بچوں کو سزا دینے کی شرعی حیثیت او راس کے حدود

Darul Ifta mix

بچوں کو سزا دینے کی شرعی حیثیت او راس کے حدود

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام او رمفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بچوں کو مارنا (سزا دینا) کیسا ہے؟ بچوں کو سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں یا غیر حاضری، غیر اخلاقی حرکتوں یا شرارت کی صورت میں سزا دینا کیسا ہے؟ حالاں کہ بعض قراء صاحبان اس حدیث کو دلیل بناتے ہیں، مفہوم:
”حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! بچہ جب سات سال کا ہو تو اس کو نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں جب وہ نماز نہ پڑھے تو اسے سزا دو“ اس حدیث سے قراء کرام مارنے کا جواز نکالتے ہیں، حالاں کہ مدرسہ کی انتظامیہ بھی کہتی ہے کہ سزا نہ دیں، بچوں کو مارنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس حوالے سے قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیلی وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ استاد کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے، او ران کو اپنے بیٹوں کے برابر جانے جیسا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسا کہ والد اپنے لڑکے کے لیے“ اور اس بات کا اہتمام کرے کہ سخت کلمات کے بجائے نرم کلمات استعمال کرے، کیوں کہ یہ زیادہ مؤثر ہے، نیزاساتذہ کا طلباء کو سبق یاد نہ کرنے یا غیر حاضری کرنے پر مارپیٹ اور سزا دینے کے بجائے ان کو پیار محبت سے سمجھانا زیادہ مفید ہو گا، البتہ اگر معلم ومربی مناسب سمجھے تو اسے اصلاح کی نیت سے مندرجہ ذیل شرائط کو مدنظرر کھتے ہوئے شرعا سزا دینے کی بھی اجازت ہے:

سزا دینے سے مقصود شاگردوں کی ایذاء رسانی اور تکلیف نہ ہو، بلکہ ان کی تادیب واصلاح مقصود ہو۔ سزا دیتے وقت یہ گمان نہ کرے کہ میں حاکم ہوں اور یہ محکوم، بلکہ ان کی تربیت اور فائدہ پیش نظر ہو۔ نازک اعضاء پر او رایک ہی جگہ پر مسلسل مارنے سے گریز کیا جائے۔ چہرے پر مارنے سے خاص طور پر اجتناب کیا جائے۔ جسمانی سزاؤوں میں لاٹھی ( عصا)، تھپڑ اور مکے وغیرہ کے استعمال کے بجائے دیگر جسمانی سزاؤوں مثلاً ( کھڑا کروانے اور اٹھک بیٹھک کروانے) کو اختیار کرنا مناسب ہو گا۔جتنی سزا کا مستحق ہو، اس سے زیادہ سزا نہ دی جائے۔ غصے کی حالت میں سزا بالکل نہ دی جائے، کیوں کہ غصے میں انسان حد اعتدال سے بڑھ جاتا ہے اور بعید نہیں کہ غصہ کی وجہ سے غیر مستحق بھی سزا کی لپیٹ میں آجائے او رمستحقِ سزا کو حد سے زیادہ سزا مل جائے۔ ایسی مار جس سے جسم پر نشان پڑ جائیں یا دل پر اثر کرے، ہڈی تک اثر پہنچے، کھال چھل جائے یا خون نکلے ، بالکل جائز نہیں۔ سزا تجویز کرتے وقت یہ خیال رہے کہ سزا وار اس کا متحمل بھی ہے یا نہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی