کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

 

مختلف وجوہات کی بنا پر شوہر کا بیوی کو طلا ق دینا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی ہوئے آٹھ سال ہو گے ہیں، شادی کے پہلے سال الله پاک نے بیٹا دیا، پھر بیٹی جیسی نعمت سے نوازا، تیسرے بچے کی مردہ حالت میں پیدائش کے بعد میری ساس اور میرے سالے میری بیوی کو لے گئے اور کورٹ میں بیٹے کے حصول کے لیے مقدمہ درج کیا، بچے کا رحجان کم عمری سے ہی دادی کی طرف زیادہ ہونے کی بنا پر بیٹا دادی اور باپ کو دیا گیا، ہائی کورٹ تک یہ فیصلہ محفوظ رہا، پھر ہم صلح کرکے لے بھی آئے، لیکن بیوی مجھے مختلف طریقوں سے پریشان کرتی رہی، پھر ناراضگی ہوئی تو اس نے کورٹ سے خلع لی ، خلع کے بعد میں بچی کا ماہانہ سات ہزار خرچہ کورٹ کے حکم پر دیتا رہا، پھر ہم نے رجوع کیا اور واپس گھر آگئی، میری والدہ کی وفات ہوئی، ضروری کاغذات نکالنے پر میری بیوی کی الماری سے کالے علم کے تعویذ بھی برآمد ہوئے، جس پر میں نے غم وغصہ کا اظہار بھی کیا، الله نے مجھے ایک اور بیٹے سے نوازا، گھر میں تھوڑی خوشی کا ماحول بنا تو پھر میری ساس کچھ دن کا کہہ کر میری بیوی کو بیماری میں اپنے گھر لے گئی، خوشی خوشی، لیکن اس کے بعد کوئی رابطہ نہ کیا ، میں نے بچوں اور بیوی کے کپڑے بھیجے تو انہوں نے کپڑے واپس کرتے ہوئے ماہانہ خرچے کا مطالبہ کیا، پھر میں خود اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ ان کے گھر گیا اور واپسی لانے کی ہر ممکن کوشش کی، نہ وہ آنے کے حق میں ہے اور نہ ہی طلاق چاہتی ہے، بس بچی اور بچے کے خرچے کا مطالبہ کرتی ہے، میری بچی کی عمر سات سال اور بچے کی عمر چار ماہ ہے، جب کہ بڑا بیٹا (جو میرے پاس ہے) آٹھ سال کا ہے، میں کوئی فیصلہ کرنہیں پارہا، آپ دین کی روشنی میں میری مدد فرمائیے، میں نے گھر بسانے اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔

یعنی میں اس معاملے میں مزید انتظا رکروں یا طلاق دے دوں، یا کیا کروں؟ نیز طلاق دینے سے پہلے مذکورہ صورت حال میں یا طلاق دینے کی صورت میں بچوں کی تربیت اور خرچے کا شرعاً کیا حکم ہو گا؟

واضح رہے کہ مذکورہ خلع شوہر کی رضا مندی سے نہیں ہوا تھا، بلکہ عدالتی یک طرفہ تھا۔

جواب…واضح رہے کہ دین اسلام دین ِ فطرت او رایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس نے نوع انسانی کی تمام ضروریات کو مد ِ نظر رکھا ہے اور اسلام ہی فطرت انسانی سے سب سے زیادہ ہم آہنگ ہے، دین اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں افراط وتفریط سے کنارہ کش ہو کر راہ اعتدال پر گام زن ہے، اس نے ایک طرف فطری خواہشات میں غلو اور حد سے تجاوز پر انتہائی کڑی تنقید اور قدغن لگاتے ہوئے تمام ایسے غیر فطری، غیر شرعی اور ناجائز تعلقات کو حرام قرار دیا، جو کہ معاشرہ میں بے حیائی اور عریانی کی راہیں ہموار کرتے ہیں تو دوسری طرف میاں بیوی کا مبارک اور خوب صورت ترین رشتہ نکاح کی اجازت عنایت فرماکر نوع انسانی کی بقا اور نسل انسانی کی حفاظت کا سامان مہیا کر دیا۔

لہٰذا میاں بیوی اپنے اس مقدس او ربابرکت رشتہ کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے اپنے ازدواجی تعلقات اپنے خاندان کے بااثر افراد اور علمائے کرام کے ذریعے افہام وتفہیم سے بحال کریں اور دونوں ایک دوسرے کا بہترین ساتھ نبھاتے ہوئے اپنی آئندہ آنے والی نسل کے لیے ایک بہترین نمونہ بننے کی کوشش کریں، لیکن آپ کو اگر یہ علم ہے کہ اب کسی صورت میں میرے اور میری بیوی کے درمیان حدود الله کی رعایت کے ساتھ زندگی گزارنا ناممکن ہے، تو شریعت مطہرہ نے ایسی صورت میں شوہر کو طلاق کا اختیار دیا ہے کہ عورت کو ایک طلاق دے کر اسے آزاد کرکے دوسری جگہ بیاہ کرے، البتہ عورت عدت ( تین ماہواری) گزارنے کے بعد ہی شادی کرسکتی ہے۔

یاد رہے کہ خلع شوہر اور بیوی کا ایک باہمی معاملہ ہے، جو فریقین کی رضا مندی پر موقوف ہے، لہٰذا کوئی فریق دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا، نہ شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ بیوی کو خلع پر شرعاً مجبور کرے اور نہ بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ شوہر سے بزور قانون خلع حاصل کرے، اگر شوہر خلع پر راضی نہیں اور بیوی نے بزور قانون اس سے خلع حاصل کیا، تو خلع واقع نہیں ہوگا، بلکہ دونوں میاں بیوی کے درمیان بدستور نکاح برقراررہے گا۔

حالت نکاح میں یا طلاق دینے کے بعد بچے کی سات سال تک او ربچی کی نو سال تک پرورش کا حق شریعت نے ماں کو دیا ہے ۔اس مدت میں بھی بچوں کا نفقہ (خرچہ) والد پر واجب ہے، والد کو چاہیے کہ بچوں کے لیے خرچہ بھیجا کرے۔

طلاق دینے کے بعد کچھ تفصیل یہ ہے کہ اگر بچوں کی والدہ بچوں کے کسی ذی رحم محرم سے مثلاً: چچا سے نکاح کرے تو اس سے حق پرورش ساقط نہیں ہوتا، لیکن اگر کسی اجنبی سے نکاح کرے گی یا اس کی حالت ایسی ہے کہ بچوں کی طرف سے غافل ہے اور وہاں رہنے میں فتنہ وغیرہ کا اندیشہ ہے،جس سے بچوں کی تربیت متاثر ہونے کا خطرہ ہو، تو ماں کا حق پرورش ختم ہو جائے گا اور نانی، دادی، بہن، خالہ ،پھوپھی کو حق پرورش ترتیب سے حاصل ہوگا، اس کے بعد والد کو حق ہو گا۔

پرپال نامی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء اور مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے پرپال نامی ایک آن لائن ایڈورٹائزنگ کمپنی میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کمپنی کے اصول کے مطابق سرمایہ کاری پندرہ ماہ کے لیے ہوتی ہے، پندرہ ماہ بعد اگر کوئی چاہے تو مزید سرمایہ کاری کرسکتا ہے یا ختم کرسکتا ہے، سرمایہ کار کو آن لائن یوزرنیم اور پاس ورڈ مل جاتا ہے اور سرمایہ کار کو روزانہ اشتہار دیکھنا ہوتے ہیں، اگر کسی دن اشتہار نہ دیکھے تو اس دن کی آمدنی نہیں ملتی، اشتہارکی قیمت سرمایہ کاری کی رقم پر منحصر ہوتی ہے ،یعنی جتنی زیادہ سرمایہ کاری ہو گی، اشتہارات کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ میں تین ماہ سے اشتہارات دیکھ رہا ہوں، ان تین ماہ میں کوئی بھی غیر اخلاقی یا شرعاً حرام اشتہار نہیں دکھایا گیا، بلکہ کمپنی اپنے ہی پراڈکٹ اور ویب سائٹ کو پروموٹ کرنے کے اشتہار دکھاتی ہے، کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ درج ذیل کاروبار میں سرمایہ کاری کرتی ہے اور ان سے حاصل ہونے والے منافع میں سے سرمایہ کار کو بھی منافع دیتی ہے:

ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ، آن لائن اسٹورز، روزنامہ عالمی میڈیا اخبار، کرپٹوکرنسی ٹریڈنگ، رئیل اسٹیٹ پراپرٹی، میڈیسن، ویب ہوسٹنگ وغیرہ وغیرہ۔

