جھوٹی گواہی دینے کے بعد توبہ کا طریقہ

Darul Ifta mix

جھوٹی گواہی دینے کے بعد توبہ کا طریقہ

سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے پڑوس میں ایک خاتون عرصہ دراز سے رہائش پذیر تھیں، کچھ عرصہ قبل ان کاانتقال ہو گیا، ان کا ایک رشتہ دار لڑکا، جو کہ اس خاتون کے ساتھ رہائش پذیر تھا، اس نے مجھ سے ایک بیان حلفی پر گواہی دلوائی اورد ستخط کروائے کہ وہ لڑکا اس خاتون مرحومہ کا سگا بھانجا ہے اور میں نے اس بیان حلفی پر دستخط کر دیے۔ اس کے بعد میں نے تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ جو بیان حلفی پر میں نے دستخط کیے ہیں وہ جھوٹ ہے، وہ لڑکا اس خاتون مرحومہ کا سگا بھانجانہیں ہے۔

مجھے اندھیرے میں رکھ کر مجھ سے جھوٹ بول کر یہ گواہی دلوائی گئی ہے ،اس وقت میں نے توبہ واستغفارکی، میں اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوں اور خود کو گناہ گار سمجھ کر پریشان ہوں۔

آپ جناب سے درخواست ہے قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟

وضاحت… اس خاتون کا بینک میں اکاؤنٹ تھا، جس میں کافی رقم تھی، خاتون کے انتقال کے ایک سال بعد بینک سے ایک لیٹر آیا، جس میں یہ بتایا گیا کہ اس خاتون کا کوئی وارث ہے تو یہ رقم وصول کر لے، ورنہ یہ رقم بینک ہی کی ہو جائے گی، وہ لڑکا جو کافی عرصہ سے خاتون کے ساتھ رہائش پذیر تھا اس نے آکر مجھے بتایا کہ بینک سے یہ رقم وصول کرنی ہے ،میں اس خاتون کا سگا بھانجا ہوں، میں نے اس پر اعتماد کرکے حلفیہ گواہی دی اور دستخط کر دیا، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ لڑکا اس خاتون کا سگا بھانجا نہیں ہے، بلکہ ماموں زاد کا بیٹا ہے اور اس خاتون کا کوئی اور رشتہ دار نہ یہاں ہے اور نہ اس کے بارے میں مجھے علم ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس جھوٹی گواہی کی و جہ سے مجھ پر کوئی خیرات وغیرہ لازم آتی ہے؟ یا او رکوئی صورت ہو تو وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ نے اس لڑکے کو تحقیق کے بغیر خاتون کا سگا بھانجا کہہ کر جھوٹی گواہی دی اور اس پر دستخط کرکے گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، اگر واقعةً اس خاتون کا قریبی وارث (مثلاً: اولاد، والدین، بہن بھائی، بھتیجا، چچا، چچازاد وغیرہ) موجود نہ ہو، تو پھر بالآخر یہ رقم اس لڑکے ہی کو ملنی تھی، لیکن آپ سگا بھانجے ہونے کی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کے مرتکب ہوگئے ہیں، اس لیے آپ پر صرف توبہ واستغفار لازم ہے، لیکن اگر اس خاتون کے قریبی وارث زندہ ہیں، تو آپ کی جھوٹی گواہی کی وجہ سے وہ اس رقم سے محروم ہو گئے ہیں، لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ ان کے قریبی ورثاء کو اس رقم کے بارے میں مطلع کریں ، اگر اس خاتون کے قریبی ورثاء کے بارے میں آپ کو علم ہی نہیں اور نہ آسانی سے ہو سکتا ہے تو پھر آپ توبہ واستغفار کرتے رہیں، الله تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ اس فعل پر آپ سے مؤاخذہ نہیں فرمائیں گے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی