تعزیت کے متفرق مسائل

Darul Ifta mix

تعزیت کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ!

۱۔ تعزیت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

۲۔ تعزیت کے موقع پر پہلے تلاوت کرناپھرہاتھ اٹھاکر دعا کرنا کیسا ہے؟کیا خیر القرون میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟

۳۔ تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانے کا کیا حکم ہے؟

۴۔ ہمارے ہاں تعزیت سے جاتے وقت دوبارہ  ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

۵۔ فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے تعزیت کے بارے میں جو الفاظ ذکر کیے ہیں کیا بعینہ  یہی الفاظ ،یا ان الفاظ کا مضمون کسی حدیث سے ثابت ہے؛اور بعینہ یہی الفاظ کہنا ضروری ہے،یا ان کے علاوہ دوسرے الفاظ سے بھی سنت ادا ہوجائے گی؟

۶۔ اس نیت سے تعزیت پر جانا کہ فلاں ناراض ہوجائے گا،کیا تعزیت کا جو ثواب ہے اس کا شخص کو ملے گا۔

۷۔ تعزیت کے مسئلے کا تعلق عرف سے ہے یا نہیں؟ یعنی جس علاقے کا جو عرف ہواس کے مطابق تعزیت کرنی چاہیے یا اس کے لیے شریعت میں متعین طریقہ ہے؟

۸۔ تعزیت کے لیے پسماندگان کے پاس جانا ضروری ہےیا خط  و فون وغیرہ کے ذریعے سے بھی تعزیت کرنے کا وہی ثواب ملے گاجو جانے سے ملتا ہے؟

۹۔ شریعت نے تعزیت کے لیے جو تین دن مقرر کیے ہیں ، ان کی ابتداء کب سے ہے؟یعنی موت کے وقت سے یا تدفین کے بعد سے شرو  ع ہوتے ہیں؟

۱۰۔ تعزیت کے لیے کچھ لوگ بیٹھتے ہیں  ان کا بیٹھنا تین دن تک صحیح ہے یا نہیں؟اگر صحیح نہیں تو پھر شریعت میں اس بیٹھنےکا کیا حکم ہے ؟  یعنی حرام ،مکروہ یا خلاف اولیٰ ؟

۱۱۔ تعزیتی جلسہ کا کیا حکم ہے؟ خیرالقرون میں اس کی مثال موجود ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1۔واضح رہے کہ تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کے متعلقین کو تسلی دی جائے، ان کو سکون پہنچایا جائے، صبر کے فضائل سنا  کر صبر کی تلقین کی جائے اور میت کے لئے دعائے مغفرت کی جائے۔

2،3۔تعزیت کے موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے تعزیتی کلمات تو ثابت ہیں لیکن پہلے تلاوت کرنا اورپھر ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں، لہذا تعزیت کے موقع پر اجتماعی ہیئت میں التزام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

4۔تعزیت کرنے والوں کا تعزیت سے واپس جاتے ہوئے دوبارہ دعا کرنا خود ساختہ امر ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔

5۔فقہاء کرام نے تعزیت کے جو الفاظ ذکر کیے ہیں، وہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں، اور  اس سے مقصود تعزیت ہے،چاہے وہی الفاظ ہوں یا ان کے ہم معنی کوئی دوسرے الفاظ ہوں۔

6۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا  ہے، اگر تعزیت کرنے والا ثواب کی نیت سے تعزیت کرے گا  تو اس کو تعزیت کا ثواب ملے گا اور اگراس کی نیت فقط لوگوں کو راضی کرنا ہو تو ریاکاری اور باعث عقاب و عذاب ہو گا۔

7۔تعزیت کا مسئلہ معاشرت سے متعلق ہے  اور اس بارے میں شریعت مطہرہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک   تعلیمات میں  واضح راہنمائی موجود ہے، جس کی موجودگی میں رسم و رواج کو ترجیح دینا  قطعاً  نامناسب ہے اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔

8۔تعزیت کی اصل حقیقت تسلی دینا ، صبر کی تلقین کرنا اور میت کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ میت کے لواحقین کے پاس جا کر ان سے تعزیت کی جائے، البتہ اگر اس کا موقع نہ ہو تو فون، خط یا دیگر کسی ذریعہ  ابلاغ سے تعزیت کرنا صحیح  اور درست ہے۔

9۔تعزیت کا وقت وفات کے وقت سے شروع ہوتا ہے ، اگرچہ دفن کے بعد افضل ہے، کیوں کہ دفن کے بعد غم زیادہ ہوتا ہے۔

10۔تعزیت کے لئے تین دن تک بیٹھنے کی گنجائش  ہےمگر ضروری نہیں ہے ، اگر کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کیا جائے تو  اس میں حرج نہیں تاکہ لوگ ان تین دنوں میں آکر تعزیت کر لیں، نیز بلاضرورت ایک سے زائد مرتبہ تعزیت کے لئے جانا مکروہ ہے۔

11۔ معلوم رہے کہ تعزیتی جلسہ حقیقت میں شرعی تعزیت نہیں بلکہ اس کا مقصد کسی شخصیت کی دینی و ملی خدمات اور مجاہدانہ  کارناموں کو خراج تحسین پیش کرنے یا ان کے نقش  پا  پر چلنے کے  عزم اور اظہار کے لئے کوئی جلسہ منعقد کیا جائے تو اس کی شریعت میں گنجائش ہے بشرطیکہ اس میں کوئی خلافِ شرع عمل نہ ہو۔

لما في الشامية:

 ( وبتعزية أهله ) أي تصبيرهم والدعاء لهم به  قال في القاموس العزاء الصبر أو حسنه وتعزى انتسب اه  فالمراد هنا الأول وفيما قبله الثاني فافهم............ وقوله عليه الصلاة والسلام من عزى مصابا فله مثل أجره رواه الترمذي وابن ماجه والتعزية أن يقول أعظم الله أجرك وأحسن عزاءك وغفر لميتك اه.

(مطلب في دفن الميت:174/3،ط:رشيدية).

و فيه أيضا:

ولكن يكره.......... بالجلوس لها في غير مسجد ثلاثة أيام. قوله ( وبالجلوس لها ) أي للتعزية واستعمال لا بأس هنا على حقيقته لأنه خلاف الأولى كما صرح به في شرح المنية  وفي الأحكام عن خزانة الفتاوى الجلوس في المصيبة ثلاثة أيام للرجال جاءت الرخصة فيه....... لكن في الظهيرية لا بأس به لأهل الميت في البيت أو المسجد والناس يأتونهم ويعزونهم.

(مطلب:في كراهة الضيافة من أهل الميت:3/173،176،ط: رشيدية)

وفي صحيح للخاري:

عن أبي موسى رضي الله عنه قال : لما فرغ النبي صلى الله عليه و سلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس................... وقال قل له استغفر لي فدعا بماء فتوضأ ثم رفع يديه فقال ( اللهم اغفر أبي عامر لعبيد).

(باب غزوة أوطاس:731،رقم الحديث:4323،ط:دارالسلام).

و في الأذكار:

وأما لفظةُ التعزية فلا حجرَ فيه، فبأيّ لفظ عزَّاه حصلت . واستحبَّ أصحابُنا أن يقول في تعزية المسلم بالمسلم : أعْظَمَ اللَّهُ أجْرَكَ، وأحْسَنَ عَزَاءَكَ، وَغَفَرَ لمَيِّتِكَ.

(باب التعزية:106،ط:دار إبن حزم).

و في الشامية:

قوله ( وأولها أفضل ) وهي بعد الدفن أفضل منها قبله لأن أهل الميت مشغولون قبل الدفن بتجهيزه ولأن وحشتهم بعد الدفن لفراقه أكثر وهذا إذا لم ير منهم جزع شديد وإلا قدمت لتسكينهم.

(مطلب في كراهية الضيافة:3/177،ط: رشيدية)

و في البحر:

ولا بأس بالجلوس إليها ثلاثا من غير ارتكاب محظور.

(كتاب الجنائز ،فصل:السلطان أحق بصلاته:2/207،رشيدية) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 167/46,54