نیکی چھپتی ہے اور نہ گناہ!

نیکی چھپتی ہے اور نہ گناہ!

مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ

الله تعالیٰ نے جس طرح انسانوں کو ظاہری جسم چھپانے کے لیے لباس عطا فرمایا ہے او رحکم دیا ہے کہ ظاہری لباس پہن کر اپنی شرم گاہوں کو چھپاؤ، اسی طرح تقویٰ وطہارت اختیار کرکے انہیں اپنی اندرونی اور باطنی کوتاہیوں کو چھپانے او رمٹانے کا بھی حکم دیا گیا ہے، بلکہ باطنی اور اندرونی کوتاہیوں کا تزکیہ وتنقیہ اور ان کا چھپانا اور مٹانا اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے، چناں چہ قرآن کریم میں ہے:
﴿یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سوء اتکم وریشا ولباس التقوی ذلک خیر﴾․(الاعراف:26)
ترجمہ:…” اے اولاد آدم! ہم نے اتاری تم پر پوشاک، جو ڈھانکے تمہاری شرم گاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیز گاری کا، وہ سب سے بہتر ہے۔“
بلاشبہ انسان اپنا ظاہری جسم اور اس کے خط وخال کسی بھی چیز سے چھپا سکتا ہے، چناں چہ کپڑوں کی بجائے درخت کے پتوں سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے، اسی طرح لباس خریدنے کی طاقت واستعداد نہ ہو تو کسی سے مانگ کر بھی اپنا ستر اور شرم گاہ چھپائی جاسکتی ہے، لیکن انسان کا اندرون، باطن او رباطنی اخلاق وکردار کسی ظاہری لباس اور عارضی اخلاق وکردار یا مانگے تانگے کے اسباب وذرائع سے نہیں ڈھانکا جاسکتا، بالفرض اگر کوئی شخص اس کی ناکام کوشش کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا۔
اس لیے کہ انسان کاباطن او رباطنی اخلاق وکردار اور چوری چھپے کے اعمال، سو سو پردوں کے باوجود بھی ظاہر ہو جاتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
”عن الحسن قال: رأیت عثمان علی المنبر، قال أیھا الناس: اتقوا الله في ھذہ السرائر، فإني سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: والذي نفس محمد بیدہ، ما عمل أحد عملا قط سراً إلا ألبسہ الله رداءً علانیة إن خیراً فخیر وإن شراً فشر…“․ (کنز العمال، ص:674،ج3، حدیث:8427)
ترجمہ:…” حضرت حسن رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ : لوگو! الله سے ان پوشیدہ کاموں میں ڈرو! اس لیے کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی الله علیہ وسلم کی جان ہے! جب کبھی کسی بندے نے چھپ کر کوئی عمل کیا، الله تعالیٰ اس کو ضرور اعلان واظہار کی چادر پہنا دیں گے، اگر اس نے بھلا کام کیا تو اس کو بھلائی کی چادر پہنائی جائے گی اور اگر بُرا کام کیا تو اس کو برائی کی چادر پہنائی جائے گی۔“
گویا اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اگر میں سات پردوں میں چھپ کر کوئی گناہ او ربُرائی کروں گا تو اس کی کسی کو اطلاع نہیں ہوگی، بلکہ الله تعالیٰ اس کو ضرور ظاہر کر دیں گے اور اس کا بھانڈا بیچ چورا ہے میں پھوڑ دیں گے، اس لیے جس طرح تم کھلے عام گناہوں سے بچتے ہو، اسی طرح چھپ کر گناہ کرنے سے بھی بچو۔
چناں چہ اگر کوئی شخص رات کی تاریکی میں اور دروازہ بند کرکے کوئی نیک عمل کرے، تو الله تعالیٰ اس کا چرچا کر دیں گے اور مخلوق کو خود بخود خیال آجائے گا کہ بھائی! یہ نیک آدمی ہے اوراگر تم رات کی تاریکی میں اور دس پردوں کے پیچھے چھپ کر کوئی گناہ کرو گے تو اگلے دن یا اس کے دو چار دن بعد نہیں تو کچھ عرصہ بعد بہرحال اس کا چرچا ہو کر رہے گا کہ یہ اچھا آدمی نہیں ہے۔
چناں چہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل جب چھپ کر کوئی گناہ کیا کرتے تھے تو صبح کو ان کے دروازے پر لکھا ہوتا تھا کہ رات کو اس شخص نے یہ گناہ کیا ہے۔ یہ تو اس امت پر الله تعالیٰ کی خصوصی مہربانی، ستاری اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی برکت ہے کہ اس امت کے بد کاروں کے دروازوں پر لکھا ہوا نہیں آتا کہ کس شخص نے رات کی تاریکی میں کیا کیا گناہ کیے ہیں! لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ کسی کے اچھے یا بُرے اعمال کے آثار ونشانات بھی اس کے چہرے پر ظاہر نہ ہوں؟
تاہم جن لوگوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دامن رحمت سے ناطہ توڑ کر کسی دوسرے ملعون سے اپنا تعلق او ررشتہ جوڑ لیا ہے وہ آج بھی بنی اسرائیل کی طرح اسی ذلت سے دو چار ہیں، چناں چہ اگر چہ ان کے گھروں کے دروازوں پر یہ لکھا ہوا نہیں آتا کہ انہوں نے رات کی تاریکی میں فلاں ، فلاں گناہ کیے تھے، لیکن بہرحال ان کا خبث باطن بالآخر ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے، کسی دوسرے سے نہیں، بلکہ وہ خود ہی اس کا اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے نہاں خانہ میں یہ یہ کرتوت انجام دیے تھے، اسی قسم کے ایک باغی اسلام کی دلچسپ روئیداد پڑھیے او رحدیث نبوی کی صداقت کی داد دیجیے!
مرزا غلام احمد قادیانی او راس کے”تقدس مآب“ خاندان کے کرتوتوں سے کون واقف نہیں ہو گا؟ تاہم جو ناواقف ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ :
مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد حکیم نور الدین اس کا جانشین قرار پایا، اس کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا بشر الدین محمود اپنے باپ کی مسند پر براجمان ہوا، تو محمد علی لاہوری قادیانی ، کھل کر بشیر الدین محمود کے خلاف میدان میں آگیا اور اس نے اپنی الگ لاہوری پارٹی بنالی اور روزنامہ ”الفضل“ قادیان کے مقابلہ میں ” پیغام صلح“ کے نام سے ایک جریدہ بھی شروع کر دیا۔
محمد علی لاہوری… جو مرزا غلام احمد قادیانی کا نام نہاد”صحابی“ تھا… نے کھل کر مرزا بشیر الدین محمود کے خلاف لکھنا شروع کر دیا، تیسری طرف اس نے مرزا غلام احمد قادیانی کے صریح دعوی نبوت کے علی الرغم، مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود او رنیک صالح انسان کہنا شروع کر دیا۔ اس نوک جھوک کے دوران لاہوری مرزائیوں اور قادیانی مرزائیوں کے مابین خطوط کا تبادلہ بھی ہونے لگا۔
لاہوری مرزائیوں کی جانب سے لکھے گئے اسی سلسلہ کے ایک خط کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا بشیر الدین محمود نے جمعہ کے اجتماع، جمعہ کے بیان اور عین منبر پر بیٹھ کر جو کچھ کہا، وہ ایک طرف اگر قادیانی کردار کی اعترافی شہادت ہے تو دوسری طرف ان کی مسخ فطرت کی بھی کھلی دلیل ہے، سمجھ نہیں آتا کہ کوئی شخص اپنے اور اپنے باپ کے خلاف لگائے گئے ایسے گھناؤنے چارج کا اس قدر بے باکی، بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اظہار واعلان بھی کرسکتا ہے؟ آخر اس کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ اس سے میری اور میرے باپ کی شلوار اتر جائے گی؟ یا قادیانی نبوت وخلافت کے تقدس کے پردہ میں کی جانے والی گھناؤنی حرکتوں سے پردہ بھی اٹھ جائے گا۔
لیکن غور کرنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں مرزا بشیر کا کوئی قصور نہیں، بلکہ مرزا بشیر الدین محمود ”بیچارہ“ مجبور تھا، اس لیے کہ الله تعالیٰ نے قادیانی امت پر اتمام حجت کرنے کے لیے ان کے ”بڑوں“ کے غلیظ کردار کو طشت ازبام کرکے ان پر جھوٹ اور سچ کو واضح کرنا تھا، تاکہ : ﴿لیھلک من ھلک عن بینة ویحي من حيّ عن بینة﴾ (الانفال:42)… تاکہ مرے جس کو مرنا ہے قیام حجت کے بعد اور جیوے جس کو جینا ہے قیام حجت کے بعد… کے مصداق جو ہلاک ہونا چاہے وہ علی وجہ البصیرت ہلاک ہو۔
چناں چہ مرزا بشیر الدین محمود خلیفہ دوم مرزا غلام احمد قادیانی،جمعہ کے دن، جمعہ کے اجتماع اور جمعہ کے بیان میں برسر منبر کہتا ہے:
”لیکن اس قدر اعتراضات کرنے کے باوجود ہر خط میں بڑا اخلاص بھی ظاہر کیا ہوا ہوتا ہے اور لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ہم سلسلہ کے خادم ہیں، اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اس کا لکھا ہوا ہے، اس میں یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ولی الله تھے اور ولی الله بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے ہیں، اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا؟ پھر لکھا ہے کہ : ہمیں حضرت مسیح موعود پر اعتراض نہیں، کیوں کہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے، ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے ،کیوں کہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے، اس عتراض سے پتا لگتا ہے کہ یہ شخص پیغامی طبع ہے، اس لیے کہ ہمارا حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ اعتقاد ہے کہ نبی الله تھے، ، مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے، وہ آپ کو صرف ولی مانتے ہیں۔“ (روزنامہ ”الفضل“ قادیان، دار الامان:31/اگست1938ء)
ا قتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اورمرزا بشیر الدین محمود تقدس کے پردہ میں چھپ کر جو کچھ کرتے تھے، لاکھ چھپانے کے باوجود وہ کیسے ظاہر ہو گیا؟ پھر اس کا اظہار بھی کسی دوسرے نے نہیں کیا، بلکہ خود مرزا بشیر الدین محمود نے” بہ نفس نفیس“ اس کا اعلان فرما دیا، بات صرف یہاں تک نہیں رہی، بلکہ قادیانی بزرج مہروں نے اسے اٹھا کر جوں کا توں ”الفضل“ میں شائع بھی کر دیا، تاکہ مخالف و موافق سب ہی پڑھیں، اسی کو کہتے ہیں:”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔“