استخارہ کے بجائے قرعہ اندازی

Darul Ifta mix

استخارہ کے بجائے قرعہ اندازی

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آدمی کے ذہن میں کئی پروگرام اور سوچیں ہوں، مثلاً :مفتی بننا، انگلش کورس کرنا، عربی کورس کرنا وغیرہ، لیکن وہ صحیح فیصلہ نہ کر پارہا ہو جس کے لیے وہ قرعہ اندازی کرتا ہے اور جو نام نکلے اسے ترجیح دیتا ہے، تو اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ آدمی خلاف شریعت کام تو نہیں کر رہا؟ از راہِ کرم صحیح حل بتائیں۔

جواب

قرعہ اندازی فی نفسہ مشروع عمل ہے ، لیکن اس کا محل یہ نہیں جو کہ سوال میں مذکور ہے ، چنا ں چہ ایسے موقع پر قرعہ انداری کرنا عبث، بے محل ، بلکہ بدعت کی قبیل سے ہے، کیوں کہ اگر اس سے یہ مقصود ہے کہ جو میرے لیے خیر ہو گا وہ ظاہر ہو جائے اور جو شر ہے وہ دور کر دیا جائے گا ، تو چوں کہ اس غرض کے لیے شریعت نے استخارے کا عمل مقرر فرمایا ہے، چناں چہ شریعت کے وضع کردہ امر کو ترک کرکے قرعہ اندازی کرنا اور اس پر خیر وثواب کی امید رکھنا بدعت شمار ہو گا، پھر اگر اس غلط فہمی کے پیش نظر کہ استخارے میں چوں کہ خواب کا انتظار کرنا پڑتا ہے یا قلبی میلان کے ذریعے خود ہی فیصلہ کرنا پڑتا ہے ( تو کون اتنی مشقت اٹھائے، لہٰذا کیوں نہ وہ طریقہ اپنا یا جائے کہ جس کا نتیجہ نقد اور فیصلہ اٹل ہے ) ، چناں چہ قرعہ اندازی کر لو، تو یہ جہالت اور سنت سے محروم ہو کر خود کو گمراہی میں ڈالنے کے مترادف ہے، نیز اگر اس قرعہ اندازی کو بذات خود مؤثر جانا تو ”از لام“ کی قبیل سے ہو گا جس کی کلام پاک میں واضح طور پر ممانعت آئی ہے، غرض یہ کہ مذکورہ صورت میں قرعہ اندازی کرنا جائز نہیں لہٰذا ایسی صورت میں مشورے اور استخارے کا عمل اختیار کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی