وقت کی قدر وقیمت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

نجومی کو ہاتھ دکھانے کے بعد مسلسل مصائب کا شکار ہو جانا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شادی سے پہلے میں نے ایک ہاتھ دکھانے والے کو اپنا ہاتھ دکھایا تھا، اس سے پوچھا تھا، میری شادی کب ہوگی اور شادی کے بعد زندگی کیسی گزرے گی؟ شادی ہو گئی، تیرہ (13) سال گزر گئے، شادی کے بعد ایسی زندگی گزری کہ کیا بتاؤں۔

خوش حال سے بد حال ہو گیا، لفظوں میں نہیں بتا سکتا کہ کیا سے کیا ہو گیا، قرضوں میں ڈوب چُکا ہوں، وہ بھی سودی قرضے، خدا اور رسول کا واسطہ ہے میری راہ نمائی کریں، یہ کیا تھا؟ کیا میرا جرم اتنا بڑا تھا کہ تباہ وبرباد ہو گیا؟

جواب… گناہ ہر انسان سے ہو سکتا ہے، بلکہ ہو جاتا ہے، حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، البتہ گناہ کرکے اس پر اصرار کرنا بہت بڑی نادانی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص بھول سے یا جان بوجھ کر اپنے رب کی نافرمانی کا مرتکب ہو جائے، تو ایسی حالت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اپنے جرم کا اقرار کرکے اپنے رب کے سامنے ندامت کے آنسو بہائے، سچی توبہ کرے او رآئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے، قوی امید ہے کہ وہ الله جل شانہ کی بارگاہ سے مایوس نہیں لوٹے گا، حدیث مبارک میں فرمایا گیا کہ:” ہر بنی آدم خطاء کرنے والا ہے او ربہترین خطاء کرنے والا وہ ہے جو خطا کرنے کے بعد توبہ بھی کر لے“، ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”جو آدمی گناہ سے توبہ کر لے وہ ایسے ہو جاتا ہے، جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔“ لہٰذا نا امید ہونا چھوڑیں، ناامیدی گناہ ہے، سچے دل سے توبہ کریں ، ان شاء الله، الله تعالیٰ اس کی برکت سے تمام مصائب اور مشکلات سے خلاصی عطا فرمائیں گے، کسی نجومی کے پاس جاکر ہاتھ دکھا کر مستقبل میں پیش آنے والے حالات کے متعلق جاننا، شریعت اسلامیہ میں ممنوع بلکہ گناہ کبیرہ ہے ، احادیث مبارکہ میں اس کے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس پر ندامت اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ توبہ واستغفار کریں، یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے، لیکن سچی توبہ سے ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے، مصائب او رمشکلات بسا اوقات الله تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور امتحان کے طو رپر آتی ہیں، جس پر صبر بھی باعث اجروثواب ہے، نمازوں، قرآن کریم کی تلاوت او رنیک اعمال کا اہتمام کریں، الله تعالیٰ تمام مشکلات سے نجات عطا فرمائیں گے۔ ان شاء الله تعالیٰ

سخت مجبوری کی حالت میں حقیقی والد کی بجائےنکاح فارم پر گود لینے والے کا نام لکھنے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے اپنی خالہ مرحومہ کی بیٹی کو پیدا ہوتے ہی گود لے لیا تھا، اس بچی کی والدہ بچی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی فوت ہو گئی تھی، جب کہ اس کے حقیقی والد حیات ہے، مگر اس نے پیدائش کے وقت سے اب تک بیس سالہ عرصہ میں اپنی بچی سے کبھی تعلق نہیں رکھا ہے اور بچی کی پرورش کرنے والوں سے بھی اس کے والد کی خاندانی چپقلش ہے، چناں چہ پیدائش کے وقت سرکاری جنم پر چی بھی پرورش کرنے والے باپ (جو کہ اس کا در حقیقت خالو ہے) کے نام بنی ہوئی ہے، یعنی باپ کی جگہ ان کا نام لکھا گیا ہے، اب بچی کی شادی کا مسئلہ درپیش ہے جس میں ہم اس کے حقیقی والد کی جگہ اس کے خالو (جنہوں نے اس بچی کی پرورش کی ہے، کا نام لکھنا چاہتے ہیں، تاکہ آئندہ سرکاری معاملات جو پیش آنے ہیں اس میں مشکلات نہ ہوں مثلاً :شناختی کارڈ بنوانے کے سلسلے میں اسی حقیقی والد سے رجوع کرنا پڑے گا جو کہ ہمارے غالب گمان کے مطابق مسائل پیدا کرے گا اور قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہو گا، تو برائے کرم آپ اس کا شرعی حل بتا دیں کہ بچی کی شادی کے فارم میں اس کے پرورش کرنے والے والدیعنی خالو کا نام لکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ او راگر نہیں لکھ سکتے تو پھر مذکورہ پیش آنے والے مسائل کا حل کیسے نکالا جائے گا ؟اس مسئلہ کا حل جلد بتا کر ممنون ہوں، تاکہ بچی کی شادی کا مسئلہ حل ہو جائے جو کہ لڑکے والوں نے اسی مسئلہ کے شرعی حل پر موقوف کیا ہوا ہے اور بچی کے نکاح میں چند ہی ایام رہ گئے ہیں۔

جواب… واضح رہے کہ بچوں کے لیے دنیا میں اسباب کے درجے میں والدین ہی ایسا سہارا ہوتے ہیں جو بچوں کے دکھ درد کو اپنا ہی دکھ درد سمجھتے ہیں اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں او ران کے غم میں خود بے چین ہو جاتے ہیں ، والدین کی آغوش بچوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے، ذکر کردہ صورت میں بچی کی پیدائش کے بعد جب ماں کی صورت میں ایک مضبوط سہارا چھن چکا تھا، تو ایسی صورت حال میں اس کے والد کا اپنی بچی سے لا تعلق ہو جانا اور اس کی خیر خبر تک نہ لینا انتہائی نامناسب فعل ہے، خاندانی رنجش کا بدلہ اس بچی سے لینا گویا اس کو ایسے جرم کی سزا دینا ہے، جو جرم اس نے کیا نہیں، لہٰذا اس کے والد کو چاہیے کہ باپ ہونے کے ناطے اس بچی کی سرپرستی کرے اور اس کے ہر دکھ سکھ کا سہارا بنے۔

تاہم کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی نسبت اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کی طرف کرنا، چاہے زبانی ہو یا تحریری، شرعاً جائز نہیں ہے، قرآن وحدیث میں اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے،نیز احادیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لہٰذا شادی فارم میں اور اسی طرح دیگر تمام دستاویزات وغیرہ میں حقیقی والد کا نام لکھنا ہی ضرور ی ہے، تاہم اگر حقیقی والد کی بجائے، لڑکی کے خالو ( جس نے پرورش کی ہے) کا نام نکاح فارم پر لکھ دیا گیا تو نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، نکاح منعقد ہو جائے گا، جب کہ وہ لڑکی گواہوں کے ہاں معلوم او رمتعین ہو۔

باقی اگر حقیقی والدکا نام لکھنے کی صورت میں آئندہ سرکاری معاملات میں مشکلات پیش آنے کا اندیشہ ہو، تو اس بچی کے والد کی انتہائی مناسب انداز میں اصلاح کی کوشش کی جائے او راس کو یہ بات سمجھائی جائے کہ اس کا اپنی بچی کے ساتھ یہ رویہ عقلاً، شرعاً اوراخلاقاً ہر گز درست نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنے اس رویے سے باز آجائیں، یا کم از کم کسی سرکاری یا قانونی معاملے میں رکاوٹیں او رمشکلات پیدا نہ کریں۔

صدر ِ کمیٹی پر اپنے ماتحت اراکین وممبران کے حقوق اور ماتحت اراکین پر صدر کمیٹی کے حقوق
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ(الف) صدر ِ انتظامیہ کمیٹی پر اپنے ماتحت اراکین وممبران کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟(ب) صدر ِ انتظامیہ کمیٹی کے اپنے ماتحت اراکین ممبران پر کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟

جواب…(الف) واضح رہے کہ مسجد ومدرسہ کی منتظمہ کمیٹی اس لیے بنائی جاتی ہے تاکہ تمام انتظامی امور باہمی مشاورت سے طے کیے جائیں، کمیٹی میں صدر کی حیثیت امیر کی ہوتی ہے، ممبران اس کے ماتحت ہوتے ہیں، لہٰذا صد رکمیٹی پر ممبران کے وہ تمام حقوق عائد ہوتے ہیں، جو ایک امیر پر اپنے ماتحتوں کے عائد ہوتے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
1..انتظامی معاملات میں تمام ممبران کی رائے کا احترام کرے، جن کی رائے مصلحت کے موافق ہو اس کی تنفید کرے، محض اپنی رائے کو دیگر حضرات کی آراء پر مسلط کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔
2..صالح اور باصلاحیت، امانت دار اور دیانت دار ممبران کا انتخاب کرے، جو خیر خواہی کے جذبے سے مفوضہ کام بحسن وخوبی سرانجام دیں اور انتظام وانصرام کی مکمل صلاحیت رکھتے ہوں، ایسے شخص کا انتخاب نہ کرے ، جو انتظام کار سے ناواقف ہو، اگرچہ وہ دیانت دار کیوں نہ ہو۔
3..وقتاً فوقتاً ترغیب وترہیب کو بھی اپنا معمول بنائے، متعلقہ کار کے انتظام سے بھی آگاہی اور شناسائی فراہم کرتا رہے۔
4..ممبران میں سے اگر کسی کو اس سے شکایت ہو، تو فوراً اس کی شکایت کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔
5..اگر کسی ممبر سے خیانت کاظہور ہو جائے اور چندے میں خورد بُرد کا قوی اندیشہ ہو، تو باہمی مشاورت سے اس کو کمیٹی سے الگ کر دیا جائے۔
6..تصرفات میں وقف شدہ اموال کی بہتر ی او رترقی کے پیش نظر ایسی چیز کی اجازت دے، جس سے وقف میں مزید بہتری آئے اور خورد بھی تعمیر وترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔
7..طے شدہ متفقہ اصول و ضوابط کی پاس داری کرے۔

(ب) نیز کمیٹی ممبران پر بھی اپنے صدر کے وہیحقوق عائد ہوتے ہیں جو ماتحتوں پر اپنے امیر کے عائد ہوتے ہیں:

1..سب سے پہلے کمیٹی ممبران کو چاہیے کہ صدر کمیٹی کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کریں،جو انتظام کار سے پوری طرح واقف اور باصلاحیت ہو او ران سب میں سب سے زیادہ امین اور دیانت دار ہو۔
2..امیر ہونے کے ناطے اس کا احترام او رتمام جائز امور میں اس کی اطاعت کریں، اس کے ساتھہر ممکن تعاون کریں۔
3..اہم امور سے متعلق اگر رائے طلب کی جائے، تو دیانت پر مبنی رائے سے آگاہ کریں۔
4..اس کے نافذ کردہ فیصلے اگر مصلحت کے موافق ہوں، تو بے جا اعتراضات کرکے فیصلوں کی تنفیذ میں رکاوٹیں پیدا نہ کریں۔
5..اس (صدر کمیٹی) کی جانب سے مقرر کردہ اصولوں کی پاس داری کریں۔
6..تعمیر وترقی کے طے شدہ منصوبوں میں اس کی مکمل حمایت اور معاونت کریں۔
7..آمدنی وقف میں اگر اس کی جانب سے غفلت یا خیانت کا ظہور ہو جائے، تو اس کو معزول کرکے بطور ِ متبادل امین اور دیانت دار صدر کا انتخاب کریں۔

صدر او رممبران، ہر دونوں کو چاہیے کہ الله کی رضا اور خوش نودی کے لیے اپنے مفوضہ امور بحسن وخوبی سر انجام دیں اور تعمیر وترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں، باہمی نزاع واختلاف سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔

ایک ہی ٹوکن پردوبار ناشتہ کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک آدمی نے چائے او رپراٹھے کے ٹوکن دوسرے آدمی کو دیے کہ وہ اس پر ناشتہ کر لے۔

جب کہ اوّل آدمی انہی ٹوکنوں پر ناشتہ کرچکا تھا اور ٹوکن جمع نہیں کروائے تھے اور دوسرے کو اس وقت بتایا کہ وہ بھی ابھی انہی ٹوکنوں پر ناشتہ کرچکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ دوسرے آدمی کی لاعلمی کی وجہ سے یا دعوت سمجھ کر استعمال کرنے کی وجہ سے ضمان کس پر آئے گا اور گناہ گار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟

جواب… صورت مسئولہ میں جب دوسرے آدمی نے دوبارہ اسی ٹوکن پر ناشتہ کیا، تو بعد میں معلوم ہو جانے پر رقم کی ادائیگی اسی کی ذمے لازم ہوگی، البتہ پہلے آدمی کے لیے اس طرح کرنا شرعاً جائز نہیں تھا، لہٰذا اس کو چاہیے کہ اپنے کیے ہوئے پر ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کرکے آئندہ اس طرح قدم نہ اٹھائے، ورنہ قیامت کا دن بڑا سخت ہے۔

گیم زون چلانے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بڑے بھائی نے ”گیم زون“ کے نام سے ایک کاروبار شروع کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ دوکان میں متعدد کمپیوٹر لگے ہوئے ہیں جن پر ہر وقت انٹرنیٹ آن رہتا ہے اور ہر کمپیوٹر الگ کیبن میں بند ہے ، نوجوان طبقہ آکر فی گھنٹہ (60منٹ) کے حساب سے ادائیگی کرکے اپنی پسندیدہ گیمیں مثلاًPUB.G ،لڈو وغیرہ آن لائن کھیلتے ہیں او رساتھ ہی فلم وغیرہ دیکھنے کا احتمال ہے، کیوں کہ انٹرنیٹ آن رہتا ہے اور کیبن میں صرف ایک ہی بندہ بیٹھتا ہے

اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر فلم پر پابندی لگا دی جائے تو صرف گیم کی حد تک یہ کاروبار شرعاً کیسا ہے؟

جواب…واضح رہے کہ آن لائن ویڈیو گیم کھیلنا درج ذیل مفاسد کی بنا پر ناجائز ہے:
1..فرض نماز اور دیگر واجبات شرعیہ سے محرومی 2..بسا اوقات غصے کے عالم میں گالم گلوچ  3..تصویر بینی، بلکہ فحش تصویر بینی4.. نامحرم سے سلام کلام، بلکہ دوستی یاری 5..ضیاع وقت 6..کھیل ہی کو مقصد بنانا 7..ساز باجا سننا۔مذکورہ کاروبارمیں درج بالا مفاسد کا ذریعہ بننے کے علاوہ ایک اور شرعی خرابی یہ ہے کہ کھیل کو برائے کھیل پیش کیا جارہا ہے ، جب کہ شریعت میں کھیل کو مقصد بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔

آپ کے بھائی کو چاہیے کہ گزشتہ کیے پر توبہ تائب ہو کر نیا حلال کاروبار تلاش کرے۔