والدین اور رشتہ داروں کے متعلق ہدایات اور سنتیں

والدین اور رشتہ داروں کے متعلق ہدایات اور سنتیں

مولانا مفتی عبدالشکور قاسمی

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جناب ِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی ہو اور اس کی موت میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر میں برکت ہو ) تو اس کو چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن وسلوک واحسان کرے۔

ادائیگی حقوق میں فرقِ مراتب کا لحاظ
اس دنیا کے معاشرے کی اصلاح وفلاح درحقیقت باہمی حقوق کی نگہداشت پر منحصر ہے۔ اور باہمی حقوق میں کس کا کیا رشتہ ہے؟ اس کا معیار قائم کرنا بھی از حد ضرور ی ہے۔ شریعت ِ اسلامی کا تقاضا ہے کہ انسانوں کی باہمی قرابت ورشتہ داری میں جو فرقِ مراتب ہے، اس کا لحاظ ضرور ی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ قرابت کے اعتبار سے والدین کا رشتہ سب سے زیادہ گہرا ہے۔ لہٰذا حسن ِ سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ماں باپ ہیں۔
اور ماں کا درجہ باپ سے زیادہ ہے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله! میرے حسن ِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر تمہارا وہ عزیز جو نزدیکی قرابت رکھتا ہو او رپھر وہ شخص جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہو۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ واضح ہوتاہے کہ کسی شخص پر والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں، ان میں ماں کا حصہ باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے۔

والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کی تاکید
قرآن ِ کریم میں مختلف مقامات پر پروردگار نے ماں باپ کے حقوق کو اپنی عبادت واطاعت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کرو۔

ایک مقام پر الله تعالیٰ کی اطاعت وعبادت اور توحید کے مضمون کے فوراً بعد والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم ہے، فرمایا:

الله تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
یہاں توحید کے فوراً بعد والدین کے حقوق کی ادائیگی کے حکم میں یہ حکمت ہے کہ جس شخص کو الله تعالیٰ کا خوف اور اس کے حقوق کا اہتمام ہو گا، وہ والدین کے حقوق کا بھی انتہائی نگہدار اور محافظ ہو گا۔ نیز اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ حقیقت اور اصل کے اعتبار سے تو احسانات اور انعامات الله تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں۔
لیکن ظاہری اسباب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو الله تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ احسانات انسان پر اس کے والدین کے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے لے کر اس کے جوان ہونے تک جتنے کٹھن مراحل ہیں، وہ سب والدین کے کاندھوں پر عائد ہوتے ہیں۔

قرابت داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک کی تاکید
دوسرے نمبر پر والدین کے حقوق کی تاکید کے بعد عام رشتہ داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے، چناں چہ ارشاد ِ الہٰی ہے: اور اہل ِ قرابت کے ساتھ بھی (اچھا معاملہ کرو)۔جس میں رشتہ داروں کی حسب ِ استطاعت مالی او رجانی خدمت بھی داخل ہے اور ان سے ملاقات کرنا او ران کی خبر گیری کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔

یتیم اور مسکین کا حق
تیسرے نمبر پر ارشاد فرمایا:
اور یتیموں او رمسکینوں کے ساتھ (بھی اچھا سلوک رکھو۔)

یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم رشتہ داروں کے فوراً بعد ذکر فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ لاوارث بچوں اور بے کس لوگوں کی امداد واعانت کو بھی ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا اپنے رشتہ داروں کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔

پڑوسی کا حق
چوتھے نمبر پر ارشاد فرمایا: والجار ذی القربی اورپانچویں نمبر پر والجار الجنب کا خیال رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس میں پڑوسیوں کی دو قسمیں بیان فرمائیں، ایک جار ذی القربی، دوسری الجار الجنب، عام مفسرین نے فرمایا کہ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جو تمہارے مکان کے قریب رہتا ہو اور دوسرے سے مراد وہ پڑوسی ہے جو تمہارے مکان سے کچھ فاصلے پر رہتا ہواو راس پر سب کا اتفاق ہے کہ پڑوسی، خواہ قریب ہو یا بعید، رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار ، مسلم ہو یا غیر مسلم، بہرحال اس کا حق ہے کہ بقدر استطاعت اس کی امداد واعانت کی جائے اور خبر گیری رکھی جائے۔

ہم نشینی کا حق
چھٹے نمبر پر فرمایا : والصاحب بالجنب اس کے لفظی معنی ہم نشین ساتھی کے ہیں، جس میں رفیق ِ سفر بھی داخل ہے، جو کسی عام مجلس میں آپ کے برابر بیٹھا ہو اور بعض حضرات ِ مفسرین فرماتے ہیں کہ ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی کام اور پیشہ میں آپ کا شریک ہے۔

راہ گیر کا حق
ساتویں نمبر ارشاد فرمایا: وابن السبیل اورراہ گیر کے ساتھ بھی اچھا سلوک رکھو۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوران سفر آپ کے پاس آجائے یا آپ کا مہمان ہو جائے۔ چوں کہ اس اجنبی شخص کا کوئی تعلق والا یہاں نہیں ہے، تو قرآن ِ مجید نے اس کے ساتھ اسلامی، بلکہ انسانی حقوق کی رعایت کرکے اس کا حق بھی آپ پر لازم کر دیا۔ بقدر وسعت واستطاعت اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

غلام، باندی اور ملازمین کا حق
آٹھویں نمبر پر وما ملکت ایمانکم جس سے مراد مملوک اورباندیاں ہیں، ان کا بھی یہ حق لازم کر دیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ حسن ِ سلوک کا معاملہ کریں۔اگرچہ یہ حکم غلام وباندیوں کے لیے ہے، لیکن اشتراک ِ علت اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کی بنا پر یہ احکام نوکروں اورملازموں کے لیے بھی ہیں۔ ان کا بھی یہی حق ہے کہ مقررہ تنخواہ اورکھانا وغیرہ دینے میں بخل او رٹال مٹول سے کام نہ لیں اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام نہ ڈالیں۔ آخری آیت میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

الله ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا، جو متکبر ہو اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے والا ہو۔ آیت کا یہ آخری جملہ پچھلے تمام ارشادات کا تکملہ ہے کہ پیچھے آٹھ نمبروں میں جن لوگوں کے حقوق کی تاکید آئی ہے، اس میں کوتاہی وہ لوگ کرتے ہیں، جن کے دلوں میں تکبر او رغرور ہے۔ الله تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے۔

حسن ِ سلوک سے متعلق ہدایات اور سنتیں
*… حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جناب ِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تباہ ہو وہ شخص ، تباہ ہو وہ شخص، تباہ ہو وہ شخص! پوچھا گیا یا رسول الله! وہ شخص کون ہے؟ فرمایا: وہ شخص جو اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور پھر جنت میں داخل نہ ہو۔ یعنی ان کی خدمت کرکے ان کو راضی نہ کرے، تو وہ انتہائی بد قسمت ہے۔ کیوں کہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔
*… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله رب العزت کی رضا مندی باپ کی رضا مندی میں ہے او رالله رب العزت کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔

*… حضرت ابو طفیل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مقام ِ جعرانہ میں، میں نے دیکھا کہ رسول ِ اکرم صلی الله علیہ وسلم گوشت تقسیم فرمارہے تھے کہ اچانک ایک خاتون آئیں، جب وہ نبی ِ کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ میں نے (ان کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ سلوک دیکھا تو لوگوں سے ) پوچھا کہ یہ خاتون کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی وہ ماں ہیں جنہوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔

*… اگر ماں باپ نے اولاد کے حق میں کوتاہی بھی کی ہو تب بھی، اولاد کے لیے بدسلوکی کرنا موجب ِ وبال ہے۔

*… قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول الله! کیا ماں باپ کے مرنے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو میرے لیے ابھی کچھ باقی ہے؟ ( یعنی زندگی میں ان کے ساتھ نیک سلوک کیا، ان کے مرنے کے بعد بھی کوئی ایسی صورت ہے کہ ان کے ساتھ حسن ِ سلوک کرتا رہوں؟)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! ان کے لیے دعا کرنا اور استغفار کرنا اور ان کی وصیت کو پورا کرنا او ران کے ناتے داروں سے محض ان کی وجہ سے حسن ِ سلوک رکھنا او رماں باپ کے دوستوں کی عزت کرنا اب بھی باقی ہے۔

*… ماں باپ کی ایسی اطاعت جائز نہیں ہے، جس سے دین کی مخالفت اور شرعی احکام ومسائل کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔

*… حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: رحم رحمن سے نکلا ہے، چناں چہ الله تعالیٰ نے رحم سے فرمایا کہ جو شخص تجھ کو جوڑے گا ( یعنی تیرے حق کو ملحوظ رکھے گا) میں بھی اس کو (اپنی رحمت کے ساتھ ) جوڑوں گا اور جو شخص تجھ کو توڑے گا (یعنی تیرا لحاظ نہ کرے گا) میں بھی اس کو توڑوں گا۔ یعنی ایسے شخص کو اپنی رحمت سے دور کر دوں گا۔

ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

مطلب یہ ہے کہ قطع رحمی الله کے نزدیک اتنا سخت گناہ ہے کہ اس گناہ کی گندگی کے ساتھ جنت میں نہیں جاسکے گا، ہاں ! جب اس کو سزا دے کر پاک کر دیا جائے گا یا توبہ وغیرہ کرنے سے معاف کر دیا جائے گا تو جاسکے گا۔

*… آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کامل صلہ رحم وہ نہیں ہے، جس کے ساتھ صلہ رحمی کی جاتی ہے، ( تو وہ بھی صلہ رحمی کرتا ہے ) بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جو اس حالت میں بھی صلہ رحمی کرے جب دوسرا اس کے ساتھ قطع رحمی ( اور حق تلفی)کا معاملہ کرے۔

*… آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض پڑوسی وہی ہیں کہ جن کا صرف ایک حق ہے، بعض وہ ہیں جن کے د وحق ہیں اور بعض وہ ہیں کہ ان کے تین حق ہیں۔ ایک حق والا وہ پڑوسی ہے جوغیر مسلم ہے، جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہیں ہے۔ دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ہے اور تین حق والا وہ پڑوسی ہے، جو پڑوسی بھی ہے اور مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہے۔

*… ایک روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کسی محلہ کے لوگوں میں سے الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل وبہتر وہ شخص ہے، جو پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہے۔