کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

ٹھیکہ پر دی گئی زمین کا عشر ٹھیکہ دار پر ہے یا مالک زمین پر؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زیداپنی زمین بکر کو ٹھیکہ پر دیتا ہے اور بکر اس زمین میں کاشت کرتا ہے، اب زمین سے جو پیدا وار حاصل ہو گی تو اس کا عشر کس پر لازم ہو گا؟ زید پر جو مالک ِ زمین ہے یا بکر پر جنہوں نے زمین ٹھیکہ پر لی ہے؟ اوراگر عشر ٹھیکہ دار پر لازم ہے تو مالک ِ زمین پر کیا لازم ہے؟برائے کرم شرعی نصوص کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم الله․
جواب…واضح رہے کہ حضرات ِ فقہائے کرام نے ٹھیکہ پر دی گئی زمین میں عشر کے واجب ہونے میں یہ تفصیل بیان فرمائی ہے کہ اگر مالک زمین اجرت بہت زیادہ لیتا ہے اور ٹھیکہ دار کے پاس بہت کم بچتا ہے تو عشر مالک زمین پر لازم ہے، او راگر مالک زمین اجرت کم لیتا ہے اور ٹھیکہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو عشر ٹھیکہ دار پر لازم ہے، اس زمانے میں عموماً اجرت کم لی جاتی ہے اورٹھیکہ دار کوآمدنی زیادہ ہوتی ہے، اس لیے عشر ٹھیکہ دار پر لازم ہے۔
باقی جہاں تک مالک زمین کا تعلق ہے تو اس پر عشر لازم نہیں ہے ، البتہ مالک زمین کو جو رقم ٹھیکہ میں حاصل ہوئی ہے تو اس میں زکوٰة واجب ہوسکتی ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مالک زمین اگر پہلے سے نصاب کا مالک نہیں تھا او راس رقم کی وجہ سے وہ نصاب کا مالک ہوا ہے تو اب قمری سال کے گزرنے کے بعد اس رقم پر زکوٰة واجب ہوگی ،اور اگر وہ پہلے سے نصاب کا مالک تھا تو نصاب پر جب سال گزرے گا تو اس رقم کو بھی نصاب میں شامل کرکے اس کی بھی زکوٰة ادا کی جائے گی۔
ایک مسجد کا چندہ دوسری مسجد میں استعمال کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص زید کے پاس آیا اور اپنے علاقے کی زیر تعمیر مسجد کے لیے اس سے چندہ مانگا، تو زید نے اپنی بہن جو کہ غنی تھی اس سے جاکر کہا کہ فلاں شخص جو چندہ مانگنے آیا تھا وہ ہمارے موجودہ محلے کے امام صاحب کے گاؤں کی زیر تعمیر مسجد کے لیے چندہ مانگنے آیا تھا، تو اس کی بہن نے زید کو مبلغ50000/=(پچاس ہزار روپے) دیے، لیکن وہ چند ہ مانگنے والا تو چلا گیا تھا، اب زید امام کے پاس حاضر ہوا کہ یہ رقم آپ کے گاؤں کی زیر تعمیر مسجد کے لیے بہن سے لایا ہوں، امام صاحب نے بتایا کہ تم کس مسجد میں دینا چاہتے ہو؟ کیوں کہ ہمارے گاؤں میں تو اس وقت تین مساجد زیرتعمیر ہیں، تو زید نے کہا کہ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ آپ جہاں مرضی ان تینوں میں دے دیں، اب اصل سوال یہ پوچھنے کا ہے کہ زید نے جب بہن سے چندہ مانگا تھا اس وقت چوں کہ فاروق نامی شخص جس مسجد کی طرف سے چندہ لینے آیا تھا وہ حاضر ہوا تھا، لیکن کیا اب یہ رقم دوسری جگہ جس کی دل میں نیت نہیں تھی وہاں دی جاسکتی ہے؟
جواب… صورت مسئولہ میں اگر زید کی ہمشیرہ نے دیہات کی کسی بھی زیر تعمیر مسجد کے لیے رقم دی ہے، تو زید اس رقم کو دیہات کی کسی بھی مسجد میں دے، تو یہ جائز ہے، لیکن اگر زید کی ہمشیرہ نے کسی متعین مسجد کے لیے اپنے بھائی کو رقم دی ہے تو زید اس رقم کو اسی مسجد میں استعمال کرے گا، کسی او رمسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر اپنی بہن سے دوبارہ دیہات کی کسی اور مسجد کے لیے اجازت لے لے، تو دوسری مسجد میں بھی استعمال کرسکتا ہے۔
غیرمذہب کی مذہبی کتابیں پڑھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غیر مذہب کی مذہبی کتابوں کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب… کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دیگر مذاہب کی بحث میں اُلجھے اور نہ ہی ان کے صحائف پڑھنے کی اُسے ضرورت ہے، خاص طور پر عام مسلمان جنہیں شریعت کے بارے میں بالکل بھی علم نہیں، انہیں مطلق طور پر باقی مذاہب کے مطالعے سے پرہیز کرنا چاہیے، تاکہ وہ دین اسلام کے بارے میں شک وتردد کا شکار نہ ہو جائیں۔
البتہ اہل ِ علم حضرات میں سے جنہیں قرآن وحدیث پر پختگی حاصل ہو اور وہ اس قابل ہوں کہ حق وباطل میں تمیز کرسکیں اور صحیح وفاسد چیزوں کو جان لیں، پھر اس کے بعد وہ دیگر مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
حضرات سلف نے بھی دیگر مذاہب کی کتب کے مطالعہ کی اجازت صرف اس وقت دی ہے کہ جب غیر مسلم کو دین کی دعوت دینا یا اس سے مناظرہ کرنا مقصود ہو، کیوں کہ اہل ِ کتاب اور دیگر مذاہب کی کتب کو پڑھنا اُسی وقت فائدہ مند ہو گا، جب اُنہیں دین کی طرف بلانا مقصود ہو۔
تعلیمی اوقات میں ِ قرآن کریم کی تلاوت کا حکم
سوال … کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مدرسے کی طرف سے جو اوقات مطالعہ او رتکرار کے لیے مقرر ہیں ان اوقات میں کسی طالب علم کا قرآن مجید کی تلاوت کرنا درست ہے یانہیں؟ یا اس طالب علم کا یہ عمل اساتذہ کو دھوکہ دینے میں داخل ہے یا نہیں؟ اور نگران استاد اس طالب علم کو قرآن کی تلاوت سے منع کرے تو اس استاد پر بھی کوئی گناہ ہے یا نہیں؟ راہ نمائی فرمائیں۔
جواب… واضح رہے کہ مدرسے کے ضابطے کے مطابق جو اوقات مطالعہ اور تکرار کے، طالب علم کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں ان اوقات میں درسی کتب کا مطالعہ او رتکرار کرنا دیگر نفلی عبادات او رتلاوت کرنے سے افضل ہے، اس لیے تلاوت کلام پاک کے لیے کوئی اور وقت متعین کرنا مناسب ہے، اگر استاد خیر خواہی کی غرض سے طالب علم کو مطالعہ اور تکرار کے اوقات میں تلاوت سے روکے تو استاد گنہگار نہیں ہوگا، البتہ اگر طالب علم اپنا مطالعہ وتکرار مکمل کر چکا ہے تو اس وقت تلاوت بھی کرسکتا ہے، استاد کو اس کی رعایت کرنی چاہیے۔
چپل پہن کر نماز جنازہ پڑھنا، نماز جنازہ میں ہاتھ کھولنے کا وقت او رتصاویر والے کپڑوں میں نماز جنازہ کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
چپل پہن کر نماز جنازہ پڑھنا کیسا ہے؟
او رجنازہ پڑھنے والے کب ہاتھ چھوڑیں گے، امام کے سلام پھیرنے کے وقت، یا جب دونوں طرف سلام پھیرے پھر ہاتھ چھوڑے؟
او راگر کوئی جنازہ پڑھنے والا ایسا ہو کہ اس کے کپڑوں پر تصاویر ہوں تو اس کی نماز جنازہ ادا ہوگی یا اس کی نماز جنازہ ادا نہ ہوگی؟
جواب…جوتے پہن کرنماز جنازہ پڑھنے کی صورت میں اگر زمین کا وہ حصہ جس پر نمازی کھڑا ہے، پاک ہو، اور جوتوں کے اوپر اور نیچے والے دونوں حصے پاک ہوں، تو جوتے پہن کر نماز جنارہ پڑھنا درست ہے ، ورنہ نہیں۔
اس میں تین صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیر دے، دوسری صورت یہ ہے کہ دائیں طرف سلام پھیرتے وقت دایاں ہاتھ چھوڑ دے او ربائیں طرف سلام پھیرتے وقت بایاں ہاتھ چھوڑ دے، اور تیسری صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعدد ونوں ہاتھ چھوڑ دے، یہی تیسری صورت سب سے بہتر ہے او راکابر کا اسی پر عمل ہے۔
جن کپڑوں میں واضح تصاویر ہوں جو دیکھنے والے کو غور وفکر کے بغیر نظر آجائیں، تو ایسے کپڑوں میں نماز جنازہ کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی، اور اگر تصاویر اتنی چھوٹی ہوں، جو دیکھنے والے کو غور وفکر کے بغیر نظر نہ آئیں، تو ایسے کپڑوں میں نماز جنازہ جائز ہے، اگر چہ بہتر یہ بھی نہیں۔
بیوی کو ایک طلاق صریح دینے کے بعد طلاق بائن دے
کر بغیر تجدید نکاح کے ازداجی تعلقات برقراررکھ
کر عدت کے بعد تیسری طلاق دینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ شادی کے کچھ عرصے کے بعد بیوی کے ساتھ جھگڑے کے دوران میں نے کہا:” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں“ اور اس کے بعد فوراً ہی رجوع کر لیا، کچھ ماہ کے بعددوبارہ جھگڑا ہوا، اس دوران میری بیوی نے مسیج پر مجھے کہا کہ میں نہیں رہنا چاہتی تمہارے ساتھ، مجھے فارغ کرو، او رمیں نے غصے میں اس کا جواب دیا: ”جا،کیا فارغ“ اور پھر اس کے بعد پھر صلح ہو گئی، او راب حال ہی میں ہماری پھر لڑائی ہوئی بیوی سے او رمیں نے کہا:” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں“ اورہم دونوں الگ ہو گئے ہیں ،آپ سے گزارش ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی فرما دیں کہ یہ تین طلاقیں ہوگئی ہیں؟ یا کوئی گنجائش باقی ہے؟
جواب… صورت مسئولہ میں جب آپ نے اپنی بیوی سے جھگڑے کے دوران کہا کہ : ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “، تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی ،اور پھر رجوع کرنے کے بعد جب آپ نے اپنی بیوی کے مطالبہ طلاق پر ”جا! کیا فارغ“ کے الفاظ سے جواب دیا، تو اس سے آپ کی بیوی کو دوسری طلاق ( طلاق بائن) واقع ہو گئی۔
پھر جب آپ نے چھ یا سات ماہ بعد تیسری بار طلا ق دے دی، تو یہ تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لیے کہ ان چھ یا ساتھ ماہ کے دوران تین حیض آنے کی وجہ سے طلاق بائن کی عدت گزر گئی تھی، جس کی وجہ سے بیوی طلاق کا محل نہیں رہی تھی، لہٰذا اگر آپ میاں بیوی آپس میں رہنا چاہتے ہیں، تو بغیر حلالہ کے تجدید نکاح کر لیں، لیکن اس کے بعد آپ کے پاس صرف ایک ہی طلاق کا اختیار باقی رہے گا، آئندہ اگر آپ نے ایک مرتبہ بھی طلاق دے دی، تو آپ کی بیوی آپ پر حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، پھر نہ رجوع ممکن ہوگا اور نہ تجدید ِ نکاح۔
لیکن اگر بیوی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے، تو اس صورت میں گزشتہ چھ یا ساتھ ماہ تک بغیر تجدید ِ نکاح کے لاعلمی میں ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی وجہ سے واجب ہونے والی عدت تین حیض گزار کرپھر نکاح کرسکتی ہے، اس سے پہلے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں، نیز دوسری طلاق (طلاق بائن) کے بعد تجدید نکاح کیے بغیر جو ازدواجی تعلقات قائم کیے ہیں، ان پر توبہ واستغفار کریں۔