زیورات کی خرید وفروخت کے چند شرعی احکام

Darul Ifta mix

زیورات کی خرید وفروخت کے چند شرعی احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ میں سنہار کا کام کرتا ہوں۔ ایک عرصہ سے متفکر ہوں کہ ہمارے یہاں سونے کو آرڈر پر تیار کرنے اور اس کی خرید وفروخت کی مختلف صورتیں شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں، لہٰذا درج ذیل چند صورتیں مذکور ہیں ان کا شرعی حکم اورناجائز ہونے کی صورت میں تصحیح او رمتبادل ارشاد فرما کر ممنون فرمائیں ۔ جزاکم الله خیراً․
1..اگر سونا 12 گرام فروخت کیا جائے تو اس میں ایک گرام پالش اور ملاوٹ ہوتی ہے، لیکن گاہک سے پورے 12گرام سونے کی ہی قیمت وصول کی جاتی ہے، یعنی ایک گرام پالش اور ملاوٹ کو بھی سونا شمار کرکے اس کی قیمت سونے کے بھاؤ وصول کی جاتی ہے او راب یہ عرف بن چکا ہے۔
2..ڈیلر سے اگر 30 گرام سونا ادھار خریدا، کچھ عرصہ بعد جب اس کی قیمت ادا کریں گے تو اس وقت سونے کے ریٹ کے حساب سے ہوگی۔ کبھی کبھی سونے کے بدلے سونا بھی دے دیا جاتا ہے، اگر اس صورت میں سونے کی قیمت کم زیادہ ہوتی ہے تو اسی کا ہی حساب ہوتا ہے۔
وضاحت: مذکورہ معاملہ میں ادھار کی مدت متعین نہیں ہوتی۔
3..اگر کوئی شخص اپنا سونا بیچنے کرنے کے لیے آتا ہے تو دکان دار اندازہ سے ملاوٹ کی رقم کاٹ لیتا ہے، یہ اندازہ سو فی صد درست نہیں ہوتا، کبھی کم ہوتا ہے کبھی زیادہ، نیز ملاوٹ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ بھی معلوم نہیں ہے، لہٰذا اندازہ کی بنیاد پر اس طرح معاملہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
4..لیبارٹری میں اگر مثلاً10 گرام سونا دیا جاتا ہے تو وہ اس میں سے 2 گرام کھوٹ(ملاوٹ) کو نکال کر8 گرام واپس کرتے ہیں او راس سونے کو پرکھنے او رجانچنے کی اپنی مزدوری وصول کرتے ہیں، تو آیا دس گرام سونا دے کر آٹھ گرام ( خالص) سونا لینا کیسا ہے؟
وضاحت: لیبارٹری والوں کو جو سونا دیا جاتا ہے وہی سونا واپس کرتے ہیں ، لیبارٹری والے مزدوری کرنسی کی شکل میں وصول کرتے ہیں۔
5..اگر دکان دار سے کسی نے 30 ہزار کا سونا خریدا او رکچھ دن بعد واپس کرنا چاہتا ہے تو دکاندار اسے پوری رقم واپس نہیں لوٹائے گا، بلکہ سونے کے وزن کے اعتبار سے کٹوتی کرے گا، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
6..گاہک نے مثلاً5 گرام (ملاوٹ شدہ) سونا دیا، دکان دار اس سے کاٹ (ملاوٹ) نکال کر اس کا وزن کرتا ہے او راس کے بدلے گاہک 4 گرام سونا (ملاوٹ شدہ) لیتا ہے جس پر پالش بھی ہوتی ہے۔ کیا یہ معاملہ جائز ہے؟ یہ تبادلہ کی صورت ہے۔
7..گاہک نے ایک تولہ سونا خریدا، اس کا وزن ایک تولے سے کم ہوتا ہے، باقی کچھ ملاوٹ او راس پر پالش کا وزن ہوتا ہے، گاہک پورے ایک تولے کی قیمت ادا کرتا ہے، دکان دار کا کہنا ہے کہ ملاوٹ او رپالش کے بدلے حاصل ہونے والی رقم اس کی اس سونے پر مزدوری کی اجرت ہوتی ہے، کیوں کہ وہ الگ سے نہیں لی جاتی اور گاہک کو ملاوٹ کا علم بھی نہیں ہوتا۔
8..دکا ن دار نے جب ڈیلر سے سونا خریدا تو اس میں2 گرام ملاوٹ تھی، ڈیلر نے دکان دار کو اس ملاوٹ پر مطلع بھی کیا، مگر اس نے دکان دار سے صرف ایک گرام ملاوٹ کی رقم سونے کے بھاؤ حاصل کی اور اب دکان دار آگے گاہک سے 2 گرام ملاوٹ کی رقم وصول کرتا ہے، مگر گاہک اس ملاوٹ سے لا علم رہتا ہے، یعنی دکان دار سے ڈیلر ملاوٹ کی رقم بتلا کر وصول کرتا ہے اور دکان دار اس ملاوٹ کی دگنی رقم گاہک سے وصول کرتا ہے، مگر اسے بتاتا نہیں۔ ان دونوں معاملات کا شرعی حکم کیا ہے؟
9..اگر کسی جگہ سونے کی خریدوفروخت کی صورتیں شرعی نقطہ نظر سے ناجائز ہوں، تو ایسی جگہ کسی کا ملازمت کرنا اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ سونے کے زیورات بنانے کے لیے خالص سونے میں ایک خاص معین مقدار کسی دوسری دھات کی ملاوٹ ضروری ہوتی ہے، اس کے بغیر خالص سونے کے زیورات بنانا تقریباً ناممکن ہے، لیکن اس ملاوٹ میں حتی الامکان عالمی معیار یا مقامی معیار کی پابندی کرنی چاہیے اور جس قدر سونے میں ملاوٹ کی گئی ہے یا پالش لگائی ہے، خریدار پر سودا کرتے وقت اچھی طرح اس کی وضاحت کر دینا ضرور ی ہے، وضاحت کے بعد خریدار کی جتنی رقم پر رضا مندی ہو جائے، معاملہ درست ہو گا۔
2..سونے کی خرید وفروخت کرنسی کے ساتھ ہو تو ادھار بھی درست ہے، لیکن ادھار کی صورت میں قیمت کی مقدار اورادائیگی کی مدت معلوم ہونا ضروری ہے۔

