عوام کے لیے مسجد کے پانی کا استعمال کرنا،کمیٹی کے اختیارات،مؤذن امام ،خادم کے لیے مسجد کا پانی استعمال کرنا،مسجد کا خراب فلٹر بیچ کرنیا خریدنا۔

Darul Ifta mix

عوام کے لیے مسجد کے پانی کا استعمال کرنا،کمیٹی کے اختیارات،مؤذن امام ،خادم کے لیے مسجد کا پانی استعمال کرنا،مسجد کا خراب فلٹر بیچ کرنیا خریدنا

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں ہمارے محلے کی مسجد میں ایک شخص نے تین لاکھ روپےکا واٹر فلٹریشن نصب کیا ہے اور اس مسجد کی موٹر سےایک دو ٹونٹی باہر روڈ کی طرف نکالی ہے تاکہ یہ صاف پانی عوام الناس استعمال کرتے رہیں۔

1۔۔۔کیا مسجد کے پانی سے ایک دو لائنیں باہر دی جاسکتی ہیں،تاکہ لوگ وہاں سے مفت پانی حاصل کرسکیں اور صدقہ جاریہ ہو؟

2۔۔۔اگر مسجد سے پانی کی لائن باہر دینا درست نہیں تو کیا اس کی کوئی متبادل صورت ہوسکتی ہے،؟ مثلاً باہر کے پانی کے بقدر مشین میں استعمال ہونے والی بجلی کا اندازہ لگا کر مسجد کے چندے سے ہٹ کرالگ سے ہر ماہ کچھ رقم جمع کرادی جائے، وغیرہ

3۔۔۔لوگ تو عموماً مسجد سے پانی پانی بھر کر اپنی ضروریات کے لیے باہر لے جاتے ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

4۔۔۔ کیا مسجد کی کمیٹی اس بارے میں پانی لے جانے کی اجازت یا پابندی لگانے کا اختیار رکھتی ہے؟

5۔۔۔ کیا مسجد کے فلٹر پلانٹ سے مسجد کے خادم ، مؤذن ،امام صاحب وغیرہ اپنے گھر کے لیے پانی بھر کر لے جاسکتے ہیں؟

6۔۔۔ مشین خراب ہونے کی صورت میں اگر اسے بیچا جائے،تو کیا اس کی رقم مسجد کے دوسرے مصارف میں لگا سکتے ہیں؟یا اس رقم سے نیا فلٹر خریدناضروری ہے،کیوں کہ رقم لگانے والے نے تو مسجد کے لیے بطورِ صدقہ جاریہ واٹر فلٹریشن نصب کیا تھا۔

 

جواب

1,2۔۔۔صورت مسئولہ میں جو دو ٹونٹیاں عوام الناس کیلئے باہر کی طرف لگائی ہے، چونکہ اس پانی کے حصول کیلئے  مسجد کی بجلی استعمال ہوتی ہے، لہذا انہیں  ختم کردیا جائے ، اگر کوئی صدقہ  جاریہ  کیلئے عوام کو مفت پانی دینا چاہتا ہو تو اس کیلئے مسجد  سے الگ انتظام کرے۔

3۔۔۔ صحیح نہیں ہے ، اس سے اجتناب کیا جائے۔

4۔۔۔مسجد کی کمیٹی کو  مسجد میں ہر اس  کام کی اجازت ہےجس میں مسجد کا فائدہ ہو، چونکہ عوام کا مسجد کا پانی باہرلے جانے میں مسجد کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا  کمیٹی اس چیز کا اختیار نہیں رکھتی ہے۔

5۔۔۔ لے جا سکتے ہیں۔

6۔۔۔واقف کی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، لہذا مشین خراب ہونے کی صورت میں اس کی مرمت کی جائے، اور اگر وہ قابل مرمت نہ ہو تو اسے بیچ کر   دوسرا فلٹر خریدا جائے۔

لمافي الدر:

          "في الحاوي: غرس في المسجد أشجارا تثمر إن غرس للسبيل فلكل مسلم الأكل وإلا فتباع لمصالح المسجد.............. قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة"

  (كتاب الوقف،6/666،ط:رشيدية)

وفي النهر:

          "وما غرس في المساجد من الأشجار المثمرة إن غرس للسبيل وهو وقف العامة كان لكل من دخل المسجد من المسلمين أن يأكل منها وإن غرس للمسجد لا يجوز وصرفها إلى مصالح المسجد الأهم فالأهم كسائر الموقوف وكذا إن لم يعلم غرض الغارس انتهى."

    (كتاب الوقف،3/318،ط:رشيدية)

وفي البحر:

          "وما غرس في المساجد من الأشجار المثمرة إن غرس للسبيل وهو الوقف على العامة كان لكل من دخل المسجد من المسلمين أن يأكل منها وإن غرس للمسجد لا يجوز صرفها إلا إلى مصالح المسجد الأهم فالأهم كسائر الوقوف ( ( ( الوقف ) ) ) وكذا إن لم يعلم غرض الغارس"

 (كتاب الوقف،5/342،343،ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

          "جعلت حجرتي لدهن سراج المسجد ولم يزد عليه صارت الحجرة وقفا على المسجد كما قال وليس للمتولي أن يصرف إلى غير الدهن كذا في المحيط"

(كتاب الوقف،5/319،ط:رشيدية)

وفي المحيط:

"متول عليه مشرف ليس للمشرف أن يتصرف في الوقف؛ لأن المفوض إلى المشرف الحفظ لا غير"

   (كتاب الوقف،الفصل الحادي والعشرون في المسجد..،7/139،ط:الغفارية)

وفي النهر:

"في (الحاوي القدسي) حيث قال ما لفظه: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف ذلك أم لا ثم ما هو أقرب للعمارة وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط هذا إذا لم يكن معيناً فإن كان معيناً على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء ويدخل في الإمام الخطيب لأنه إمام الجمعة"

    (كتاب الوقف،3/322،ط:رشيدية)

وفي الشامية:

          "والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر

كفايتهم ثم السراج و البساط كذلك إلى آخر المصالح هذا إذا لم يكن معينا فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء. قال في البحر والسراج بالكسر القناديل ومراده مع زيتها والبساط بالكسر أيضا الحصير ويلحق بهما معلوم خادمهما وهو الوقاد والفراش فيقدمان وقوله إلى آخر المصالح أي مصالح المسجد يدخل فيه المؤذن والناظر ويدخل تحت الإمام الخطيب لأنه إمام الجامع"

(كتاب الوقف،مطلب يبدأ....،6/563،ط:رشيدية)

وفي الشامية:

          "عن الفتح من قوله إن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به"

(كتاب الوقف،مطلب في نقل الكتب من محلها،6/61،ط:رشيدية)۔فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 169/157,160