بڑے بھائی کی موجودگی میں چھوٹے بھائی کا امر بالمعروف کرنا

Darul Ifta mix

بڑے بھائی کی موجودگی میں چھوٹے بھائی کا امر بالمعروف کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ گھر میں سرپرست موجود ہیں،لیکن چھوٹا بھائی کوئی قانون نافذ کرنا چاہے ،مثلاً بچے فلاں وقت موبائل استعمال کریں گے،فلاں وقت استعمال نہیں کریں گے، فلاں وقت میں گھر سے باہر جائیں گے،کیا اس طرح امر بالمعروف کرنا سرپرست کے ہوتے ہوئے جائز ہے کہ نہیں؟ جبکہ سرپرست اس معاملے میں تھوڑا غافل بھی ہو،راہنمائی فرمائیں ۔ شکریہ

جواب 

واضح رہے کہ اولاد کی تربیت کرنا والدین کا اہم فریضہ ہے،قرآن وحدیث میں بہت تاکید کے ساتھ اس کو بیان کیا گیا ہے،حدیث مبارکہ میں ہے کہ:‘‘تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا’’، لہٰذا سرپرست کو چاہئے کہ بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دےاور ان کی تربیت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر ممکن کوشش کرے اور اس میں غفلت نہ برتے،ان کو ہر اس کام سے منع کرے جس میں ان کا دینی اور دنیاوی نقصان ہو،یا ان کا مستقبل برباد ہورہا ہو،بالخصوص آج کل کے زمانے میں جہاں فتنوں کا سیلاب اُمڈ آیا ہے،ہر طرف فتنے ہی فتنے ہیں، ان میں سے خاص کر موبائل فون کا فتنہ جو دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بہت ہی خطرناک ہے، اور یہ بچوں کا مستقبل برباد کردیتا ہے، لہٰذا سرپرست کو چاہئے کہ وہ بچوں کی تربیت میں محتاط رہے، کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے،لیکن وقت کے اس اہم تقاضے کے باوجود سرپرست اگر غفلت سے کام لیتا ہے اور اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا،توایسے موقع پر گھر کے دوسرے فرد کو چاہئےکہ وہ اس پر توجہ دیں اور حکمت عملی کے ساتھ ان کی تربیت کی ذمہ داری کو نبھائے کہ جس میں اپنے بڑوں ،مثلاً: بھائی وغیرہ کے ساتھ ناراضگی بھی پیدا نہ ہو اور بچوں کی بھی اس میں بہترین تربیت ہوجائے۔

         لہٰذا صورت مسئولہ میں چھوٹے بھائی کا بڑے بھائی کے ہوتے ہوئے جو کہ غفلت سے کام لیتا ہے، بچوں کی تربیت کے حوالے سے ا ن پر ایسی پابندیاں لگانا جس میں بچوں کا دینی اور دنیاوی فائدہ ہو،درست ہے۔

لما في القرآن الکریم:

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾.(سورة التحریم:6).

وفي صحیح البخاري:

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما:أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: ألا كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته فالإمام الذي على الناس راع وهو مسؤول عن رعيته،والرجل راع على أهل بيته وهو مسؤول عن رعيته والمرأة راعية على أهل بيت زوجها وولده وهي مسؤولة عنهم…(کتاب الأحکام،باب قول الله تعالیٰ:أطیعوا الله وأطیعوا الرسول…..)[رقم الحدیث:7138]، 1/1229، ط:دارالسلام).

وفي مرقاة المفاتیح:

إذا كان المنكر حراما وجب الزجر عنه، وإذا كان مكروها ندب، والأمر بالمعروف أيضا تبع لما يؤمر به، فإن وجب فواجب، وإن ندب فمندوب، ولم يتعرض له في الحديث لأن النهي عن المنكر شامل له، إذ النهي عن الشيء أمر بضده، وضد المنهي إما واجب أو مندوب أو مباح والكل معروف، ۔۔۔۔۔۔۔۔ ومن تمكن منه وتركه بلا عذر أثم، وقد يتعين كما إذا كان في موضع لا يعلم به إلا هو، أو لا يتمكن من إزالته إلا هو، وكمن يرى زوجته أو ولده أو غلامه على منكر. قالوا: ولا يسقط عن المكلف لظنه أن لا يفيد، بل يجب عليه فعله، فإن الذكرى تنفع المؤمنين، وما على الرسول إلا البلاغ المبين.(کتاب الأداب،باب الأمر بالمعروف:8/862،863،ط:رشیدية).

وفي عمدة القاري:

قوله: (كلكم راع) أصل راع راعي فاعل إعلال قاض من رعى رعاية وهو حفظ الشيء وحسن التعهد له والراعي هو الحافظ المؤتمن الملتزم صلاح ما قام عليه وما هو تحت نظره، فكل من كان تحت نظره شيء فهو مطلوب بالعدل فيه والقيام بمصالحه في دينه ودنياه ومتعلقاته فإن وفى ما عليه من الرعاية حصل له الحظ الأوفر والجزاء الأكبر وإن كان غير ذلك طالبه كل أحد من رعيته بحقه.(کتاب الجمعة،باب الجمعة في القری والمدن:6/274، ط:دارالکتب العلمية،بیروت) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:170/315