صورت مسئولہ میں نہ قیمت معلوم ہوتی ہے اور نہ ادائیگی کی مدت کی کوئی تعیین ہوتی ہے، اس لیے مذکورہ معاملہ درست نہیں، البتہ ان باتوں کا اگر خیال رکھا جائے تو سونے کی خرید وفروخت کرنسی کے ساتھ ادھار جائز ہو گا، بشرطیکہ سونے پر مجلس عقد میں قبضہ کر لیا جائے۔

سوال کا دوسرا جز” کبھی کبھی سونے کے بدلے سونا بھی دے دیا جاتا ہے، اگر اس صورت میں سونے کی قیمت کم زیادہ ہوتی ہے تو اس کا ہی حساب ہوتا ہے“ بھی ناجائز معاملہ کی صورت ہے، اس لیے کہ سونے کی سونے کے ساتھ خرید وفروخت نہ ادھار جائز ہے اور نہ کمی بیشی کی صورت میں ، البتہ جواز کی صورت اس میں یہ ہوگی کہ دکان دار ڈیلر سے سونا خرید کر قیمت او رمدت ادائیگی طے کرلے، پھر اس قیمت کے عوض اگر ڈیلر کو سونا دینا چاہے تو دینا جائز ہو گا۔

3..صورت مسئولہ میں دکا ندار گاہک کا سونا اگر کرنسی کے بدلے خرید رہا ہو تو آسان صورت یہ ہو گی کہ ملاوٹ کی کٹوتی نہ کرے، بلکہ اندازے سے کل رقم بتا دے کہ اتنے میں مکمل سونا لوں گا، پھر جتنے پر رضا مندی ہو جائے، درست ہوگا۔
4..سوال میں مذکورہ معاملہ درست ہے۔
5..صورت مسئولہ میں اگر واپسی سے مراد پہلا سودا ختم کرنا ہو تو اس صورت میں سابقہ قیمت پوری لوٹانا ضرور ی ہے کمی یا زیادتی کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر زیوارت میں کوئی نقص پیدا ہو گیا ہو تو اس کے بقدر قیمت کم کرکے پورا واپس لینا بھی جائز ہے۔ اور اگر واپسی سے مراد ان فروخت شدہ زیورات کو دوبارہ خریدنا ہو تو اگر سابقہ بیع کی قیمت دکان دار پوری پوری وصول کرچکا ہو، تو دوبارہ کم قیمت پر خریدنا جائز اور اگر سابقہ بیع کی رقم ابھی تک گاہک کے ذمہ ہو تو پھر کم قیمت پر خریدنا درست نہیں ہے۔
6..سونے کا سونے کے ساتھ تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ ناجائز ہے، اس لیے مذکورہ معاملہ جائز نہیں، البتہ تبادلہ کے بجائے اگر معاملہ اس طرح ہوجائے کہ دکان دار گاہک سے مثلاً پانچ گرام سونا قیمتاً خریدلے اور اس قیمت کے عوض گاہک پر دوسرے عقد کے ساتھ اپنا خالص سونا فروخت کر دے، چاہے چار گرام ہو یا اس سے کم زیادہ، جتنے پر رضا مندی ہوجائے، درست ہو گا۔
7..صورت مسئولہ میں گاہک اگر سونا کرنسی کے بدلہ خرید رہا ہے تو دکان دار کے لیے گاہک سے زیورات پر مزدوری کی اجرت وصول کرنا درست ہے، لیکن اس بات کا لحاظ ضرور ی ہے کہ گاہک پر سب کچھ کی وضاحت کردی جائے، جیسا کہ جواب نمبر(1) میں تفصیل سے گزر گیا۔
8..مذکورہ صورت میں ڈیلر اور دکان دار کا معاملہ تو بے غبار ہے کہ اس میں ڈیلر نے دکان دار کو سونے میں موجود ملاوٹ پر مطلع کیا ہے، جب کہ قیمت ان کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے۔

البتہ دکان دار کا گاہک کے ساتھ معاملہ میں گاہک کو سونے میں موجود ملاوٹ پر مطلع نہ کرنا دھوکہ ہے، جس طرح ڈیلر نے دکان دار کو مطلع کیا ہے، اسی طرح دکان دار کے لیے بھی گاہک کو مطلع کر نا ضروری ہے۔ باقی قیمت دونوں کی باہمی رضا مندی سے جتنی طے ہو جائے، درست ہے۔

9..انسان کسی چیز میں جس قدر چاہے اپنا مالکانہ تصرف شرعی حدود کے اندر کرسکتا ہے، لیکن آدمی جب دوسرے شخص کی ملازمت اختیار کر لیتا ہے تو وہ اس کے ماتحت رہ کر کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں احکام شرعیہ کی پامالی ہوتی ہے۔

ایسی صورت میں باوجود معلوم ہونے کے کہ خرید وفروخت کی صورتیں شرعی نقطہ نظر سے ناجائز ہیں، نہ ایسی ملازمت درست ہے، نہ اس کی تنخواہ لینا، اس صورت میں اس شخص کو چاہیے کہ خرید وفروخت کے شرعی احکام معلوم کر لے او رمالک کو اس کے مطابق عمل کرنے کا بتلا دے، ان شاء الله! وہ مان لے گا، ورنہ دوسری ایسی جگہ ملازمت اختیا رکر ے، جہاں خرید وفروخت کی صورتیں شرعی نقطہ نظر سے درست ہوں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی