ایک سے زائد وطن اصلی اور وطن اقامت کا حکم

Darul Ifta mix

ایک سے زائد وطن اصلی اور وطن اقامت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مئلہ کے بارے میں کہ عبدالله کا اصل وطن پشاور ہے، اس نے ایک گھر خریدا اسلام آباد میں ، تمام فیملی بھی وہیں مقیم ہے او رایک گھر ملتان میں ہے او رگھر میں تمام رہائش کی سہولیات موجود ہیں، لیکن رہائش مستقل نہیں ہے، ملتان اور اسلام آباد میں کس طرح نماز پڑھے گا؟ قصر یا اتمام؟ کیا صرف گھر کی تمام سہولیات کی موجودگی کی بنا پر وہ گھر وطن اصلی شمار ہو گا؟ یا وطن اقامت شمار ہو گا؟ ملتان میں ایک زمانہ قبل کافی سال گزار چکے تھے لیکن درمیان میں سب کچھ ختم کرکے وطن اصلی چلے گئے تھے، اب پھر گھر لیا ہے، اب تو وہاں 15 دن نہیں گزارے ہیں، اسلام آباد میں 15 دن کئی بار گزار چکے ہیں اور فیملی بھی سال کے 8،9 ماہ اسلام آباد میں رہتی ہے۔

پشاور سے ملتان تقریباً 500 کلو میٹر سے زیادہ، اسلام آباد سے ملتان تقریباً300 کلو میٹر سے زیادہ اور پشاور سے اسلام آباد تقریباً150 کلو میٹر سے زیادہ ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں پشاور او راسلام آباد دونوں عبدالله کے وطن اصلی ہیں، بشرطیکہ فی الحال عبدالله کا عزم یہ ہو کہ اسلام آباد میں آخر عمر تک رہے گا، اگرچہ بعد میں کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ دے۔

لہٰذ عبدالله اسلام آباد او رپشاور میں سے جس میں بھی داخل ہو گا، بغیر تجدید نیت کے اتمام کرے گا، البتہ ملتان کے گھر میں اگر پندہ دن یا اس سے زائد رہنے کی نیت ہو تو اتمام کرے گا او راگر اس سے کم مدت کی رہائش کی نیت ہو تو پھر قصر کرے گا۔

اور کہیں پر صرف گھر میں رہائش کی سہولیات کے موجود ہونے سے وہ گھر یا علاقہ وطن اصلی یا وطن اقامت نہیں بنتا، بلکہ وطن اصلی بنانے کے لیے وہاں پر مستقل رہنے کا عزم اوروہاں سے نہ جانے کا عزم ضروری ہے، اور وطن اقامت بنانے کے لیے پندرہ دن یا اس سے زائد وہیں پر ٹھہرنے کی نیت کا ہونا ضروری ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر : 158/320