کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

Bizz Tarde نامی کمپنی میں پیسے لگانے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک کمپنی ہے Bizz Tarde کے نام سے، پاکستان، آئر لینڈ، اورانگلینڈ میں رجسٹرڈ ہے، اس کمپنی کا کام یہ ہے کہ کمپنی کا ایک ایجنٹ ہوتا ہے جو کمپنی سے رابطہ میں ہوتا ہے، لوگوں سے انویسٹ لیتا ہے، او رکمپنی تک پہنچاتا ہے، ان پیسوں سے کمپنی دنیا کی مختلف کرنسیاں خریدتی ہے او رجیسے ہی کسی کرنسی کا ریٹ High (اوپر)ہوتا ہے تو کمپنی اس کرنسی کو دسری کرنسی کے عوض مہنگے داموں میں فروخت کر دیتی ہے، اسے ٹریڈنگ کہتے ہیں، اور جو نفع ملتا ہے اس کے نو حصے خود رکھتی ہے ایک حصہ جتنے لوگوں نے انویسٹ کی ہے ان میں تقسیم کرتی ہے، تو کیا اس طرح کی کمپنی میں پیسے لگانا جائز ہے؟ جب کہ فتاوی عثمانی میں ہے کہ ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے مقابلے میں کمی زیادتی کے ساتھ بیچنا جائز ہے، کیا مذکورہ کمپنی والی صورت اس صورت میں داخل ہے ؟ شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب… مذکورہ صورت آن لائن کرنسی ٹریڈنگ (فاریکس) کی ہے، جو کہ درج ذیل امفاسد کی بناء پر جائز نہیں:

1..حقیقی خرید وفروخت نہ ہونے کی بنا پر اکثر صورتوں میں ” بیع الدین بالدین“ (ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ ) ہوتی ہے۔

2..اسکرین پر محض اعداد وشمار کے بڑھنے اور گھٹنے کو نفع اور نقصان شمار کیا جاتا ہے، حسی طور پر کسی چیز پر قبضہ نہیں ہوتا، اس طرح یہ معاملہ سٹہ میں داخل ہو جاتا ہے۔

3..حقیقی روپوں پر بھی معاملہ کیا گیا ہو تو بھی فوراً بیچنے کی صورت میں ”بیع قبل القبض“ (قبضہ سے پہلے بیچنا) ہے، جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔

چوں کہ آن لائن کرنسی ٹریڈنگ کے کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں عموماً نہیں پائی جاتی ہیں، بلکہ یہ ایک طرح سے سود اور قمار (جوے) کی شکل ہے، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

آپ نے جو فتاوی عثمانی کا حوالہ دیا ہے، اس کا تعلق عام حالات میں ایک کرنسی کو دوسرے کرنسی کے عوض بیچنے سے ہے، جو کہ آن لائن نہ ہو، بلکہ ایک شخص دوسرے سے خرید رہا ہو ( ملاحظہ ہو فتاوی عثمانی:3/148) جب کہ فتاوی عثمانی میں ہی آن لائن کرنسی کی عالمی مارکیٹ میں خرید فروخت کی مروجہ صورت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو فتاوی عثمانی:3/155)

قرضہ کی وجہ سے خود کشی کرنا
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا اسلام میں خود کشی مکمل حرام ہے ؟ ایک سفید پوش آدمی بد نامی اور ذلت کے خوف سے اگر خود کشی کر لے تو کیا اس کو معافی مل سکتی ہے؟میرے حالات پڑھ کر بتائیے گا کہ کیا میرے لیے خود کشی کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟

تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ میری عمر تیس سال ہے ،شادی شدہ ہوں، ایک بیٹی ہے دو سال کی،تیس سال سے مسلسل ناکامیوں کا سامنا کر رہا ہوں۔

