کھانے پینے کا نبوی طریقہ حکمتیں اور مصلحتیں

کھانے پینے کا نبوی طریقہ حکمتیں اور مصلحتیں

محترم محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب کھانے پینے کی چیزیں سامنے ہوں اور تم ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کرو تو یہ دعا پڑھ لیا کرو۔

بسم اللہِ وعلی بَرَکَةِ اللہ․(کھانے سے پہلے بسم اللہ یا اللہ کا ذکر کرنا ثابت ہے؛ البتہ مذکورہ الفاظ: بسم اللہ وعلی برکة اللہ، تفسیر الثعالبی میں موجود ہے اور یہی دعا المستدرک للحالکم میں یوں ہے: بسم اللہ وبرکةاللہ اور یہی دعا کے صحیح کلمات ہیں اور ”علی“ کی زیادتی تحقیقی اعتبار سے درست نہیں ہے؛ چوں کہ بسم اللہ وعلی برکة اللہ کو شہرت ہے؛اِس لیے یہی دعا لکھی گئی ہے؛ تاہم کوئی شخص صرف بسم اللہ پڑھ لے یا کوئی اور ذکر کرلے تب بھی کافی ہے، مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:مرقاة المفاتیح:7/2711 غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ ص: 323 ) (تفسیر الثعالبی: 5/624- المستدرک،رقم:7084)
نوٹ: لفظ بَرَکَة: راء کے زبر کے ساتھ ہے، لوگ دعا میں راء کے سکون کے ساتھ پڑھ دیتے ہیں، اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

تشریح: کھانا پیناانسان کے لوازمِ حیات میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی بہت ہی قیمتی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے انواع واقسام کی چیزیں پیدا فرمائیں اور ان میں طرح طرح کی لذتیں بھی رکھیں؛ لیکن کھانے سے لطف اندوز ہونے سے پہلے کچھ آداب وتہذیب بھی بتائی ہے، جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے؛ تاکہ ایک صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہوسکے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو جب کچھ کھانے یا پینے کو میسر ہوتا تو اس کو اللہ کی طرف سے اور اُس کا عطیہ یقین کرتے ہوئے، اُس کی حمد اور اُس کا شکر ادا کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت فرماتے۔

حکمت اور پیغامِ نبوی
کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ کر بندہ یہ اقرار کرتا ہے کہ میرا وجود اور میرا کوئی کام بغیر اللہ کی مشیت وارادے اور اُس کی امداد کے نہیں ہوسکتا، ایک کافر بھی کھاتا پیتا ہے اور ایک مسلمان بھی؛ مگر مسلمان اپنے لقمہ سے پہلے بسم اللہ کہہ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ لقمہ زمین سے پیدا ہونے سے لے کر ،پک کر تیار ہونے تک، آسمان وزمین اور سیاروں اور ہوا وفضائی مخلوقات کی طاقتیں ،پھر لاکھوں انسانوں کی محنت صرف ہوکر تیار ہوا ہے، اُس کا حاصل کرنا میرے بس میں نہ تھا، اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان تمام مراحل سے گذار کر یہ لقمہ یا گھونٹ مجھے عطا فرمایا ہے۔ (معارف القرآن:1/74)

برکت کے معنی ہیں کہ آدمی کے پاس چیز تھوڑی ہو؛ لیکن اُس سے فائدہ زیادہ حاصل ہوجائے؛ اِس لیے برکت کی دعا کی جارہی ہے کہ یہ کھانا جو میرے سامنے ہے، میرے لیے اور میرے گھر والوں کے لیے کافی ہوجائے اور اِس سے سب کی بھوک مٹ جائے، اگر برکت نہ ہو تو کھانا زیادہ ہونے کے باوجود بھوک نہیں مٹتی۔

برکت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب یہ کھانا میرے جسم کے اندر پہنچے تو صحت اور قوت کا ذریعہ بنے، بیماری اور تکلیف کا ذریعہ نہ بنے، سرکارِ دوعالم صلی الله علیہ وسلم اِس موقع پر اِس لیے دعا فرمارہے ہیں کہ یا اللہ! یہ کھانا آپ کی عطا ہے اور یہ بڑی نعمت ہے؛ لیکن یہ نعمت اُسی وقت فائدہ مند ہوگی جب آپ اُس میں برکت ڈالیں گے؛ اِس لیے میں برکت کا سوال کرتا ہوں؛ ورنہ بعض دفعہ کھانا لذیذ ہوتا ہے؛ لیکن اسے کھا کر انسان بیمار ہوجاتا ہے، ایسا اِس لیے ہوتا ہے کہ اُس میں برکت نہیں ہوتی۔(اسلام اور ہماری زندگی:10/214)

کھانا،پانی، وقت، مال یا کسی بھی چیز میں برکت پیدا کر نا صرف اللہ کا کام ہے، و ہ جس چیز کو چاہتا ہے مبارک بنادیتا ہے اور ا ستعمال کرنے والے کے لیے مفید بنا دیتا ہے، اُس پر اطمینان اور قناعت کی دولت سے نوازدیتا ہے اور بہت سی چیزوں کا نعم البدل عطا فرماتا ہے اور ا للہ تعالیٰ جس چیز سے چاہتا ہے برکت چھین لیتا ہے، پھر دنیا کی کوئی طاقت اس میں برکت کی نعمت داخل نہیں کرسکتی؛ لہٰذا عاجز ومجبور بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے برکت کا طالب رہے او ران وسائل کا استعمال کرے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی برکت کے حصول کا ذریعہ وسبب بنایا ہے، کھانا کھانے سے پہلے برکت کی دعا، حصولِ برکت کا سبب ہے؛پس مسلمانوں کو اسے برتنا چاہیے۔

یہ دعا اِس لیے پڑھائی جارہی ہے؛ تاکہ شیطانی وساوس اور کھانے میں شیطانی شرکت سے حفاظت رہے، سرکارِدوعالم صلی الله علیہ وسلم کاارشاد ہے: اگر کھانے پر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے تو شیطان کھانے کو حلال کرلیتا ہے۔(مسلم،رقم:2017)یعنی وہ بھی شریک ِ طعام ہوجاتا ہے،اس کی شرکت کی وجہ سے ہمارا کھانا اگر چہ کم نہیں ہوتا؛ لیکن اس کھانے کے بعد اللہ کی اطاعت وعبادت کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے، نیند اور تھکن کا احساس بڑھ جاتا ہے، طبیعت میں تکدُّرسا رہتا ہے۔

کھانا ہماری عادت ہے، شریعت یہ چاہتی ہے کہ ہم اپنی عادت کو عبادت بنائیں، دنیا میں آخرت کے لیے زندگی گذاریں، عادت عبادت اور دنیاآخرت اُسی وقت بنے گی جب ہم کھاتے وقت اللہ کا ذکر کریں۔

بسم اللہ پڑھنے اور برکت کی دعا کے تعلق سے تفصیلی گفتگو پیچھے بھی آچکی ہے، مراجعت فرمالیں۔

کھانے پینے کے چند آداب
احادیث میں کھانے پینے کے آداب تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، اُن آداب کی بجا آوری حصولِ برکت میں معاون ہے، اِس لیے انہیں بھی لکھا جاتا ہے۔

٭…کھانا کھانے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آپ کھانا یا پانی پیناچاہتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے۔(نسائی،رقم:257) البتہ کسی شرعی عذر، جیسے بیماری یا زخم وغیرہ کی صورت میں نہ دھونے کی رخصت ہے۔

٭… کھانا ہمیشہ داہنے ہاتھ سے کھائیں۔ وکل بیمنک․ (بخاری،رقم:15376)

٭…کھانا بیٹھ کر کھائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا۔(مسلم،رقم:2025)

٭… کھانا اجتماعی طور پر کھائیں، اِس کی وجہ سے برکت نازل ہوتی ہے۔ (ابوداوٴد،رقم:3764)

٭… اطمینان سے بیٹھ کر کھانا کھایئے، ٹیک لگا کر مت کھایئے۔(بخاری،رقم:5398)مستحب انداز یہ ہے کہ اپنے گھٹنوں کے بل، پیروں کے تلووں پر بیٹھیے یا دایاں پاوٴں کھڑا رکھ کر بائیں پاوٴں پر بیٹھیے۔

٭…کھانے میں عیب نہ لگایئے۔(بخاری،رقم:3563) بلکہ یہ سوچیے کہ یہ بھی اللہ کی نعمت ہے۔

٭… زیادہ گرم کھانا مت کھایئے۔

٭…کھانے کے بعد پلیٹ اور انگلیوں کو چاٹ لیا کیجیے۔ (مسلم:2032)

٭… لقمہ نیچے گر جائے او رگندہ نہ ہو تو اٹھا کر کھا لیجیے، شیطان کے لیے مت چھوڑ یئے۔(ترمذی،رقم:1802)

٭… زیادہ ڈکار نہ لیں۔(ترمذی:2478)

٭…کھانے پینے کی چیزوں پر پھونک نہ مارئیے۔

٭…کھانے کے دوران ٹھٹھا مارنے اور بہت زیادہ باتیں کرنے سے پرہیز کیجیے۔

٭…بلا ضرورت کھانے کو مت سونگھیے، یہ بری عادت ہے۔

٭…روٹی سے انگلیاں ہر گز صاف نہ کیجیے، یہ بڑی گھناوٴنی عادت ہے۔

٭…پانی تین سانس میں ٹھہر ٹھہر کرپیجئیے، اِس سے پانی بھی ضرورت کے مطابق پیا جاتا ہے اور آسودگی بھی ہوتی ہے۔

٭…کھانے کے بعد اللہ کی حمدوثنا کیجیے۔(آدابِ زندگی،ص:50)

آداب ِ طعام سے متعلق ایک عمدہ تحریر
کھانے میں چار چیزیں فرض ہیں:
1..طلب حلال: حلال رزق کی تلاش اور حرام سے اجتناب کرنا۔ 2..حلال پر قناعت: جو حلال رزق اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اس پر راضی ہونا۔ 3..یہ عقیدہ رکھنا کہ جو رزق مجھے حاصل ہوا ہے یہ محض اللہ کی عطا ہے۔ 4..کھانے سے حاصل کردہ قوت کو اللہ کی عبادت اور طاعت میں خرچ کرنا۔

چار چیزیں کھانے میں مسنون ہیں:
1..ہاتھوں کا دھونا۔ 2..بسم اللہ پڑھنا۔ 3..دائیں ہاتھ سے کھانا۔ 4..سنت کے موافق بیٹھنا۔

چارچیزیں مستحب (پسندیدہ) ہیں:
1..تین انگلیوں سے کھانا۔ 2..اچھی طرح چبا کر کھانا۔ 3..چھوٹے لقمے لینا۔ 4..دوسرے کے لقمہ کو نہ دیکھنا۔

دو چیزیں کھانے میں مکروہ(ناپسندیدہ) ہیں:
1..کھانے میں پھونک مارنا۔ 2..کھانے کو سونگھنا۔

کھانے میں ایک چیز حرام ہے:
حد سے زیادہ کھانا(پیٹ بھر جانے کے باوجود بلا ضرورت زیادہ کھانے سے انسانی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جو ناجائز اور حرام عمل ہے)

حرام کے تین درجے ہیں:
1..حرام: بلا اجازت کسی کا مال کھانا۔
2..أحرمُ الحرام: دوسروں کا مال لوٹ کر کھانا۔
3..أشدُّ الحرام: یتیم کا مال کھانا (یہ حرام کا سب سے بڑا درجہ ہے)( مذکورہ تحریر کسی خدا رسیدہ عالم دین کی ہے، صاحب تحریر کا نام تا دمِ تحریر دست یاب نہ ہوسکا، جزاھم اللہ، مولف)۔

چند مسائل
اگر اجتماعی کھانا کھایا جارہا ہو تو بسم اللہ زور سے پڑھنا مستحب ہے؛ تاکہ اور لوگ بھی سنیں اور وہ بھی چوکنا ہوجائیں اور بسم اللہ پڑھیں۔

اگر کوئی شخص کھانے سے پہلے بسم اللہ بھول جائے تو جب یاد آئے بسمِ اللہِ أوَّلَہ وآخِرَہ

یہ اللہ تعالیٰ کا کریمانہ قانون ہے کہ بھولنے کے بعد بھی اگر مذکورہ دعا پڑھ لی جائے تو پورے کھانے میں برکت عطا کردی جاتی ہے اور اول وآخر کا مطلب ہے کہ میں نے اللہ کے نام سے ہی شروع میں کھایا اور آئندہ کھاوٴں گا،مرقاة:7/2711)کہہ لے،اِس کا فائدہ حدیث میں یہ آیا ہے کہ شیطان نے جو کھایا ہے وہ اس کو قے کردیتا ہے، یعنی وہ برکت لوٹتی تو نہیں، مگر دشمن کے پیٹ میں بھی نہیں رہتی اور یہی کیا کم ہے؟!

پانی، دودھ، شوربہ، دوا یا کسی بھی مشروب سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔

جنبی (ناپاک شخص)اور حائضہ وغیرہ کے لیے بھی کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔

اگر چند افراد ایک ساتھ کھارہے ہوں تو کسی ایک کا بسم اللہ پڑھنا سب کی طرف سے کافی ہے؛ مگر مستحب ہے کہ سب پڑھیں؛ البتہ جو شخص بعد میں آئے وہ اپنی بسم اللہ خود پڑھے، اگر وہ نہیں پڑھے گا تو سارے کھانے کی برکت ختم ہوجائے گی۔(تحفة الالمعی:5/196)

لمحہٴ فکریہ
یہ وہ آداب ہیں جن کی رعایت برکت کے نزول کا سبب ہے اور جن کا ترک کردینا بے برکتی کا ذریعہ ہے، آج گردوپیش کا جائزہ لیجیے، کیا یہ آداب ملحوظ رکھے جاتے ہیں؟ کھڑے ہو کر کھانا فیشن میں داخل ہے، بائیں ہاتھ سے کھانا اور پینا عام ہوتا جارہا ہے، گھروں میں لوگ تنہا تنہا کھانے کے عادی ہورہے ہیں، کھانے میں خاص کر دوسروں کے گھروں سے آئے ہوئے کھانوں میں عیب لگانے کا رواج بڑھتا جارہا ہے، گرے ہوئے لقمہ کو اٹھانا توہین اور غربت کی علامت تصور کیا جارہا ہے، پلیٹ چاٹنا تو دور، پلیٹ میں کھانا چھوڑنے کی عادت بھی عام ہوتی جارہی ہے، بتایئے ان سب کے باوجود ہم برکت کی دعا پڑھیں تو اس کے اثرات کیسے ظاہر ہوں گے؟ اللہ ہمیں تمام آداب ومستحبات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کھانے کے بعد کی دعاحکمتیں اورمصلحتیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم جب اپنے کھانے سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔

الحمدُ لِلّٰہِ الَّذي أطْعَمَنَا وسَقَانَا، وجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ․(ایک روایت میں ”جَعَلَنَا مِنَ المُسْلِمینَ“ کے الفاظ ہیں،کنز العمال، رقم:18179 )(ابوداوٴد،رقم:3850)

ترجمہ: حمد وشکر اُس اللہ کے لیے جس نے ہمیں کھانے اور پینے کو دیا اور (اِس سے بھی بڑا کرم یہ فرمایا کہ)ہمیں مسلمان بنایا۔

تشریح: اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے لیے غذا کو لازم قرار دیا ہے او رجب یہ غذا استعمال کرلی گئی اور انسانی ضرورت پوری ہو گئی تو اِس موقع پر بھی ا ِسلام نے اپنے ماننے والوں سے کہا کہ اِس نعمت کے حصول پر اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کرو اور یہی وہ آداب وتہذیب ہیں جن کی وجہ سے مومن اور کافر کے مابین انداز ِ زیست میں فرق ہوتا ہے،کھانے پینے کے تعلق سے اِسلام کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ خوردن برائے زیستن ہونا چاہیے،بندہ مومن کھائے پیے؛مگراِس لیے کہ قوت ونشاط کے ساتھ زندگی کو خدا کی اطاعت وفرماں برداری میں گذارسکے اور دیگر اقوام کا فلسفہ زیستن برائے خوردن کا ہے، و ہ دنیا کی نعمتوں کو جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ سمیٹنا چاہتے ہیں، نتیجہ کی پروا کیے بغیر اپنے پیٹ بھرتے ہیں؛ چوں کہ اللہ رب العزت اِس بات سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے؛ اِس لیے اِسلام نے اِس خاص موقع پر شکر کی تلقین کی اور اِس سلسلے میں دعا بتلائی ، مذکورہ دعا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی دعا ہے؛ اِس لیے اِس کی بڑی اہمیت ہے، یہ دعا ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور اُس کی دی ہوئی غذاوٴں سے فائدہ اٹھانے کے بعد شکرکے موزوں ترین الفاظ کیا ہوسکتے ہیں۔

حکمت اور پیغامِ نبوی
اس موقع پر شکر کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ دنیا میں اس جیسے بے شمار افراد بھوک پیاس میں گرفتار ہیں، جنھیں ضرورت کے مطابق غذا نہیں مل رہی ہے، دوسرا یہ کہ کتنے ہی ایسے انسان ہیں جنھیں انواع واقسام کی نعمتیں حاصل ہیں؛ لیکن وہ صحت کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اِس قابل نہیں کہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں، اِس صورت ِحال میں یہ اللہ ہی کا کرم واحسان ہے کہ اُس نے پاکیزہ غذا عطا کی اور اُس سے اِستفادے کے قابل بھی بنایا، جب انسان اِس طرح سوچتا ہے تواُس کے اندر حقیقتوں کو سمجھنے اور ماننے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور صبر، شکر اور قناعت کے پاکیزہ جذبات ابھرتے ہیں، مذکورہ دعا میں یہ پیغام ہے کہ انسان کی باطنی کیفیات اور جذبات کا انسان کے ظاہر پر اثر پڑتا ہے؛ چناں چہ جو غذا اللہ کا نام لے کر استعمال کی جائے اور جس کے بعد اللہ کی حمدوثنا ہو اس کے پاکیزہ اور خوش گوار اثرات بھی انسان کی صحت پر دیکھے جاسکتے ہیں، اِس مقصد کے حصول کے لیے کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد دعائیں مقرر ہوئیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق دیا اور اِس کے ساتھ ساتھ اُسے کھانے کی اہلیت بھی دی؛گویا ہمیں دو نعمتیں حاصل ہوگئیں، پس ہمیں شکر ِالٰہی کو بجا لانا چاہیے؛ ورنہ تو بہت سے بندگانِ خدا ایسے ہیں جنھیں رزق ہی حاصل نہیں یا رزق حاصل ہے، لیکن بیماری کی وجہ سے کھا نہیں سکتے، پس اُس ذات کے ہمیں کھلانے پر ہم اُس کے شکر گذار ہیں اور اگر کھانے کے لیے کھانا ہو؛ لیکن پانی نہ ہو تو کھانا عذاب بن جائے گا، گویا پانی،کھانے کا تکملہ ہے، ہمیں یہ بھی نصیب ہوا؛ اِس لیے اِس پر بھی خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

مذکورہ دعا کے ذریعہ یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ابھی تمھیں کھانا اور پانی مل گیا، آئندہ کیا ہوگا معلوم نہیں، پس تم کھانے پینے کے بعد اللہ کا شکریہ ادا کرلیا کرو، ان شاء اللہ تمھیں آئندہ بھی محرومی نہیں ہوگی؛ کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ﴾․(ابراہیم:7) شکر ِخدا، نعمتوں میں اضافہ او رنعمتوں کی بقا کا سبب ہے۔

مذکورہ دعا میں مسلمانوں سے یہ اپیل ہے کہ کھانا کھانے کے بعد صدق دل سے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ کھانا مجھے میرے پروردگار نے عطا فرمایا ہے، میرے کسی ہنر او رکسی صلاحیت اور زور ِ بازو کا کرشمہ نہیں ہے، مجھے جو کچھ ملا ہے وہ صرف کرمِ الٰہی کا نتیجہ ہے،ایک روایت میں ہے کہ اِس طرح شکریہ ادا کرنے کی وجہ سے انسان کے پچھلے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔(ترمذی، رقم:3458)

کھانا، پیناظاہری نعمت ہے، دعا کے آخری حصے میں یہ پیغام ہے کہ تمہاری نظر صرف ظاہری نعمتوں پر نہ ہو؛ بلکہ باطنی اور روحانی نعمتوں کا ا ستحضار بھی رکھو؛ چناں چہ باطنی نعمتوں میں اِسلام سب سے بڑی نعمت ہے اور وہ نعمت بھی تمھیں ملی ہوئی ہے؛ پس اِس پر بھی شکر ادا کرو۔ (مرقاةالمفاتیح:7/2712)

کھانے پینے میں انسان کو کچھ خصوصیت حاصل نہیں ہے؛ بلکہ جانور بھی کھاتے پیتے ہیں، اِن دونوں میں فرق کرنے کے لیے دعا کے اخیر میں”جعلنا مسلمین“ کا اضافہ ہے کہ ہدایت ِ اسلام کی وجہ سے انسان اورجانور اور مسلمان اور غیر مسلمین میں فرق ہوتا ہے، پس مسلمان کو اِس موقع پر ،خاص طور سے اسلام کی دولت ملنے پر، شکر گذار ہونا چاہیے۔(التیسیر بشرح الجامع الصغیر:2/254)

جس طرح ہم بغیر جسمانی خوراک کے نشوونما نہیں پاسکتے، اِس سے کہیں بڑھ کر ہم روحانی غذا کے محتاج ہیں، جو اِسلام کی اَبدی اور روحانی غذا ہے(اِس لیے دعا کے ذریعہ مطلوبہ روحانی غذا کی درخواست کی گئی ہے)۔(چالیس دعائیں، ص:38)

انسان پر یا تو خدا کی نعمتوں کا غلبہ ہوتا ہے یا پھر وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے، پہلی صورت میں اسے اللہ کا شکر کرنے کی ہدایت ہے اور دوسری صورت میں صبرواستقامت کی تلقین، جو لوگ ایمان کے ساتھ شکر اور صبر کے تقاضے پورے کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں وہی آخرت میں کام یاب ہوں گے، اکثر علماء کہتے ہیں کہ صبر کے مقابلہ میں شکر کا امتحان زیادہ مشکل ہے، شکر کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ہے، آسان اِس لیے کہ زبان یا دل یا عمل سے اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے اور مشکل اِس لیے ہے کہ جب نعمتیں ملتی رہتی ہیں تو انسان اُن نعمتوں کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے اور شکر ِ الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے، مذکورہ دعا میں یہ پیغام ہے کہ کھانے اور پینے کی نعمت انسان کو روز ملتی ہے، اِس نعمت کو کہیں وہ اپنا حق نہ سمجھ بیٹھے اور خدا فراموشی میں مبتلا ہوکر اپنی عاقبت خراب کرلے؛ اِس لیے اُسے اِس موقع پر شکر کی تلقین کی گئی اور اُسے یاد دلایا گیا کہ تمھیں تو سب سے بڑی نعمت”ایمان و اسلام“ حاصل ہے اور ادنیٰ نعمتوں پر بھی شکر ِالٰہی میں سجدہ ریز ہوجانا اسلامی حمیت کا تقاضا بھی ہے اور اِسلام کا نتیجہ بھی ، کیا ہمارا اِسلام ایسا ہے جو ہمیں ہر وقت اللہ کا شکریہ ادا کرنے پر ابھارتا ہے؟ اللہ ہمیں عقلِ سلیم اور فہمِ متین عطا فرمائے۔