رسم ورواج کی تعریف و اقسام اور ہر ایک کا حکم

Darul Ifta mix

رسم ورواج کی تعریف و اقسام اور ہر ایک کا حکم

سوال

: کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ رسم و رواج کی تعریف شریعت مطہرہ میں کیا ہے؟ اور ان کی اقسام کون کون سی ہیں جس سے ان کا حکم معلوم ہوجائے ۔ راہنمائی درکار ہے ۔

جواب

رسم ورواج کی تعریف یہ ہے کہ روز مرہ کے وہ معاملات جو ذوقِ سلیم کے نزدیک پسندیدہ اور مقبول ہوں، رسم ورواج کئی قسم کے ہوسکتے ہیں
۱۔ وہ رسم ورواج جس کو ائمہ مجتہدین اور تابعین نے اجماع، استحسان اور عرف کے ذریعہ اسلامی قانون میں داخل کیا ہے۔
۲۔ وہ رسم ورواج جو قوموں کی تہذیب وتمدن ہو، اور شرعی تقاضوں اور انسانی فطرت سے متصادم نہ ہوں، یہ دونوں قسمیں جائز ہیں۔
۳۔ وہ رسم ورواج جس کو لوگ جائز سمجھتے ہوں، مگر وہ خلاف سنت اور خلاف شرع ہو،جیسے:شادی بیاہ کی بعض رسومات۔
۴۔ وہ رسم ورواج جن میں غیر مسلم مذہب کی پیروی یا مشابہت ہو،جیسے:سالگرہ منانا۔
۵۔ وہ رسم ورواج جس کو لوگ دین سمجھ کر کرتے ہوں،حالانکہ قرونِ اولیٰ میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو،جیسے:تیجہ ، چالیسواں،یہ تینوں قسمیں ناجائز ہیں۔
لما في شرح عقود رسم المفتی:
قال في المستصفیٰ:(العرف والعادة:ما استقر فی النفوس من جهة النقول،وتلقته الطباع السليمة بالقبول).
(تعریف العرف وحجیته:67،ط:البشریٰ).
وفي الأشباه:
العادة محکمة وأصلها قوله عليه السلام ماراہ المسلمون حسنا فهو عندالله حسن.(القاعدة السادسة:1/268،ط:إدارة القرآن).
وفي الإعتصام:
إن السلف الصالح وأعلاهما الصحابة رضي الله عنهم قد عملوا بما لم یأت به کتاب ولاسنة مما رأوه حسنا وأجمعوا عليه.(باب في ان ذم البدع:144،ط:دارالمعرفة).
وفي التنزیل:
﴿فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ﴾(الروم:30).
وفي سنن أبي داؤد:
عن ابن عمر قال قال رسـول الله -صلى الله عليه وسلم- « من تشبـــــه بقوم فهو منهم ».(کتاب اللبـــــاس، بــــاب ماجــاء في الأقبيــة(رقم الحدیث:4031) ص:569،ط:دارالسلام).
وفي صحیح البخاري:
قال النبي -صلى الله عليه وسلم- «من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد ».(کتاب البیوع، باب النجش،ص:357، ط:دارالکتب).
وفي مرقاة المفاتیح:
قال النووي البدعة كل شيء عمل على غير مثال سبق وفي الشرع إحداث ما لم يكن في عهد رسول الله-صلى الله عليه وسلم-.(کتـــــــاب الإیمان:1/368،ط:رشیــــدية) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:171/192