علمائے کرام کا وعظ وتبلیغ کی غرض سے ٹی وی پر آنا

Darul Ifta mix

علمائے کرام کا وعظ وتبلیغ کی غرض سے ٹی وی پر آنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تصویر، شبیہ، عکس ، مورتی میں فرق اور ویڈیوز، تصویر اور ٹی وی کے متعلق کچھ مسائل کو شریعت کی روشنی میں معلوم کیا جائے، تاکہ الله رب العزت کا قانون اور راستہ واضح ہو جائے اور عوام میں طرح طرح کے اشکالات کو مدنظر رکھ کر اصل حقیقت لوگوں تک پہنچائی جائے، چوں کہ عمومی طور پر تصویر، ویڈیو وغیرہ کے متعلق علمائے کرام کے عمل اور نام سے دلیل دی جاتی ہے اور ان معاملات میں عوامی طور پر تو بالکل بھی احتیاط نہیں کی جاتی، بلکہ ہر اردو پڑھنے والا مفتی بننا چاہتا ہے اور دھڑا دھڑحلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی سعی میں آخرت سے بے فکر ہے، اس لیے علمائے کرام کے نام سے ہی سوالات عرض کیے ہیں، گزارش ہے کہ ہر بات کا نمبر وار جواب تفصیلاً ارشاد فرما دیں، تاکہ ہم کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
1…جاندار کی مورتی، مجسمہ، شبیہ، عکس میں فرق واضح فرما دیں ؟ کیوں کہ عمومی طور پر انہی الفاظ کو آگے پیچھے فٹ کرکے اشکالات کیے جاتے ہیں۔
2…کیا شادی بیاہ، کرکٹ میچ، شادی ھال میں کھانے وغیرہ کی ویڈیوز بنانا او ربنوانا،چاہے وہ موبائل سے ہو یا ویڈیوکیمرے سے، جائز ہے؟ یا شرعی اصطلاح میں کیا ہے؟ اس کی علت اور حکم واضح فرما دیں۔
3…علمائے کرام کا تبلیغ دین، عقائد ومسائل، تصوف وسلوک کے لیے موبائل یا ویڈیو کیمروں سے ویڈیو بنوانا شریعت کی رو سے کیسا ہے؟ جب کہ ان ویڈیوز کو معاشرہ میں محرم غیر محرم کی تفریق کیے بغیر عموماً دیکھا جاتا ہے، کیا یہ ویڈیوز بنوانے والے مرد اور دیکھنے والی عورتیں بد نظری کرنے اور کروانے والی لعنت کے مستحق ہیں، اس زمرے میں نہیں آتا؟ او راگر کوئی یہ کہے کہ ہم تو کسی کو نہیں کہتے، عقیدت مند بنالیتے ہیں۔ یہ عُذر درست ہے کہ اُن کے عمل پر خاموشی اختیار کی جائے اور منع نہ کیا جائے ؟
4…کیا علمائے کرام کا ٹی وی پروگرامز میں شرکت کرنا یا وعظ وتبلیغ کے لیے ٹی وی پر آنا اور وعظ ونصیحت، عقائد ومسائل، تصوف وسلوک او راس کی اشاعت کے لیے ٹی وی کو ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے کہ نہیں؟ حکم اور علت واضح فرما دیں؟ جب کہ یہاں ٹی وی پر تو بدنظری کا ذریعہ بہت بڑے پیمانے پر انسان بن جاتا ہے اور کتنے مردعورتوں پر اور کتنی عورتیں مردوں پر بدنظری کرتی ہیں اور جب کوئی عورت کسی عالم کی نصیحتیں سنرہی ہوتی ہے اور تصویر بھی دیکھ رہی ہوتی ہے تو عام مردوں کی نسبت اس کا اس بدنظری والے گناہ کی طرف احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ نیکی سمجھ کر دیکھتی ہے، جب منع کیا جائے تو اُلٹا ملامت کرتی ہے۔
5…ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے پروگرام اور پہلے سے محفوظ شدہ پروگرام کی ویڈیوز میں کیا فرق ہے؟ حکم اور علت واضح فرمادیں؟
6…ارتکابِ حرام کے سوا کوئی جائز صورت وتدبیر نہ ہو تو کیا کیا جائے؟

جواب

 زمانہ ماضی میں جان دار کی شبیہ کی چار قسمیں تھیں۔
1.مورتی ومجسمہ 2. تصویر3. عکس 4. ظل اور سایہ

اب اس زمانہ میں شبیہ کی ایک اور قسم جو اسکرین پر ظاہر ہوتی ہے، وجود میں آئی ہے او رممکن ہے کہ مستقبل میں شبیہ کی کچھ او راقسام بھی وجود میں آئیں، جو اجسام لطیفہ جیسے ہوا وغیرہ پر ظاہر ہوں۔

لہٰذا اگر غور کیا جائے کہ شبیہ محرّم کی حرمت کی علت کیا ہے ؟ تو بلاشبہ رہتی دنیا تک شبیہ کی جتنی قسمیں پیدا ہوتی رہیں گی، سب کا حکم معلوم ہو جائے گا۔

جاندار کیشبیہ سے متعلق احادیثِ مبارکہ او ران کی شروح کے مطالعہ اور ان پر غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علّتِ حرمتمضاہاة لخلق الله ( الله پاک کی صِفتِ تخلیق کی مشابہت اور نقّالی) ہے، چوں کہعکس اور ظل میں انسان کی صنعت واختیار کو کچھ بھی دخل نہیں، کوئی شخص جب بھی پانی یا کسی چمک دار شے کے مقابل جاتا ہے، تو خود بخود اس کا عکس بن جاتا ہے، اس لیے یہ شبیہ محرم سے خارج ہیں اور مجسمہ اور تصویر دونوں امورِ اختیار یہ میں سے ہیں، ان میں انسان کی صنعت کا دخل ہے، اس لیے یہ شبیہ محرم میں داخل ہیں، پس جاندار کی شبیہ محرم کی کامل علت وہ مضاہاة ہے، جس میں انسان کی صنعت واختیار کا دخل ہو، لہٰذا جہاں یہ علت ہو گی وہاں حرمت کا حکم ہو گا، ورنہ نہیں۔

حضراتِ فقہائے کرام نے مجسمہ، تصویر اور عکس وظل کی تعریفوں میں انسان کی صنعت واختیار کے ہونے اور نہ ہونے کے فرق کا لحاظ رکھا ہے۔

1..علامہ قرطبی۔ رحمہ الله۔ تفسیر قرطبی میں مجسمہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”والتمثال اسم للشیء المصنوع مشبھا بخلق من خلق الله تعالی․“

اس میں مصنوع کی صراحت ہے اور یہ وہ مصنوع ہے جو انسان کی صنعت واختیار کے بعد وجود میں آتا ہے۔

2..علامہ کرمانی۔ رحمہ الله۔ مصور کی تعریف میں فرماتے ہیں:
”المصوِّر ھو الذي یصور أشکال الحیوان․“

یصور میں انسان کی صنعت واختیار کی صراحت ہے۔

3..عکس کی تعریف میں علامہ شامی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”ویعبرون عنہ بالانطباع، وھو أن المقابل للصقیل تنطبع صورتہ ومثالہ فیہ، لا عینہ، ویدل علیہ تعبیر قاضیخان بقولہ: لأنہ لم یر فرجھا، وإنما رای عکس فرجھا، فافھم․( الشامیة:117/4، ط: رشیدیہ)

اس میں لفظِ الانطباع اور تنطبع دونوں بتارہے ہیں کہ عکس میں انسان کی صنعت اور اختیار کا کوئی دخل نہیں۔

مختصر تفصیل اور تعیین علت کی وضاحت کے بعد اب اسکرین پر نمودار ہونے والے منظر کی حقیقت اور حکم دونوں ظاہر ہوں گے کہ یہ شبیہ محرم یعنی تصویر میں د اخل ہے اور حرام ہے، کیوں کہ علتِ حرمت، یعنی مضاہاة لخلق الله مع صنعت واختیار، تصویر کی طرح اس میں بھی پوری کی پوری پائی جاتی ہے۔

2…شادی بیاہ، کرکٹ میچ، فٹبال میچ یا دیگر تقریبات وغیرہ میں ویڈیو بنانا اور بنوانا مطلقاً ( چاہے موبائل کے ذریعے سے ہو یا ویڈیو کیمرہ وغیرہ کے ذریعے ہو) حرام وناجائز ہے، کیوں کہ مذکورہ تفصیل کے مطابق یہ تصویر ہی میں د اخل ہیں، اس لیے ویڈیو وغیرہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔

3…،4.. جہاں دینِ اسلام نے ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے وہاں تبلیغ کے باوقار آداب اور طریقے بھی بتلائے ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور آداب کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کام یاب ہوتے ہیں، تو یہی مقصود ِ اصلی ہے اور اگر بالفرض جائز ذرائع کو اپنانے سے ہمیں مکمل کام یابی نہیں ملتی، تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع استعمال کرکے ہم لوگوں کو دین کی دعوت دیں، حق کی تبلیغ واشاعت صرف حق طریقوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔

دنیا میں جس بُرائی کا رواج بڑھ جاتا ہے اسے نہ صرف جائز اور حلال کرنے کی سعی کی جاتی ہے، بلکہ اسے اسلام کی تبلیغ وترقی کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر کسی علاقے کے لوگوں کا سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی شبیہ دیکھ کر مسلمان ہونا ممکن ہو ، تو کیا مسلمان ( العیاذ بالله) آپ صلی الله علیہ وسلم کی فرضی تصویر شائع کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے ؟ او راس فعلِ شنیع کو جائز قرار دیا جائے گا؟ قطعاً نہیں۔

لہٰذا ٹی وی، موبائل یا ویڈیو کیمروں کے ذریعے دین کی تبلیغ واشاعت جائز نہیں اور اسکرین پر نمودار ہونے والے مرد حضرات کو خواتین کے لیے دیکھنا بد نظری ہی کے زمرے میں داخل ہے ، لہٰذا اس لعنت سے بچنا چاہیے۔

5…ٹی وی پر نظر آنے والے نقوش حرام تصویر کے حکم میں داخل ہیں، چاہے براہِ راست نشر ہونے والے ہوں یا پہلے سے محفوظ شدہ ہوں، بے شمار احادیث مطلقاً تصویر کی حرمت پر دال ہیں، ان میں نہ تو ناپائیدارو غیر مستقر کا ذکر ہے اور نہ ہی پائیدار ومستقر کا، نیز احادیث میں جاندار کی تصویر بنانے کی حرمت کی ایک علت صفتِ خالقیت میں اس کی نقالی کرنا ہے اور یہ ظاہری نقالی او رمشابہت ہر دو صورتوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، اس لیے براہِ راست نشر ہونے والے اور پہلے سے محفوظ شدہ تصویروں میں کوئی فرق نہیں، دونوں حرام ہیں۔

6…عوام کو جائز طریقوں سے باخبر رکھنا ممکن ہے، اس کے لیے ارتکاب حرام جائز نہیں، نیز حلال ملازمت کے لیے بھی بے شمار پیشے موجود ہیں، ان کو اختیار کیا جائے ، حرام سے بچنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی