نیت کی درستی کیوں ضروری ہے؟

نیت کی درستی کیوں ضروری ہے؟

مولاناحافظ زبیر حسن

اخلاص اور نیت کا درست ہونا یہ عمل کی قبولیت کے لیے سب سے پہلی شرط ہے، اسی پر فیصلے ہوتے ہیں اور اللہ رب العزت کی طرف سے نیت کے اچھا یا برا ہونے پر، نیز اخلاص کی بنیاد پر انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جاتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“․ (الصحیح للبخاري، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم )
ترجمہ: اعمال کادارومدار نیتوں پر ہے۔

یہ اخلاص اور للہیت کیا چیز ہے؟ اسے سمجھنا ہوگا۔

اخلاص کہتے ہیں ہر اچھا عمل اور ہر ایک کے ساتھ کی گئی نیکی صرف اس نیت اور غرض سے کی جائے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور ہمارے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمائے اور ہم اس کے غضب وغصہ سے محفوظ رہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں جیسا کہ اوپر روایت میں بھی گزرا، کہ مسلمان کا ہر عمل خلوص نیت کے ساتھ ہو، اگر بظاہر اعمال اچھے ہیں، مگر نیت درست نہیں اور مقصد اللہ کی رضا وخوش نودی نہیں، بلکہ نام ونمود، شہرت اور ریا کاری ہے تو اللہ کے نزدیک اس عمل کی کوئی قدروقیمت نہیں، نہ دنیا میں اس کے اس عمل کا اثر مرتب ہوگا اور نہ آخرت میں کوئی ثمرہ اور ثواب مل سکے گا۔بلکہ ثواب تو ایک طرف، یہ عمل پکڑ کا سبب بن جائے گا۔ عمل کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ نیت کا اچھا ہونا بھی ضروری ہے۔

اسی وجہ سے آ پ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:”عَنْ أَبی ھُرَیْرَةَ قَال قَال رَسُوْلُ اللہِ صلی الله علیہ وسلم:”مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغَی بِہ وَجْہُ اللہِ عَزَّوَجَلَّ لَا یَتَعَلَّمُہ، إلَّا لِیُصِیْبَ بِہ عَرَضًا مِنْ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ․“(سنن ابی داؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم، لغیر اللہ تعالیٰ، حدیث نمبر: 3664)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:جو شخص وہ علم کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی طلب کی جاتی ہے، دنیا کے سازوسامان کے لیے حاصل کرے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوش بو بھی نہ پائے گا۔

اس روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑی سخت وعید ذکر فرمائی ہے۔ ہم دنیا کے معاملات میں بھی غور کریں کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیے ہوئے ہے اور اس کی راحت رسانی کا خیال کرتا ہے ،مگر اس کا مقصدنیک نہیں، بلکہ اپنے مفادات واغراض کا حصول ہے تو جیسے ہی اس کی نیت کے بارے میں اس شخص کو علم ہوگا کہ اس کا مقصد میرے ساتھ حسن سلوک کرنے کا اپنا ذاتی مفاد ہے تو لمحہ بھر میں وہ اس کی نظروں سے گر جائے گا۔ بعینہ اسی طرح اللہ رب العزت کا معاملہ ہے، لیکن اللہ بندے کے معاملات پر پردہ پوشی فرماتے رہتے ہیں، باوجودیکہ وہ علیم بذات الصدورہے۔لہٰذامسلمان کا مطمح نظر صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو ہر نیکی کے عمل میں، نہ کہ دکھلاوا۔

ایک سوال بسا اوقات کسی فرد کے، ذہن میں آجاتا ہے کہ اگر نیک عمل برے ارادے سے کیا تو اس پر اجر نہ ملا بلکہ پکڑ ہوئی تو کیا کوئی برا عمل انسان اچھی نیت وارادے سے کرے تو کیا اس پر اجر ملے گا؟ نیز پکڑ نہ ہوگی؟ مثال کے طور پر کوئی شخص ڈاکے ڈالے اور امیروں کو لوٹے کہ اس پیسے سے غریب لوگوں کی امداد ہوگی، کیا یہ ثواب کا مستحق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ عمل جس سے اللہ اور اس کا رسول صلی الله علیہ وسلم بیزار ہیں بلکہ ایسے وہ کام جن سے روکا ہے اور وہ ان کی ناراضگی اور غصے کا سبب ہیں، ان میں جتنی مرضی اچھی نیت انسان کر لے اور جتنا مرضی اخلاص پیدا کرلے ممکن ہی نہیں کہ اس پر اجر ملے گا، بلکہ یہ تو الٹا احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی سے مذاق واستہزا ہے۔

لہٰذا ہمارا یہ عمل اگر قرآن وسنت کے مطابق ہوا اور اخلاص کے ساتھ نیت بھی درست ہو تو ان شاء اللہ قبول بھی ہوگا اور دنیا میں اس کے اثرات بھی ہوں گے اور آخرت کا اجر بھی ملے گا۔

اللہ جل شانہ، ہمیں ہر عمل اپنی رضا کی خاطر کرنے کی توفیق عطا فرمائے !آمین۔