میرا تعلق ایک نہایت متوسط ، سفید پوش اور خود دار خاندان سے ہے، گذشتہ چار سال سے پاکستان کے کئی اداروں میں نوکری کے لیے اپلائی کر چکا ہوں، لیکن مناسب رسائی اور رشوت کا پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک بے روزگار ہوں، ماہانہ آمدنی آٹھ ہزار روپے ہونے اور اس کے علاوہ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقروض ہو چکاں ہو ، چوں کہ میرا تعلق نہایت غریب خاندان سے ہے ، خاندان میں کو ئی بھی ایسا نہیں ہے جو ہماری مدد کر سکے ، قرض ادا نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی طرف سے انتہائی ہتک آمیز سلوک اور مختلف دھمکیوں کا شکار ہوں، صبح شام لوگوں کے طعنے سن سن کر زندگی اجیرن ہو چکی ہے ، اپنے پرائے سب ساتھ چھوڑ گئے ہیں، بلکہ دور سے آتا د یکھ کر راستہ ہی بدل جاتے ہیں کہ کہیں کچھ مانگ نہ لے ،پھر یہ طعنہ کہ حافظ قرآن ہوکر جھوٹ بو لتے ہو یا داڑھی رکھ کر وعدہ خلافی کرتے ہو ،دل چیر کے رکھ دیتے ہیں، اب میں جانتا ہوں یا میرا اللہ جانتا ہے کہ میں قرض واپس کرنے کے لیے کتنی کوشش کر تا ہوں، لیکن بہت زیادہ کوشش کے باوجود چند سو روپے ہی جمع کر پاتا ہوں، جب کہ میرا قرض ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب ہے، اب آج کل کی صورت حال یہ ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے پرائیویٹ سکول تنخواہ نہیں دیتے،آمدنی کا معمولی سا بھی ذریعہ نہیں ہے، گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے یہ مختصر آمدن کا سلسلہ بھی رک چکا ہے، کیوں کہ ہمارے اس علاقے کے اکثر پرائیویٹ اسکول تنخواہ نہیں دیتے،یہ مشکل وقت بھی بہت اذیت سے گذر رہا ہے،بہرحال انہیں پریشانیوں کی وجہ سے میری اہلیہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہے، جب کہ میری اہلیہ بھی تعلیم یافتہ ہے، انہوں نے ایم اے اسلامیات کیا ہوا ہے اور مکمل عالمہ کا کورس بھی کر رکھا ہے ۔ قر ض نے ہم دونوں کو سفید پوشی میں ہر جگہ ذلیل و رسوا کروایا ہے ، میری ایک جگہ مسجد میں امامت تھی وہ بھی اسی قرض کی وجہ سے چھن گئی،قرض خواہوں کے نازیبا جملے اور اپنے علاقے میں قرض کی وجہ سے بدنامی نے زندگی کے خاتمے کی دعاؤں پر مجبور کر دیا ہے، جب کہ میں یہ جانتا ہوں کہ اس طرح کی دعا مانگنا جائز نہیں۔

ا سی پریشانی اور اذیت کی وجہ سے ہم دونوں میاں بیوی کا مستقبلتباہ ہو کر رہ گیا ہے، بس اسی پریشانی کی وجہ سے روز جیتا ہوں اور روز مرتا ہوں ، ہم دونوں میاں بیوی اس صورت حال کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہیں، اسی پریشانی میں آپ سے یہ ساری تفصیل پیش کر رہا ہوں۔

جواب…حالات اور آزمائشیں الله کی طرف سے آتے ہیں اوراس میں بندہ کا امتحان ہوتا ہے، لہٰذا الله رب العزت کی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے اور الله تعالیٰ کی وسیع رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے، ایسے موقع پر استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔

حدیث شریف میں وارد ہے کہ ”جو شخص استغفار کو لازم پکڑتا ہے الله تعالیٰ اس کے لیے ہر غم سے کشادگی پیدا فرماتے ہیں اور ہر تنگی سے راہ نکالتے ہیں اور وہاں سے اس کی روزی کا بندوبست کرتے ہیں جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا“۔

نیز قرض اتارنے کے لیے مسجد کی امامت کے ساتھ کوئی اور کام کاج وغیرہ بھی شروع کر دیں، اہلیہ بھی گھر میں ٹیویشن وغیرہ کا سلسلہ شروع کر دیں، اسی طرح دیگر جائز تدابیر بھی اختیار کی جائیں، البتہ ان حالات کی وجہ سے خود کشی کرنے کی بالکل بھی گنجائش نہیں، خودکشی کے ارادہ سے بھی توبہ واستغفارکی جائے۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله تعالیٰ آپ کے قرض کو ادا کرنے کی سبیل پیدا فرمائے اور آپ کی زندگی کو پُرسکون بنائے۔ آمین ثم آمین

ایک سے زائد وطن اصلی اور وطن اقامت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مئلہ کے بارے میں کہ عبدالله کا اصل وطن پشاور ہے، اس نے ایک گھر خریدا اسلام آباد میں ، تمام فیملی بھی وہیں مقیم ہے او رایک گھر ملتان میں ہے او رگھر میں تمام رہائش کی سہولیات موجود ہیں، لیکن رہائش مستقل نہیں ہے، ملتان اور اسلام آباد میں کس طرح نماز پڑھے گا؟ قصر یا اتمام؟ کیا صرف گھر کی تمام سہولیات کی موجودگی کی بنا پر وہ گھر وطن اصلی شمار ہو گا؟ یا وطن اقامت شمار ہو گا؟ ملتان میں ایک زمانہ قبل کافی سال گزار چکے تھے لیکن درمیان میں سب کچھ ختم کرکے وطن اصلی چلے گئے تھے، اب پھر گھر لیا ہے، اب تو وہاں 15 دن نہیں گزارے ہیں، اسلام آباد میں 15 دن کئی بار گزار چکے ہیں اور فیملی بھی سال کے 8،9 ماہ اسلام آباد میں رہتی ہے۔

پشاور سے ملتان تقریباً 500 کلو میٹر سے زیادہ، اسلام آباد سے ملتان تقریباً300 کلو میٹر سے زیادہ اور پشاور سے اسلام آباد تقریباً150 کلو میٹر سے زیادہ ہے۔

جواب… صورت مسئولہ میں پشاور او راسلام آباد دونوں عبدالله کے وطن اصلی ہیں، بشرطیکہ فی الحال عبدالله کا عزم یہ ہو کہ اسلام آباد میں آخر عمر تک رہے گا، اگرچہ بعد میں کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ دے۔

لہٰذ عبدالله اسلام آباد او رپشاور میں سے جس میں بھی داخل ہو گا، بغیر تجدید نیت کے اتمام کرے گا، البتہ ملتان کے گھر میں اگر پندہ دن یا اس سے زائد رہنے کی نیت ہو تو اتمام کرے گا او راگر اس سے کم مدت کی رہائش کی نیت ہو تو پھر قصر کرے گا۔

اور کہیں پر صرف گھر میں رہائش کی سہولیات کے موجود ہونے سے وہ گھر یا علاقہ وطن اصلی یا وطن اقامت نہیں بنتا، بلکہ وطن اصلی بنانے کے لیے وہاں پر مستقل رہنے کا عزم اوروہاں سے نہ جانے کا عزم ضروری ہے، اور وطن اقامت بنانے کے لیے پندرہ دن یا اس سے زائد وہیں پر ٹھہرنے کی نیت کا ہونا ضروری ہے۔

مدرسہ کے لیے وقف زمین کو دھوکے سے کاغذات میں اپنے نام کروانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علما کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خاتون نے اپنی ممکوکہ زمین میں سے ایک حصہ ایک مدرسہ کے لیے اس شرط پر وقف کیا کہ اس کے متولی اور نگران میرے ایک بھائی اور چند دیگر عزیز ہوں گے بعد میں مدرسہ کی توسیع کے لیے اسی موقوفہ زمین کے متصل جو خاتون کی مزید زمین تھی وہ چندہ کی رقم سے مدرسہ کے متولی حضرات نے اسی خاتون سے خرید لی، جب مدرسہ کچھ مشہور ہو گیا تو ایک صاحب ثروت (جو کہ وقف نامہ میں نامزد بھی نہیں تھا)نے یہ مشورہ دیا کہ اب تک یہ موقوفہ زمین او راس سے متصل مزید خریدی گئی زمین خاتون کے نام رجسٹرڈ ہے، اب اسے خاتون کی وفات سے پہلے ہی مدرسے کے نام منتقل کرالیا جائے، جس پر سب نے رضامندی ظاہر کی، اسی غرض کے لیے خاتون کو او رچند حضرات کو ایک عدالت میں لے جاکر کچھ کاغذات پرد ستخط لیے گئے۔

انہوں نے شخص مذکورہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر دستخط کردیئے، واضح رہے کہ خاتون، اس کے بھائی اور چند دیگر حضرات (جوکہ حقیقتاً متولی تھے) میں سے کسی کو بھی کچھ علم نہ تھا کہ ان کاغذات پر کیا لکھا ہوا ہے۔

اب حال ہی میں پتہ چلا کہ شخص مذکورنے ان کاغذات کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ وہ اکیلا اس موقوفہ زمین اور بعد میں خریدی گئی زمین کا مالک ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جو زمین ایک مرتبہ مکمل وقف ہوچکی ہے تو اس طرح دھوکے سے اپنے نام وقف کرواسکتا ہے یا نہیں؟ واقف، متولیان اور محلے والے سب پریشان ہیں، لہٰذا شریعت کے مطابق مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

سابقہ وقف نامہ، شخص مذکور کے نام دھوکے سے کروایا گیا وقف نامہ ،جن حضرات سے عدالت میں دستخط لیے گئے ہیں ان کا حقیقت حال معلوم ہونے پر مخالفت نامہ اور پورے محلے والوں کا شخص مذکور کے اس عمل پر عدم رضا مندی کے کاغذات موجود ہیں۔

جواب… جواب سے پہلے دو باتیں تمہیدکے طور پر سمجھنا ضروری ہے:1.. موقوفہ زمین وقف کرنے سے واقف کی ملکیت سے نکل جاتی ہے او ر الله کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، چناں چہ وقف کے بعد کوئی اس زمین کا مالک نہیں ہوتا، البتہ ذمہ دار او رمتولی بن سکتا ہے۔

2..کوئی زمین وغیرہ صرف کاغذات میں کسی کے نام کر دینے سے اس کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتی جب تک کہ صراحتاً خرید وفروخت نہ ہو۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں کاغذات پر دھوکہ سے دستخط کروانے سے وہ شخص نہ موقوفہ زمین کا مالک بنا ہے، اور نہ موقوفہ زمین سے متصل خریدی گئی زمین کا مالک بنا ہے، بلکہ موقوفہ زمین تو الله کی ملکیت ہے، اور اس موقوفہ زمین کے متولی وقف کرنے والی خاتون کا بھائی اور دیگر عزیز ہی ہوں گے، کیوں کہ واقف کی شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے ،او رموقوفہ زمین سے متصل خریدی ہوئی زمین مدرسہ کی شمار ہو گی ، کیوں ہ وہ زمین مدرسہ ہی کے لیے چندہ کی رقم سے خریدی گئی ہے۔

میت کمیٹی بنانا
جواب… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں پرانے زمانے سے ایک رواج چلتا آ رہا ہے وہ یہ کہ ہر علاقیمیں ایک کمیٹی ہوتی ہے ،وہ ہر مہینے یا جب فوتگی ہو جائے تو پیسے جمع کرکے باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے اور جس گھر میں فوتگی ہوئی ہے ان کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام ان ہی پیسوں سے کرتے ہیں، اس کے علاوہ سال میں ایک مرتبہ برف باری کے موسم میں علاقے والے پیسے جمع کرکے لکڑیاں لے آتے ہیں ،یہی لکڑیاں اگر فوتگی ہو جائے تو اس کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں اور علاقے والے سردی میں مسجد کے ساتھ کمرے میں ڈرم لگا کے اس میں آگ جلاتے ہیں اور سب بیٹھ کر گرم ہوتے ہیں، اگر فوتگی ہو جائے ان دنوں میں یا تبلیغی حضرات آجائیں تو یہ سب مہمان بھی وہی ہوتے ہیں اور علاقے والے بھی وہی بیٹھ کر گرم ہوتے ہیں، یہ ہر علاقے کا ایک قانون ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح پیسے جمع کرکے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں مفصل جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے ایک دن یعنی صبح، شام کے کھانے کا انتظام کرنا ایک مستحب عمل ہے، لیکن اس کے لیے مذکورہ کمیٹی کی صورت اختیار کرنا بوجہ مندرجہ ذیل مفاسد درست نہیں، اس لیے احتراز کیا جائے:

1..سلف صالحین سے ایک غیر منقول عمل کو اختیار کرنا ہے جو کہ درست نہیں۔

2..ایک مستحب عمل کے لیے التزام کرنا ہے جو کہ مکروہ ہے۔

3..بعض دفعہ پیسے دینے والے دلی خوشی کے ساتھ نہیں دیتے، جب کہ کسی کا مال بغیر اس کی دلی رضا مندی اور خوشی کے استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں۔

4..مذکورہ کمیٹی کی صورت میں میت کے گھر والوں کے جمع شدہ پیسے بھی لگتے ہیں، جب کہ مقصود یہ ہے کہ الله کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے مال سے میت کے قریبی رشتہ داروں کے لیے کھانے کا انتظام کیا جائے، نہ کہ میت کے گھروالوں کے مال سے۔

5..کمیٹی میں حصہ ڈالنے والوں کے مال کا صحیح علم نہیں ہوتا کہ حلال ہے یہ حرام؟

6..حصہ نہ دینے والوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

7..اس دن دعوت کی ایک شکل بن جاتی ہے جو کہ میت کے گھر والوں کے لیے ایذاء کا سبب بنتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

لہٰذا کمیٹی کی یہ مذکورہ صورت درست نہیں، البتہ جواز کی صورت یہ ہے کہ فوتگی ہو جانے پر چند آدمی یا کوئی ایک شخص میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا انتظام کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

دل ہی دل میں نذر کی نیت کرنا
سوال…کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہزید نے دل میں نیت کی تھی کہ اگر میرا فلاں کام خیر و عافیت سے مکمل ہو گیا تو میں ایک بکرا ذبح کر کے اس کا گوشت مدرسے کے طلباء کو کھلاؤں گا اور خوشی میں دوست احباب کی بھی ضیافت کروں گا، اب اس کا وہ کام ہو گیا ہے، کیا اب اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ارادے پر عمل کر گزرے؟ یا صدقے کا کوئی اور اس کے علاوہ بہترین طریقہ ہے تو بتا دیں۔ جزاکم اللہ خیراً․

جواب… واضح رہے کہ صرف دل میں نذر کی نیت کرنے سے نذر منعقد نہیں ہوتی، لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں زید کی نذر منعقد نہیں ہوئی، اب زید کے ذمہ بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت طلباء کو کھلانا لازم نہیں ہے اور نہ دوست احباب کی ضیافت اس پر لازم ہے، اور اگر زید کوئی نفلی صدقہ کرنا چاہتا ہے، تو نفلی صدقات کے لیے نہ کوئی دن متعین ہے ، نہ کوئی وقت متعین ہے ، نہ کوئی خاص جانور متعین ہے اور نہ کوئی خاص چیز متعین ہے، بلکہ نفلی صدقہ ہر وقت، ہر دن کرنا صحیح ہے، چاہے بکرے سے کرے یا کسی اور چیز سے کرے، یا نقدی کی صورت میں صدقہ کرے، البتہ اگر قحط سالی نہ ہو، تو نقدی کی صورت میں صدقہ کرنا افضل ہے، اور اگر خشک سالی ہو، تو پھر خوردونوش کی اشیاء کی صورت میں صدقہ کرنا افضل ہے۔

والدین کی نافرمانی، ساس بہو کا تنازعہ
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بیٹا شادی کے بعد سے بہت نافرمان ہوگیا ہے ، میرا کوئی کہنا ہی نہیں مانتا ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کی بیوی اس کو بہکاتی ہے،جیسے حال ہی میں کچھ مسئلے ہوئے ،بہو کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اسی دوران بیٹے کی بھی طبیعت خراب تھی، تو میں نے کہا کہ میں بہو کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی، تم اس کو اس کے گھر چھوڑ کر آؤ، تو اس بات پر بیٹا غصہ ہوگیا اور کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے، میں اس کو وہاں نہیں چھوڑ سکتا، جس پر مجھے بھی غصہ آگیا کہ میرا کہنا نہیں سن رہا۔

دوسری بات یہ کہ بہو سلائی سیکھنے جاتی ہے ہفتہ میں تین دن ڈھائی سے پانچ بجے تک،تواس بات پر میں نے بیٹے کو کہا کہ وہ سلائی نہیں سیکھے گی، تمھاری بہن بھی سیکھ رہی ہے وہ اس کو سکھادے گی جس پر بیٹے نے کہا کہ وہ میری مرضی سے سیکھ رہی ہے اور اس کو خود بھی ذوق و شوق ہے، میں نہیں چھڑوا سکتا، یہاں پر بھی اس نے میرا کہنا نہیں مانا۔

