کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

کافر ممالک میں بننے والی مصنوعات کے استعمال کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ کافر ممالک میں دستیاب کھانے پینے اور دیگر استعمال کی پروڈکٹس میں شامل اشیاء کے متعلق کمپنی نے جو تفصیل بیان کی ہوتی ہے، اس کا اعتبار شرعاً کرسکتے ہیں یا نہیں؟ مثلاً :دودھ کے ڈبے پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس میں سو فیصد گائے کا دودھ ہے، چپس کے پیکٹ پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس میں آلو، مرچیں اور ویجیٹیبل وآئل ہے، گوشت نہیں ہے، تو کیا ان تفصیلات پر بھروسہ کرتے ہوئے مسلمان ان چیزوں کو استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب…کافر ممالک میں گوشت کے علاوہ کھانے پینے کی مصنوعات کے بارے میں جب تک اس بات کا یقین یاظن غالب نہ ہو جائے کہ ان میں کوئی حرام چیز ملائی گئی ہے، اس وقت تک ان مصنوعات کا استعمال کرنا درست ہے۔

لیکن گوشت اور اس سے بنائی گئی مصنوعات میں اصل حرمت ہے، لہٰذا جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ یہ گوشت شرعی طریقہ پر ذبح شدہ حلال جانور کا ہے اس وقت تک اسے استعمال کرنا جائز نہیں۔

کھانے سے فارغ ہونے کی دعا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کھانا کھانے کے بعد کی دعا ”الحمدلله الذی اطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین“ ثابت ہے، یا ” وجعلنا من المسلمین“ ،یا دونوں طرح ثابت ہے؟ کس پر عمل کیا جائے؟

جواب… کھانا کھانے کے بعد کی دعا ”وجعلنا مسلمین“ بغیر ”من“ کے اضا فے کے کتب احادیث میں ذکر ہے،”من“ والی حدیث کسی بھی مستند کتاب میں نہیں مل سکی، لہٰذا”وجلعنا مسلمین“ والی حدیث پر عمل کیا جائے۔

محرم الحرام میں چاول، شربت وغیرہ بنانا اور تقسیم کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ محرم الحرام کے مہینے میں خصوصاً پہلے عشرہ میں کچھ لوگ ( جو علماء حق سے تعلق رکھنے والے ہیں ) اپنے گھریلو کھانے کے علاوہ مختلف چیزیں بناتے ہیں، مثلاً: چاول، چنے، شربت وغیرہ اور اسے اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الله کے نام پر بنائی ہے اور اس کا ثواب اماموں کو بھیج رہے ہیں۔ کیوں کہ عموماً ان دنوں میں فرقہ باطلہنذر ونیاز وغیرہ کرتے ہیں،تو کیا علماء حق سے تعلق رکھنے والے لوگ ان دنوں میں یہ کام کرنے سے اس حدیث (من تشبہ بقوم فھو منھم“ کا مصداق بن سکتے ہیں یا نہیں؟ او ر ان دنوں میں یہ کام کرنا علماء حق سے تعلق رکھنے والوں کے لیے جائز ہے یا ناجائز؟

جواب… واضح رہے کہ محرم الحرام میں مذکورہ اشیاء ( چاول، چنے، شربت وغیرہ) بنانے اور تقسیم کرنے میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فرقہ باطلہ کا شعار بن چکا ہے، اور شریعت مطہرہ نے کفار اور فساق کے ساتھ کسی بھی امر میں مشابہت اختیا رکرنے کو سخت گناہ اور ناجائز قرار دیا ہے، لہٰذا اس سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچانا چاہیے اور جو لوگ ان کا یہ شعار اپنائیں گے وہ یقیناً اس حدیث ”من تشبہ بقوم فھو منھم“ کا مصداق بنیں گے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے زبان سے نیت ثابت نہیں
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے حق مندرجہ ذیل مسئلے کے حوالے سے کہ کیا الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے احکامات اور اعمال میں زبان سے نیت ثابت ہے یا نہیں؟ جیسے: وضو، نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ۔

جواب…واضح رہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم الله سے نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا ثابت نہیں، کیوں کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، وہ نماز، روزہ، حج وغیرہ کے لیے کافی ہے، البتہ دل ودماغ کی یکسوئی اور استحضار کے لیے حضرات علماء کرام نے زبان سے نیت کے الفاظ کہنے کو مستحب قرار دیا ہے۔

قادیانیوں کو احمدی کہنا کیسا ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین کہ قادیانی اپنے آپ کو احمدی کہلواتے ہیں، جب کہ خاتم الانبیاء ،تاج دار کائنات صلی الله علیہ وسلم کا مبارک نام نامی اسم گرامی”احمد“ ہے، تو قادیانیوں کو احمدی کہنا کیسا ہے؟ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر ی جواب ارشاد فرما دیں، شکریہ

جواب… واضح رہے کہ قادیانی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ختم نبوت کے منکر ہیں اور قرآن کریم میں ” من بعدی اسمہ احمد“ سے وہ غلام احمد قادیانی کو مراد لیتے ہیں او راسی وجہ سے اپنے آپ کو”احمدی“ کہلواتے ہیں،حالاں کہ یہ ان کا صریح جھوٹ ہے، جو کہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے، لہٰذا ان کو ”احمدی“ کہنا ٹھیک نہیں، کیوں کہ ان کو ”احمدی“ کہنے سے ان کے باطل عقیدہ کو تقویت ملتی ہے، بلکہ ان کو قادیانی ہی کہنا چاہیے۔

مسجد کے مختلف امور کے بارے  امام صاحب اور منتظمہ کمیٹی کی ذمہ داریاں
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء وفقہاء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جامع مسجد کے بہتر انتظام کے لیے امام وخطیب مسجد اورمنتظمہ کمیٹی کے حقوق اورذمہ داریوں کی تفصیلات شرعاً کیا کیا ہیں؟ الگ الگ کیا کیا دونوں کی حدود ہیں؟ یہ مسئلہ زیر بحث لانا اور معلوم کرنا انتظام کو بہتر طور سے مرتب کرنے کی غرض سے ہے مثلاً:
1.…مصلیٰ ،منبر ومحراب سے متعلق امور ،خاص کر مختلف مواقع پر بیانات کرنا یا کرانا، خاص کر رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں باہر سے علماء کو بلانا۔
2.…امام مسجد مسجد کا ملازم ہوتا ہے یا کمیٹی والوں کا؟ ملازمت کی نوعیت کیا ہے؟ کیا اس کے ساتھ عام ملازموں والا سلوک ہو گا؟
3.… کچھ لوگوں نے کچھ شرائط کے ساتھ سال دو سال کے لیے امام رکھا ہوتا ہے ،اس طرح امام رکھنا مناسب ہے؟
4.… مسجد کے انتظامی امور میں امام مسجد کو مداخلت کا حق ہے یا نہیں؟ جیسا کہ عام نمازی کو یہ حق ہے۔
5.… بحیثیت مجموعی امام فائق ہے یا منتظمہ کمیٹی؟
6.… بد انتظامی یا عدم توجہ سے نظام میں خامی، یا مالی نقصان وضیاع سے متعلق امام بریٴ الذمہ ہو گا یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

آپ حضرات تفصیلاً مسئلہ کی وضاحت فرمائیں کہ تشنگی نہ رہے۔ جزاکم الله احسن الجزاء․

جواب… دنیا کا انتظام قائم رکھنے کے لیے الله تعالیٰ نے ہر جگہ بعض لوگوں پر حقوق کی پاسداری لازم کی ہے، تو جامع مسجد کے بہتر انتظام کے لیے امام اور منتظمہ کمیٹی درج ذیل اپنے انفرادی اور اجتماعی حقوق کا خیال رکھیں، تاکہ نظام کو بہتر سے بہتر طور پرچلایا جاسکے:
1.…مصلیٰ اور منبر ومحراب سے متعلق امور کو بجالانا امام وخطیب کی ذمہ داری ہے، اسی طرح مختلف مواقع پر وعظ ونصیحت اور بیانات کرنا اور کرانا بھی امام صاحب کا حق ہے۔
2.…امام مسجد نہ مسجد کا ملازم ہوتا ہے اور نہ ہی کمیٹی والوں کا، بلکہ ان کو ملازم کہنا امامت جیسے عظیم منصب کی علوّشان کے خلاف ہے۔
3.… جائز ہے، لیکن اس سے امام صاحب کی تحقیر مقصود نہ ہو۔
4.… خلاف شرع امور پر امام صاحب کا اہل محلہ کو متوجہ کرنا ضروری ہے، باقی انتظامی امور میں امام مسجد منتظمہ کمیٹی کا رکن ہو، تو مثل دوسرے افراد کمیٹی کے اس کو اس قدر حق حاصل ہو گا، جس قدر منتظمہ کمیٹی کے دوسرے فرد کو حاصل ہو، ورنہ نہیں۔
5.… امام فائق ہے۔
6.… امام مسجد منتظمہ کمیٹی کا رکن ہو، تو عدم توجہ سے نظام میں خامی یا مالی نقصان ہونے سے امام صاحب بریٴ الذمہ نہیں ہے، او ررکن نہ ہونے کی صورت میں اہل محلہ کو نظام میں خامی او رنقصان کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔

جی پی فنڈ پر اضافی رقم لینا جائز ہے
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء دین متین او رمفتیانِ شرع مبین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ”جی پی“ فنڈ پہلے حکومت سرکاری افسروں سے بغیر پوچھے کاٹتی اور بغیر پوچھے اس پر نفع شامل کرکے دیتی تھی، اس کو تو علماء نے جائز قرار دیا تھا۔

مگر اب جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہو گا کہ سرکاری افسروں سے ”جی پی“ فنڈ کی مد میں حکومت کچھ رقم کاٹ کر جمع کرتی ہے او راس کاٹنے میں ملازم سے نہیں پوچھتے، البتہ اب حکومت ملازم کو ایک آپشن دیتی ہے کہ تم اس پر نفع یعنی سود لوگے یا نہیں؟

اب جواب طلب بات یہ ہے کہ کیا اب بھی اگر کوئی ملازم نفع وصول کرنے کو اختیار کرے تو یہ سود میں شمار ہو گا یا نہیں؟

جواب… ملازم کی تنخواہ سے جبری کٹوتی کی صورت میں اس پر ملنے والی اضافی رقم سود نہیں، لہٰذا ملازم کا اسے وصول کرنا جائز ہے، خواہ اضافی رقم لینے کا اختیار دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔

ہبہ(تحفہ) سے متعلق متفرق مسائل
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسائل ہذا کے بارے میں کہ میرے والد کا چند ہفتے قبل انتقال ہو گیا ہے جب کہ میری والدہ کا انتقال گزشتہ سال ہو چکا ہے ، والد کے انتقال کے وقت ورثاء میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

میرے والد نے ترکہ میں مندرجہ ذیل جائیداد چھوڑی ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
1.…ایک عدد مکان تین منزلہ جو کہ2016ء میں اپنے بیٹے کے نام کر دیا تھا اور کئی مجالس میں اس کا ذکر بھی کیا کہ میں نے اس مکان کو اپنے بیٹے کے نام کر دیا ہے، اب جو یہ چاہے کرے، یہ مکان اس کا ہے، انتقال تک والد صاحب میرے ساتھ اسی مکان میں رہائش پذیر رہے، اس مکان کا کیا حکم ہے؟
2.… میرے والد نے اس کے علاوہ ایک اور مکان خریدا جو اپنے چاروں پوتوں کے نام کر دیا اور اس کا ذکر بھی مختلف مجالس میں کیا کہ میرے چاروں پوتوں کا ہے، اس کو کوئی بھی فروخت نہیں کرسکتا۔ چاروں پوتے ابھی تک نابالغ ہیں، یہ مکان کرایے پر ہے اور اس کا کرایہ کمیٹی کی صورت میں جمع ہے جو کہ تقریباً دس لاکھ روپے ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ اوراس رقم پر زکوٰة واجب ہے یا نہیں ؟اور اس رقم کا استعمال والدین کے لیے کیسا ہے؟
3.…اسی طرح دو مکان اور ہیں جو کہ ان کے بیٹے کے نام ہیں اور ان کا کرایہ بھی بیٹا ہی وصول کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
4.…ایک عدد مکان مزید بھی خرید کر چاروں پوتوں کے نام کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
5.…ایک عدد باغ بھی والد کی ملکیت میں ہے ، جس کا رقبہ تقریباً پونے دو ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جن کے بارے میں انہوں نے مختلف مجالس میں ذکر کیا کہ میرے انتقال کے بعد دونوں بہن بھائی اس کو آدھا آدھا تقسیم کرلیں، اس باغ کا حکم کیا ہے؟
6.… والد نے اپنی زندگی میں ہماری والدہ کی میراث میں سے بیٹی کو زرعی زمین دی اور اپنے پاس سے کچھ رقم والدہ کے ترکہ میں ملا کر ایک عدد پلاٹ دلوایا اور اسے بیٹی کے نام کر دیا ہے۔
7.…دو عدد پلاٹ خرید کر ایک پلاٹ اپنی بہو او رایک پلاٹ اپنے بیٹے کی بیٹی(مرحوم کی پوتی) کے نام کر دیا تھا او رمکمل کاغذات بھی حوالہ کر دیے تھے، اس کا حکم کیا ہے؟

والد محترم اپنی زندگی میں مختلف مجالس میں اس بات کا ذکر کرتے رہے کہ جو جائیداد میں جس کے نام کر رہا ہوں وہ اس کا مختار کل ہے۔

براہ کرم ان تمام جائیدادوں کے شرعی احکام قرآن وسنت کی روشنی میں مرحمت فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ جس مکان میں کوئی شخص خود رہ رہا ہو، اس مکان کا ہبہ کرنا اس وقت درست ہو گا، جب ہبہ کرنے والا شخص مکان خالی کرکے تمام تر اختیارات اس شخص کے حوالے کر دے کہ جس کو مکان ہبہ کیا ہے، لہٰذا صور تِ مسئولہ میں والد مرحوم نے اپنی رہائش کا مکان آپ کو ہبہ کیا تھا، ہبہ کرتے وقت اور اس کے بعد بھی آخر عمر تک اسی مکان میں رہائش پذیر رہے، اس لیے یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا، لہٰذا یہ مکان مرحوم کے ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثاء میں بقدر ِ حصص تقسیم ہو گا۔
4،2.… مرحوم نے الگ سے جو مکان اپنے پوتوں کے نام کیا ہے اور نام کرنے کے بعد ان کے والد نے ان دونوں مکانوں پر قبضہ بھی کیا تھا او ران کے تمام اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لیے تھے تو ہبہ درست ہو گیا اور وہ دونوں مکان پوتوں کی ملکیت ہوں گے۔ (کذا فی کفایت المفتی)

بچوں کے مملوکہ مکان کے کرایہ کی رقم پر زکوٰة نہیں ہے، بچوں کے مملوکہ مکان کے کرایہ کی رقم ان کی اپنی ذاتی ضروریات میں صرف کی جائے، اسی طرح ان کی رقم کو ایسے نفع بخش کام میں لگایا جاسکتا ہے کہ جس سے ان کے مال میں بڑھو تری ہو، خود والدین کے لیے نابالغ بچوں کی رقم کا استعمال عام حالت میں درست نہیں ہے، بحالت مجبوری صرف خوردونوش کی اشیاء خریدنے کی حد تک استعمال کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں اور نہ ہی ان کی ذاتی رقم کسی کو بطور عاریت یا بطور قرض کے دے سکتے ہیں۔

3.… مرحوم نے جو مکانات اپنے بیٹے کے نام کیے ہیں اور مالکانہ تصرفات بھی بیٹے ہی کو دیے ہیں، تو وہ دونوں مکان بیٹے کی ملکیت میں شمار ہوں گے۔

5.… یہ وصیت ہے اور وارث کے لیے وصیت تب درست ہے، جب دوسرے ورثاء بھی اس پر راضی ہوں، لہٰذا ذکر کردہ صورت میں چوں کہ ورثاء صرف آپ دونوں ہیں اور دونوں کے لیے مرحوم نے برابر وصیت کی ہے، چناں چہ اگر دونوں ورثاء اس پر راضی ہیں اور اس وصیت کو نافذ بھی سمجھتے ہیں، تو وصیت درست ہے اور وہ باغ آپ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا، وگرنہ ترکہ میں شامل ہو کر ورثاء کے درمیان ان کے حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم ہو گا۔

6.… مرحوم نے جو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام کیا ہے اور پورے تصرفات کا اس کو مختار بنایا ہے تو وہ پلاٹ اسی کا ہو گا۔

7.…مرحوم نے اپنی بہوکے نام پلاٹ کرتے وقت کل تصرفات کا ان کو مالک بنایا ہے، تو وہپلاٹ ان کی ملکیت ہو گی۔

دوسرا پلاٹ جو پوتی کے نام کیا ہے، اگر پوتی کی طرف سے اس کے والد نے پلاٹ پر قبضہ کیا ہے تو وہ پلاٹ پوتی کی ملکیت ہوگا۔