مفتی صاحب! جب کہ میرے پاس ایسا کوئی طریقہ کا رنہیں ہے کہ میں یہ معلوم کر سکوں کہ کمپنی کی طرف سے بیان کردہ درج بالا کاروبار واقعتا کمپنی کر رہی ہے یا نہیں، یعنی میں نے عملاً ان کا کاروبار نہیں دیکھا، بلکہ یہ کمپنی کا ہی دعوی ہے۔

اس کمپنی میں کم سے کم پانچ ہزار سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ کمپنی کی طرف سے جاری کردہ کیلکولیٹر کے ذریعہ سے کوئی بھی شخص اپنی سرمایہ کاری کا اندازاً منافع جان سکتا ہے، مفتی صاحب! فرمائیں کہ کیا اس کمپنی میں سرمایہ کاری شرعی لحاظ سے جائز ہے یاناجائز؟

جواب…واضح رہے کہ مذکورہ پرپال نامی کمپنی کے طریقہ کار کے مطابق ابتدا میں جو پانچ ہزار روپے سرمایہ کاری کے نام پر لیے جاتے ہیں ، یہ درحقیقت کمپنی میں رجسٹر ہونے کا معاوضہ ہوتا ہے، یعنی ان پانچ ہزار روپے کے عوض وہ ایڈپاور خریدتا ہے، نتیجے میں یومیہ بنیادوں پر اس کو کلک کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے،جس کی وجہ سے وہ مقررہ مقدار تک اشتہارات پر کلک کرنے کی صورت میں کچھ اجرت کا مستحق بن جاتا ہے، مدت کا دورانیہ پندرہ ماہ ہوتا ہے، جس کے بعد یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے، یعنی کلک کے ذریعے پیسے بنانے کا جو اختیار حاصل ہوا تھا پندرہ ماہ کے بعد یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے، اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس کی صورت اجارہ کی ہو گی کہ مذکورہ کمپنی اس شخص کو کلک کی اجرت ادا کرتی ہے، اس مدت اجارہ کا دورانیہ پندرہ ماہ ہوتاہے، اس کمپنی میں رجسٹر ہونے کا شرعی حکم یہ ہے کہ مندرجہ ذیل مفاسد کی بنا پر اس کمپنی میں رجسٹر ہونا شرعاً جائز نہیں:
1..کمپنی میں رجسٹر ہونے کے لیے ابتدا میں پانچ ہزار روپے کے عوض جو ایڈپاور حاصل کیا جاتا ہے، یہ رشوت ہونے کی وجہ سے ناجائزہے۔
2..ایک شخص کے کئی بار کلک کرنے کی صورت میں دیگر لوگوں کو یہ تأثر دیا جاتا ہے کہ اس کو دیکھنے والے بہت سے اشخاص ہیں، جو اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھانے میں معاون ہوسکتا ہے ، جب کہ یہ سراسر دھوکا ہے اور دھوکے کے متعلق سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں۔
3..ان اشتہارات میں جان دار کی تصویریں بھی ہوتی ہیں، جن کو بلا ضرورت دیکھنا شرعاً ناجائز ہے۔
4..اجارہ کی اس صورت میں عمل اور وقت دونوں معقود علیہ بن رہے ہیں، یومیہ کلک کی مقدار بھی مقرر ہے او رمدت بھی متعین او رمقرر ہے، یعنی پندرہ ماہ۔

لہٰذا ان مفاسد کے پائے جانے کی وجہ سے اس کمپنی میں رجسٹر ہونا (سرمایہ کاری کرنا) شرعاً ناجائز ہے۔

طلاق کے بعد بچیوں کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہوگا؟
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بھائی کی شادی کو چھ سال ہو گئے ہیں، ان کی دو بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی کی عمر پانچ سال اور چھوٹی بیٹی کی عمر دو سال ہے تقریباً ۔بیوی خاوند کا کہنا نہیں مان رہی ہے اور روزانہ خاوند سے جھگڑا کرتی ہے، جس کی وجہ سے اڑوس پڑوس اور خاندان میں ہماری بہت بدنامی ہوئی ہے، یہ چھ سال میرے بھائی نے بہت ذلیل ہو کر گزارے اور بیوی بالکل گزارہ نہیں کر رہی ہے، بھائی اگر تنگ آکر اس حالت میں طلاق دیں تو دونوں بیٹیوں کا کیا ہوگا؟بیٹیاں ماں کے ساتھ کب تک رہیں گی؟ اور باپ کے ذمہ ماہانہ حد خرچہ بیٹیوں کی پرورش کے لیے کتنا ہو گا؟بیوی کا حق مہر ایک تولہ سونا ہے، خاوند کی طرف سے بیوی اور بیٹیوں کو کیا ملے گا؟ براہ کرم شریعت اسلام کی رو سے تفصیلاً وضاحت فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان تنازعات اور اختلافات پیدا ہو جائیں، جس کی وجہ سے آئے روز لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ بن جائیں، تو شریعت مقدسہ کی رُو سے دونوں خاندانوں کے بااثر افراد کے ذریعے، میاں بیوی کے مابین مصالحت کی پوری کوشش کی جائے، میاں بیوی اگر آپس میں صلح او راتفاق چاہتے ہیں تو الله تعالیٰ بھی ضرور ان کے درمیان اتفاق پیدا فرما دیں گے،حاصل یہ ہے کہ ابتداءً میاں بیوی کے درمیان صلح ہی کی کوشش کی جائے، کیوں کہ طلاق ایسا فعل ہے جو بدرجہ مجبوری جائز تو ہے، مگر پھر بھی الله تعالیٰ کے ہاں ایک ناپسندیدہ فعل ہے، حتی الامکان اس سے احتراز کی کوشش کی جائے اور اگر بغیر طلاق کے چارہ کار نہ ہو، تو طلاق دینے کے بعد دونوں بچیوں کی نو سال عمر ہونے تک ان کی پرورش کا حق ان کی والدہ کو ہو گا اور اس عرصے میں بچیوں کا خرچہ حسب استطاعت والد کے ذمے رہے گا اور خاوند کی طرف سے بیوی کو مقرر کردہ حق مہر ( ایک تولہ سونا) اور زمانہ عدت کا خرچہ بھی دیا جائے گا، بچیوں کی عمر نو سال ہونے کے بعد ان کو باپ کے حوالے کیا جائے گا اور ان کا نکاح کرانے کی ولایت بھی باپ کو حاصل ہوگی۔

طلاق لیے بغیر کسی اور شخص کے ساتھ عورت کا نکاح کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت ہے، جس کی عمر پینتالیس سال ہے او رپانچ بچوں کی ماں ہے، اس کے بڑے بیٹے کی عمر پچیس سال ہے، اپنے محلے میں وہ عورت غلط کاموں کی وجہ سے غلط نام سے مشہور ہے، میرے بھائی کو اس نے پھنسا کر بغیر طلاق کے شادی کی، بھائی کی عمر ستائیس برس ہے اور وہ عورت ہر طرح سے بھائی کے دین کو بگاڑ رہی ہے، شراب کا عادی بنا رہی ہے، بھائی کی آنکھیں بند ہیں، اسے جتنا بولو اس کی سمجھ میں نہیں آتا،کہتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔

وہ عورت اس کی اچھی شکل اور پیسوں کی وجہ سے اس کے ساتھ ہے، تاکہ باپ کی جائیداد میں سے وہ حق دار بنے، پوری فیملی شریک ہے، محلہ میں ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں، ابھی بھی بھاگ کے بھائی کے ساتھ الگ رہتی ہے،ہماری ساری فیملی کو پتہ ہے ،مگر بھائی بالکل اس کا کٹھ پتلی بن گیا ہے ،بھائی کو دین اور دنیا سے کوئی غرض نہیں رہی، پہلے دین اورنماز میں ٹھیک تھا، اب تو اس کے لیے زیادہ پیسے کمانے کے لیے مزدوری بھی کرتا ہے، رکشہ بھی چلاتا ہے، اس کی تعلیم ماسٹر ہے، پہلے اچھی پوسٹ پہ جاب کی ہے۔

اب اس حال میں بھائی کو دیکھ کر پوری فیملی پریشان ہے، وہ عورت بہت خوش ہے، اپنے پانچ بیٹوں کو چھوڑ کر بھائی کے ساتھ ناجائز رہ رہی ہے ، بھائی ہم سے جھوٹ بولتا ہے کہ اس نے اپنے سابقہ شوہر سے طلاق لی ہے۔

قرآن وحدیث میں ایسی عورتوں کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا کریں کہ بھائی دوبارہ صحیح مسلمان اور نمازی بن جائے؟

جواب… دین اسلام نے دنیوی اور اخروی حکمتوں اور فوائد کے پیش عورت کوایک وقت میں ایک مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دی ہے اور فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے، اس لیے کسی بھی عورت کے لیے بیک وقت دو مردوں سے نکاح کرنا شرعاً حرام ہے۔

لہٰذا مذکورہ عورت کا اپنے سابقہ شوہر سے طلاق لیے بغیر کسی غیر مرد کے ساتھ رہنا ناجائز او رحرام ہے، اس لیے محلہ یا خاندان کے بااثر افراد کو چاہیے کہ ان کو الگ کر دیں یا حکومتی اداروں کی مدد لی جائے، پھر بھی حل نہ نکلے تو اہل محلہ اور ان کے خاندانوں کو چاہیے کہ ان کے ہاں آنا جانا اور ان سے ملنا جلنا بند کر دیں، تاوقتیکہ وہ اپنے گناہ سے توبہ نہ کریں، اس کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح کے لیے دعاؤں کا بھی اہتمام کریں، کیوں کہ عورت کا اپنے سابقہ شوہر سے طلاق لیے بغیر اس کی زندگی میں کسی دوسرے شخص سے نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا اورا گر خدانخواستہ اس نکاح کے بعد ان کا میل وملاپ ہوا تو زنا شمار ہو گا ، شریعت نے ایسے لوگوں سے ان کی اصلاح کے لیے قطع تعلق کی اجازت دی ہے ۔

قبضہ سے پہلے گاڑیوں کی خرید وفروخت اور کمیشن ایجنٹ کی کمیشن کی تعیین
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام گاڑیوں کی خرید وفروخت کے کاروبار کے حوالے سے1..۔ عام طور پر مارکیٹ میں رواج ہے کہ جاپان سے گاڑی خریدتے ہیں اور وہ گاڑی راستہ میں ہوتی ہے تو اس کو آگے بیچ دیتے ہیں اور ٹوکن لے لیتے ہیں، پھر گاڑی جب پورٹ سے کلیئر ہو کر باہر آتی ہے تو گاڑی دے کر بقایا رقم لے لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
2..مارکیٹ میں پارٹی کی گاڑی ہوتی ہے، پارٹی بولتی ہے مجھے ایک معینہ رقم چاہیے، باقی اوپر جو ہوں گے وہ آپ کے ہوں گے، کیا یہ جائز ہے؟
3..میرا ایک پارٹی سے کام ہے ،وہ مجھے گاڑی دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ قیمت لگواؤ، مجھے جو قیمت لگتی ہے اس سے کچھ کم کرکے ان کو بتاتا ہوں، ان کو بھی اندازہ ہے اس بات کا کہ میں بیچ میں اپنے رکھتا ہوں اورمارکیٹ میں اسی طرح رائج ہے کہ فروخت کرنے والے سے پیسے کم کراکر، مہنگے داموں فروخت کرکے، درمیان کا نفع خود رکھ لیتے ہیں اور عام طور پر اس کا فروخت کرنے والے کو اندازہ ہوتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب…(۱) واضح رہے کہ مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے فروخت کرناناجائز ہے، لہٰذا مذکورہ پارٹی کا گاڑی خریدتے ہی قبضہ سے پہلے راستہ میں اس کا آگے فروخت کرنا ناجائز ہے۔

(3،2)صورت مسئولہ میں چوں کہ پارٹی جس شخص کو گاڑی آگے فروخت کرنے یا بولی لگوانے کے لیے دیتی ہے اس کی اُجرت متعین نہیں ہوتی، اس لیے مذکورہ صورت ناجائز ہے، اس کے جواز کی پہلی صورت یہ ہے کہ پارٹی فروخت کرنے پر مذکورہ شخص کی اُجرت متعین کرلے اور گاڑی فروخت ہونے پر اصل قیمت اور نفع سارا مالک کا ہو گا۔

اور اس کے جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ پارٹی مذکورہ شخص پر متعین مدت کے لیے اُدھار پر گاڑی بیچ دے، چاہے پھر اس کو گاڑی میں نفع ہو یا نقصان، پارٹی اس کی ذمہ دار نہ ہو اور اس سے اپنی متعینہ قیمت وصول کر لے، تو اس صورت میں مذکورہ شخص کے لیے گاڑی کو آگے کسی اور شخص پر پارٹی کی متعینہ قیمت سے زائد رقم پر بیچ کر زائد رقم اپنے لیے رکھنا جائز ہوگا۔

استاد کا بیک وقت کئی طلبہ سے سبق سننا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں1.. مکتب میں ایک قاری صاحب کے پاس طلبہ کرام جو قاعدہ، ناظرہ پڑھتے ہیں، قاری صاحب پانچ چھ طلبائے کرام کو ایک ساتھ پڑھنے کا کہتے ہیں، جس سے قاری صاحب کے لیے ہر ایک طالب علم کی غلطی نوٹ کرنا مشکل ہوتا ہے، بعض طلبہ کرام غلط بھی پڑھتے ہیں، جس کا قاری صاحب کو پتہ نہیں چلتا ،تو قاری صاحب کا تمام طلبہ سے ایک ساتھ سبق سننا شرعاً کیسا ہے؟
2..مکتب کے مہتمم صاحب اپنے ادارے میں کتنی عمر کی بچیوں کو شرعاً داخلہ دے سکتا ہے؟
3..ایک قاری صاحب کی کسی ادارے میں تقرری ہو جائے اور وہ پانچ چھ دن یا اس سے کم پڑھا کر ادارہ چھوڑ کر چلا جائے، تو ادارے کے مہتمم صاحب قاری صاحب کو پانچ چھ دن یا اس سے کم پڑھانے کا معاوضہ شرعاً ادا کرے گا؟

جواب…1.. واضح رہے کہ یہ مسئلہ استاد کے تجربے اور مہارت سے متعلق ہے، اگر استاد بیک وقت کئی طلبہ سے قرآن سن سکتا ہو اور سب کی غلطیاں نوٹ کرسکتا ہو، تو اس میں مضائقہ نہیں، لیکن اگر ایسا کرنا استاد کے لیے مشکل ہو کہ ہر بچے کی غلطیاں نوٹ نہیں کرسکتا تو اس طرح کرنا صحیح اور درست نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن مجید کو صحیح پڑھانا فرض کے درجے میں ہے، لہٰذا استا درس گاہ کے اوقات کو مدنظر رکھتے ہوئے، امانت داری کے ساتھ، اپنی ہمت او راستطاعت کے مطابق ،ہر ایک طالب علم پر پوری توجہ دیتے ہوئے صحیح طریقے سے جتنے طلبہ کو پڑھاسکتا ہو اور اچھی طرح جتنے طلبہ سے سن سکتا ہو اتنے ہی طلبہ کو قرآن پڑھائے او ران سے سنے، تاکہ کسی طالب علم کی حق تلفی بھی نہ ہو او راستاد پر اس کی ہمت واستطاعت سے زیادہ بوجھ بھی نہ ہو۔
2..بچیاں جب تک اشتہاء کی عمر کو نہ پہنچی ہوں اس وقت تک مکتب میں ان کو شرعاً داخلہ دینا درست ہے۔
3..مہتمم صاحب پر قاری صاحب کے لیے پانچ، چھ دن یا اس سے کم پڑھانے کا معاوضہ لازم اور ضروری ہے۔

والدین کا اپنی اولاد کے لیے بد دعا کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ والدین کا اپنی اولاد کے لیے بد دعا کرنا کس حد تک جائز ہے؟ اگر والدین کی بددعا قبول ہو جائے اور اولاد دنیا میں پریشانی میں مبتلا ہو جائے تو کیا یہ گناہ ہے؟ کیا اس کا گناہ والدین کو بھی ہو گا؟

جواب… احادیث میں والدین کو اپنی اولاد کے لیے بد دعا کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس لیے والدین کا اپنی اولاد کے لیے بلاوجہ بددعا کرنا شرعاً درست نہیں، لیکن والدین کبھی بلاوجہ اولاد کے لیے بد دعا نہیں کرتے، جب تنگ آکر پریشان ہو جاتے ہیں، تب مجبو رہو کر بد دعا کرتے ہیں، جس کے قبول ہونے میں الله تبارک وتعالیٰ کے ہاں کوئی حجاب نہیں ہوتا او راگر بلا وجہ بد دعا کریں، تو اس کے قبول ہونے کی توقع نہیں ہے، تاہم اولاد کو چاہیے کہ والدین کی کسی غصہ کی بات کا جواب نہ دے، بلکہ خاموشی سے سن لے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے، اس لیے کہ ان کی سعادت اسی میں ہے، اگر کوئی بات والدین بالکل ناحق کہیں، تب بھی صبر کرے اوروالدین کے لیے دعائے خیر کرتا رہے۔