وفاق المدارس کے صدر کا انتخاب ایک اہم اجلاس کی مختصر روداد

وفاق المدارس کے صدر کا انتخاب ایک اہم اجلاس کی مختصر روداد

مفتی حماد خالد آفریدی
استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

بروز ہفتہ بتاریخ 18/ستمبر2021ء والد محترم حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب زید ت معالیہ کے ساتھ لاہور کے سفر کی سعادت ملی،سفر بکار وفاق تھا،جس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر کا انتخاب ہونا تھا،ایک دن قبل ہم لاہور پہنچ گئے،قیام و طعام حضرت والد صاحب کے ایک پُرانے دوست کے ہاں تھا، وفاق کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس جامعہ اشرفیہ لاہور میں بروز اتوار 18/ستمبر2021ئمنعقد ہوا۔صبح دس بجے ہم جامعہ اشرفیہ لاہور پہنچے۔ پروگرام کے لیے جامعہ اشرفیہ کی مسجد کے ہال کا انتخاب کیا گیا تھا،مسجد میں داخل ہوتے ہی جامعہ فاروقیہ کراچی کے ایک قدیم طالبعلم نے جو رضاکار کے طور پر متعین تھے،ہمارا استقبال کیا ،ہم محراب کے دروازے سے ہوتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے، ملک کے مشہور قاری ،قاری احمد میاں تھانوی صاحب دامت برکاتہم اپنی پرسوز آواز سے قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے تھے،والد محترم اپنی مقررہ نشست پر جلوہ افروز ہوئے،مسجد کا ہال مجلس عمومی کے اراکین سے بھرا ہوا تھا۔جس میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے فضلاء کے جانے پہچانے چہرے نظر آرہے تھے، اورنظروں ہی نظروں میں علیک سلیک بھی کررہے تھے،قاری احمد میاں تھانوی صاحب نے تلاوت مکمل کی تو اسٹیج کی باگ ڈورمولانا قاضی عبدالرشید صاحب (فاضل جامعہ فاروقیہ) نے سنبھال لی،اور یہ کہتے ہوئے مولانا صلاح الدین ایوبی صاحب مدظلہ کو دعوت دی کہ اجلاس کاآغاز ملک کے ایک کنارے چمن سے کرتے ہیں۔مولانا صلاح الدین ایوبی صاحب نے وفاق کے اتحاد واتفاق پر بات کی اور فرمایا کہموجودہ دور میں پاکستان سمیت دنیائے کفر کی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ ہمارا اتحاد واتفاق ٹوٹ جائے۔جس میں اب تک وہ ناکام رہے ہیں۔

اس کے بعد مولانا حسین احمد صاحب(فاضل جامعہ فاروقیہ) ناظم تعلیمات جامعہ عثمانیہ پشاور نے بات کی اور وفاق کی خدمات کے حوالے سے ہمارے اکابر کی خدمت کا تذکرہ فرمایا،اور آخرمیں داداجان شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نوّراللہ مرقدہ کا تذکرہ فرمایا ۔

اس کے بعد کئی مقررین نے تقاریر کیں۔اور وفاق کے وجود کو ایک سائبان کا درجہ بتایا،اس کے بعد والد محترم حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب زیدت معالیہ نے بہت ہی پرمغز گفت گو فرمائی، جس کا ذکر پروگرام کے بعد کئی بڑے علماء نے مجھ سے کیا۔

انہوں نے اپنی گفت گو کا آغاز یہاں سے کیا کہ یہ وفاق المدارس صرف ایک تعلیمی بورڈ ہی نہیں بلکہ یہ علماء دیوبند کی اس تحریک کا تسلسل ہے جو اکابر علمائے دیوبند نے انگریز کے خلاف مسلح ہوکر کی تھی، اورپھر حضرت شیخ مولانا سلیم اللہ خان نوّراللہ مرقدہ کا نام لے کر فرمایا کہ حضرت فرماتے تھے،کہ دنیا کا طاغوت اور کفر جب ایک نکتہ پر جمع ہوجائے اور ہمارے ملک کا بھی کالا پیلا نیلا انگریز اس نکتہ پر ان کے ساتھ متفق ہوجائے کہ مدارس کو ختم کرنا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ یہ مدارس بچ پائیں،فرمایا یہ کبھی ممکن نہیں ہے،لیکن صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی مدد ونصرت شامل حال ہو…اور یقینا مدارس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت شامل حال ہے۔!

پھر فرمایا جیسے ہمارے پڑوس میں افغان طالبان نے امریکہ سے جنگ جیتی ہے،اسی طرح پاکستان میں ہمارے علماء ومشائخ نے مذاکرات کی جنگ حکومت سے جیتی ہے، جس جنگ کے قائد رئیس المحدثین مولانا سلیم الله خان صاحب تھے۔!

پھر فرمایا کہ آج کی یہ مجلس ایک بہت بڑی امانت کی منتقلی کے حوالے سے منعقد کی گئی ہے،میری آپ سب حضرات سے گزارش ہے کہ اس انتخاب کے حوالے سے اتحاد واتفاق کا بھر پور مظاہرہ کریں اور سیسہ پلائی دیوار بن جائیں،وفاق المدارس العربیہ پاکستان ہمارے اکابر کی نشانی ہے،اور جو بھی انتخاب اس کے لیے ہوتا ہے وہ ہمیں تسلیم ہے۔

اسی طرح وہ نئے بورڈ جو حکومت نے وفاق کے مقابلے میں کھڑے کیے ہیں،ان کے بارے میں فرمایا کہ اسی جامعہ اشرفیہ لاہور میں جب ان نئے بورڈ کے ذمہ داروں کو بلایا گیا،اور استفسار کیا گیا،ان میں سے ایک صاحب سے جب ان کے بورڈ کا نام پوچھا گیا تو انہیں اپنے بورڈ کانام بھی معلوم نہ تھا،پھر ان سے جب معلوم نہ ہونے کی وجہ پوچھی گئی،تو فرمایا کہ حکومت نے ہمیں بورڈ دے دیا ہم نے لے لیا …پھر فرمایا یہ خود روگھاس کی طرح ہیں، یہ سب خائب و خاسر ہوں گے اور نسیا منسیا ہوجائیں گے۔ انشاء اللہ۔

اس کے بعد مولانا قاری محمد حنیفجالندھری صاحب مدظلہ نے یہ بات فرمائی کہ اب تک اس وفاق کی صدارت کے انتخاب کی یہ تاریخ ہے کہ کوئی بھی شخصیت اس کی طلب گار نہیں رہی، بلکہ سب اس کے حصول سے اعراض کرتے ہیں،اور جب بھی یہ منصب کسی بزرگ شخصیت کو دیا گیا تو انہوں نے لینے سے انکار کردیا،اور بزرگوں کی اسی عاجزی اورمسکنت کی وجہ سے اللہ تعالی نے اسے قبولت بخشی،پھر فرمایا کہ یہ بھی اب تک اس کی تاریخ ہے کہ صدارت کے انتخاب کے لیے کبھی بھی ووٹنگ نہیں کی گئی،بلکہ بڑوں کے آپس کے اتفاق رائے سے انتخاب کرلیا جاتا ہے،اور آپ لوگوں کا یعنی مجلس عمومی کے لوگوں کا اس پر اعتبارو اعتماد یہ آپ کا ہم پر اعتماد ہے،اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو جزائے خیر دے۔

قاری صاحب نے بھی نئے بورڈوں کے حوالے سے فرمایا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں،کہ ہم وفاق کے مقابل نہیں بلکہ وفاق کی شاخ ہیں،جس پر قاری صاحب نے فرمایا کہ مقابل کسے کہتے ہیں؟ آپ نے ہمارے مقابلے میں تعلیمی بورڈ بنالیا، تعلیمی نصاب بنالیا، تعلیمی نظم بنالیا پھر آپ کہتے ہیں کہ ہم مقابل نہیں تو پھر مقابل کسے کہتے ہیں؟ مقابل کی کیا تعریف ہے۔؟

مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب زید مجدہم کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان صاحب زید مجدہم کو مدعو کیا گیا،شروع میں مولانا فضل الرحمان صاحب دامت برکاتہم نے وفاق کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا،اور پھر فرمایا کہ وفاق المدارس میں صدر کا انتخاب بڑوں کے اتفاق رائے سے ہونا اور مجلس عمومی کا اس پر تائید کرنا یہ بہت عجیب اور خوش آینداور محمود ہے۔اور مجلس عمومی کا اس کی تائید یہ اپنے بڑوں پر اعتباراور بھروسہ ہے۔

پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اس کا سب سے مضبوط کنڈیڈیٹ میں ہوں، میری جماعت کے لوگوں میں بھی کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ میں وفاق میں آؤں ۔لیکن مولانا فضل الرحمان صاحب دامت برکا تہم کہ یہ بات سن کر اور ان کی وسعت ظرفی دیکھ کر بہت سوں کو حیرت ہوئی کہ انھوں فرمایا کہ ہم نہیں چاہتے کہ حکومت کو ہماری وجہ سے وفاق پر انگلی اٹھانے کا کوئی موقع ملے۔

پھر تجویز کے طور پر مولانا نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا نام لیا، جس پر مجمع کھڑا ہوگیا اور مبارک باد مبارک باد کی صدائیں گونجنے لگی،اس موقع پر اوروں کے دل کا حال تو مجھے نہیں معلوم لیکن میرے دل کی حالت عجیب سی تھی، مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید کا نام ذہن میں گھوما تو آنکھیں ڈب ڈبا گئیں ۔یقینا اس محفل میں اور لوگ بھی ہوں گے جن کی دل کی یہ حالت ہوگئی ہو، کاش وہ اس حسین موقع پر ہوتے جس کے لیے انہوں نے دن رات ایک کردی تھی،اور جس مقصد کے لیے وہ دارالعلوم گئے تھے،اور واپس بنوری ٹاون جارہے تھے،لیکن اللہ کا حکم ہوا کہ بس اب اس بھاگ دوڑ کو چھوڑو اور میری جنت کے مہمان بن جاؤ۔جو ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گی۔تمہارے حصہ کا کام پورا ہوگیا…اور آخرمیں یہ شعر دل ودماغ پر طاری رہا کہ #
        ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
        ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب کے بعدمولانا مفتی محمدتقی صاحب زید مجدہم نے سب کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ کہ آپ لوگوں نے میرے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے،اللہ تعالیٰ اسے پورا کرنے کی توفیق عطافرمائے اور پھر حضرت شیخ کی ایک بات جو میں نے بھی حضرت داد جان علیہ الرحمہ سے سنی تھی، مفتی صاحب دامت برکاتہم نے فرمائی، اس وفاق کو کوئی نہیں ختم کرسکتا، اگر یہ وفاق ختم ہوا تو ہماری اپنی خیانت سے ختم ہوگا،اور پھر فرمایا کہ اکثروبیشتر اجتماعات سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے،بہت کم اجتماعات میں عاجزی طاری ہوجاتی ہے،اس اجتماع میں بھی ایسا ہی ہے،پھر علماء دیوبند کے ایک عالم مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله علیہ کا واقعہ سنایا کہ حضرت دیوبند کے چندے کی غرض سے دہلی گئے ہوئے تھے،اور راستے میں300 روپے چندے کی مد کیحضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله علیہ سے کسی نے چوری کرلیے،واپس آکر حضرت نے اپنے گھر کی چیزیں بیچنا شروع کردیں،تاکہ وہ مدرسے کے پیسے جو چوری ہوگئے تھے اس کا مداوا کرسکیں، لوگوں اور علماء نے حضرت کو بہت سمجھایا کہ حضرت اس چوری پر آپ کے ذمہ ضمان نہیں ہے،لیکن حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله علیہ اپنے اسی عمل پر بضد تھے،پھر کسی نے مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کو صورت حال سے آگاہ کیا اور خط لکھا،انہوں نے بھی جواب میں وہی ضمان کے ذمہ نہ آنے کی بات فرمائی،جب مولانا رفیع الدین صاحب(رحمة الله علیہ) کولوگوں نے حضرت گنگوہی(رحمة الله علیہ) کی وہ بات نقل کی تو فرمایا مولانا رشید احمد نے ساری فقہ کیا میرے لیے پڑھی ہے؟مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله علیہ نے فرمایا:کوئی ان سے پوچھے اگر میری جگہ مولانا رشید احمد ہوتے تو وہ کیا کرتے،پھر فرمایا ایسے تھے ہمارے اکابر، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان جیسی امانت اور دیانت والا بنائے۔ اورپھر مجلس کا اختتام ہوا، اختتامی دعا حضرت مولانا پیر مختار الدین شاہ صاحب زید مجدہم نے فرمائی۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے،اللہ تعالیٰ تمام حاسدین کی نظروں سے حفاظت فرمائے،اور وفاق المدارس کو علماء دیوبند کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے،اور اس کو مدارس کا حقیقی ترجمان بنادے …اور تمام فتنے جو وفاق کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ان کو نیست ونابود فرمادے…!

آمین یارب العالمین!