کے بہت مشکور ہوں گے۔

جواب

واضح رہے کہ ”فوریکس ٹریڈنگ“ کمپنی میں کاروبار کرنے کا تفصیلی طریقہ کار ہماری تحقیق کے مطابق یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص”فوریکس ٹریڈ“ کمپنی میں ایک ہزار ڈالر جمع کرواکر اپنا اکاؤنٹ کھلواتا ہے ، تو یہ کمپنی دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹ ہولڈر کو بڑی رقم کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے، مثال کے طور پر کسی شخص نے ایک ہزار ڈالر کی قیمت پاکستانی روپوں کے اعتبار سے پچاس ہزار روپے (50000) روپے جمع کروائی تو کمپنی کی طرف سے اس اکاؤنٹ ہولڈر کو قوت خریداری ایک لاکھ کے برابر ملتی ہے، اس کے بدلے میں مختلف ممالک کی کرنسیوں کی خریدوفروخت کرسکتا ہے اور یہ قوت خرید اس کے لیے نفع کی صورت میں باقی رہتی ہے، جب تک یہ معاملہ ختم نہ کردے، مختلف کرنسیوں کی خرید و فروخت کے بعد جو نفع ہو گا، وہ اس اکاؤنٹ ہولڈر کو ملے گا او رنقصان ہونے کی صورت میں اس کی قوت خرید تو باقی رہے گی، البتہ اس کا نقصان، اس اکاؤنٹ ہولڈر کی جمع شدہ رقم سے اس وقت کاٹا جائے گا، جب وہ کمپنی سے اپنا معاملہ ختم کرے گا، اگر وہ اکاؤنٹ ہولڈر نقصان ہونے کی صورت میں اپنا معاملہ ختم نہ کرے، یہاں تک کہ نقصان بڑھتے بڑھتے اس کی ٹوٹل جمع شدہ رقم (1000) ڈالر کے پندرہ فیصد15% ڈیڑھ سو (150) ڈالر تک پہنچ جائے، تو اس وقت کمپنی کی طرف سے ملنے والی قوت خرید ختم ہو جائے گی اور جتنا نقصان ہوا وہ اکاؤنٹ سے کٹ جائے گا او راکاؤنٹ بھی رک جائے گا، اب اگر یہ شخص دوبارہ ٹریڈنگ کرنا چاہے گا، تو از سر نورقم جمع کرواکر اکاؤنٹ کھلوائے گا، نیز اگر وہ نقصان نہیں کرتا، بلکہ نفع ہی ہوتا ہے، تو نفع میں حاصل شدہ جو ڈالر ہیں ان کے اعتبار سے قوت خرید بڑھتی رہے گی، لہٰذا درج ذیل وجوہات کی بناء پر فوریکس ٹریڈ کمپنی کاروبار جائز نہیں:

1..دو مختلف ملکوں کی کرنسیوں کا تبادلہ، یہ شرعی نقطہ نظر سے بیع صرف کہلاتا ہے اور بیع صرف کے جائز ہونے کے لیے مجلس میں متعاقدین کا عوضین پر قبضہ شرط ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ معاملہ واقعی اور حقیقی ہے اور ہر ایک کو عوض مطلوب ہے، لیکن یہاں تو معاملہ مقصود ہی نہیں ہوتا، بلکہ محض کاغذی کاروائی ہوتی ہے۔

2..جیسا کہ اوپر گزر چکا اکاؤنٹ ہولڈر کا اس سارے معاملے سے کوئی چیز خریدنا مقصود نہیں ہوتا، نہ قبضہ مقصود ہوتا ہے، بلکہ محض نفع نقصان برابر کیا جاتا ہے، اس لیے یہ سٹہ کی ایک صورت ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

3..کرنسی کے علاوہ معاملہ سونا چاندی کا ہو، تو سونا، چاندی کی خرید وفروخت کے وقت ایک خرابی یہ بھی ہے کہ مبیع معدوم ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہو گا۔

4..کمپنی کی طرف سے فراہم کردہ رقم ( بصورت قوت خرید) پر کمیشن ، یہ قرض پر سود ہے، یا کمپنی جو بڑی رقم کی ضمانت فراہم کرتی ہے، اس ضمان وکفالت پر اجرت ہے، ہر دو (قرض پرسود، ضمان او رکفالت پر اجرت) شرعاناجائز ہیں، لہٰذا مندرجہ بالا مفاسد کی بناء پر فوریکس ٹریڈکمپنی کا کاروبار شرعاًنا جائز ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر : 163/58