تیسری بات یہ کہ بہو جب بھیکہیں قریبی رشتہ داروں کے ہاں جاتی ہے تو الماری کی چابیاں نکال لیتی ہے جس میں اس کے زیور ، کپڑے اور اس کا بیوٹی باکس کا سامان ہے، اور جب دور جاتی ہے تو کمرے کو تالا لگا دیتی ہے، اس بات پر میں نے کہا کہ کیا ہم چور ہیں جو اتنی حفاظت ہوتی ہے اور ہم پر ذرا برابر بھی بھروسہ نہیں، تو اس پر بہو اور بیٹا جواب دیتے ہیں کہ اس میں مسئلہ کیا ہے؟ بیٹا کہتا ہے امی! یہ اس کی ملکیت ہے وہ جو چاہے کرے،اس کو نہیں روک سکتے اور اس کو یہ حق شریعت بھی دیتی ہے کہ وہ اپنے سامان کی حفاظت کرے۔

چوتھا یہ کہ بہو کو اس کے گھر سے ایک عادت لگی ہوئی ہے ،وہ کہتی ہے کہ بچپن سے ان کے والد صاحب نے ان کو یہ عادت لگوائی ہے اور وہ یہ کہ دوپہر کو سوجانا ، جب کہ میرے گھر کا ماحول ایسا نہیں اور نہ میں کسی کو سونے دیتی ہوں، اس پر جب میں کہتی، تو بیٹا کہتا ہے کہ امی میں خود آفس میں تھوڑی دیر لیٹ جاتا ہوں،کیوں کہ اس سے ذہن فریش ہوجاتا ہے، ہمارے ساتھ تو ایسا معاملہ نہیں ۔

ان تمام مسائل کا کیا حل ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں کیا ہدایات جاری کی ہیں؟ اس پر روشنی ڈال دیں۔ جزاک اللہ․

جواب…واضح رہے کہ والدین کی نافرمانی یقینا گناہ ِ کبیرہ اور بہت بڑا جرم ہے، قرآن کریم میں والدین سے حسن سلوک اور نیکی کرنے کا بار بار حکم ہے، احادیث مبارکہ میں والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں سے شمار کی گئی ہے۔

البتہ سوال میں جو مذکور ہے وہ آپ کے بیٹے کی طرف سے نافرمانی نہیں ہے، بلکہ مصلحت کا بھی یہی تقاضا ہے، کیوں کہ ازدواجی زندگی میں بہت سے امور ایسے ہیں جو میاں بیوی پر قانوناً لازم نہیں ہوتے، لیکن اخلاقاً انہیں اختیار کیا جاتا ہے ، بہو کے بیمار ہونے کی حالت میں آپ پر اپنی بہو کو سنبھالنا اور تیمارداری شرعاًواجب اور ضروری تو نہیں ہے لیکن اگر آپ کی طرف سے ممکن ہو تو اس کی تیمارداری کریں اور بہو کو بھی چاہیے کہ وہ بھی ایسے موقع پر آپ کی تیمار داری او رخدمت کرے، یہ سب اخلاقیات میں سے ہے، گھر کا ماحول خوش گوار اور پرسکون رکھنے کے لیے بہو اپنی ساس اور سسر سے ویسے ہی عزت واحترام اور ادب سے پیش آئے جیسے اپنے والدین کے ساتھ پیش آتی ہے اور ساس ، سسر بھی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح عزت ومقام دیں اور آپس میں ایک دوسرے کی جائز ضروریات کاخیال رکھیں، باقی آپ کی بہو کا الماریوں کو تالا لگانا، سلائی سیکھنے کے لیے جانا اور دوپہر کو سونا، یہ تمام اس کے ذاتی معاملات ہیں، اولاً نرمی سے روک دیا جائے، وگرنہ یہ کوئی ایسے امور نہیں ہیں جو خلاف شرع ہونے کی وجہ سے ممنوع ہوں، بلکہ ان کی اجازت ہے، لہٰذا زیادہ سختی کرنے سے گریز کیا جائے۔

معمولی باتوں پر جھگڑا نہ صرف یہ کہ آپس میں اختلافاات کو پیدا کرتا ہے، بلکہ گھر کے ماحول کو بھی ناخوش گوار بنا دیتا ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