نکاح کا شرعی حکم

نکاح کا شرعی حکم

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی کثرت ازدواج
حضور سرورِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انسانیت اپنی پستی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور وہ تمام برائیاں جو کسی بُرے معاشرے میں پائی جا سکتی ہیں ان لوگوں میں موجود تھیں، اس لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ بھٹکی ہوئی انسانیت کا ناطہ دوبارہ اس کے خالق سے جوڑ دیا جائے اور اسے ہلاکت سے نکال کر ابدی زندگی میں کام یابی کی راہ دکھائی جائے اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کی راہ نمائی کی جائے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ نے ناصرف اپنے اقوال سے، بلکہ افعال سے بھی کام یاب زندگی کا ایک مثالی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور صرف کہہ کر ہی نہیں، بلکہ کر کے بھی دکھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کس طرح کی بندگی مطلوب ہے۔

صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جاں نثار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے علوم کے محافظ تھے، انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی معاشرت و معاملات، نشست و برخاست، سفر و حضر، صوم و صلوٰة، حکومت وقضا، جہاد و قتال، جنگ و امن میں کفار سے معاملات، آپ کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، شکل و صورت، خد و خال، قد و قامت، حسن و جمال اور لباس وغیرہ… غرضیکہ جو کچھ دیکھا اسے حرف بہ حرف محفوظ کیا اور بعد والی امت تک پہنچا دیا۔

لیکن اندورنِ خانہ زندگی سے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات ،جس کے تحت آپ کا سونا جاگنا، اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا، خلوت میں آپ کی عبادت کا حال، عورتوں کے مخصوص مسائل کے احکام، زوجین کے حقوق، ان سے معاشرت و مباشرت کے آداب وغیرہ احکام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے اور امت کے لیے ان احکامات کا علم ازواجِ مطہرات ہی کے ذریعے ممکن تھا۔

چوں کہ مرد و عورت کے درمیان حیا کا پردہ ہوتا ہے، اس لیے عورتیں اپنے مخصوص مسائل کے احکام عموماً ازواج مطہرات کے واسطہ سے دریافت کرتی تھیں، پھر خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت پر بھی حیا کا غلبہ تھا ،اس لیے جو عورتیں براہِ راست آپ علیہ الصلاة و السلام سے اپنے کسی مسئلے کا حکم دریافت کرتیں تھیں آپ سادہ الفاظ میں اس کا حکم بیان فرما دیتے اور بہت کھول کھول کر وضاحت نہ کرتے، جس سے بعض دفعہ سائلہ کو حکم پورے طور سمجھ نہ آتا، تو اس کی توضیح ازواج مطہرات ہی کے ذریعے ممکن ہوتی تھی۔ جیسا کہ کتب صحاح میں جامع ترمذی کے علاوہ تمام میں یہ روایت موجود ہے:
”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے غسل حیض کے متعلق سوال کیا، آپ نے بتلا دیا، اس کے بعد فرمایا کہ روئی کا ایک مشک آلود پھویا لے کر اس سے پاکی حاصل کر لو، اس نے پوچھا کہ کیسے پاکی حاصل کر لوں؟ فرمایا: بس پاکی حاصل کر لو، اس نے کہا کیسے پاکی حاصل کر لوں؟ آپ نے (تعجب سے) فرمایا:سبحان اللہ (اور کیسے بتلاؤں) اس سے پاکی حاصل کر لو۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں) میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس سے کہا: جہاں خون کا اثر تھا تلاش کر کے اس روئی کے پھوئے کو اس جگہ رکھ لو۔“(صحیح البخاری، رقم الحدیث:314)

اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے:
”(اس عورت کے بار بار سوال کرنے پر حیا کی وجہ سے) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ لیا۔“(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:316)

یہاں اس مسئلے کا سمجھنا زوجہ مطہرہ ہی کے زریعے ممکن ہوا، اس کے علاوہ اور بے شمار مسائل ہیں جن کے بارے میں ازواج مطہرات ہی کے ذریعے امت کو راہ نمائی ملی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
”تبلیغِ دین کی ضرورت کے پیش نظر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے لیے کثرت ازدواج ایک ضروری امر تھا، صرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے احکام و مسائل، اخلاق و آداب سے اور سیرت نبوی سے متعلق دو ہزار دو سو دس روایات مروی ہیں، جو کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مرویات کی تعداد تین سو اٹھتر تک پہنچی ہوئی ہے، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”إعلام الموقعین“ (ص:9، ج:1) میں لکھا ہے کہ اگر حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فتاویٰ جمع کیے جائیں، جو انہوں نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد دیے تو ایک رسالہ مرتب ہو سکتا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا روایت، درایت اور فقہ و فتاویٰ میں جو مرتبہ ہے وہ محتاج بیان نہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے، حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلسل اڑتالیس سال تک علم دین پھیلایا۔

بطورِ مثال دو مقدس ہستیوں کا مجمل حال لکھ دیا ہے، دیگر ازواج مطہرات کی روایات بھی مجموعی طور پر کافی تعداد میں موجود ہیں، ظاہر ہے اس تعلیم و تبلیغ کا نفع ازواجِ مطہرات سے پہنچا۔“(معارف القرآن، النساء ذیل آیت:3)

حضور اقدس ا کی کثرتِ ازواج پر اہل یورپ کا اعتراض
مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں یہ بات کسی قدر واضح ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصدِ عالیہ کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ آپ کے ہاں ازواج کی کثرت ہوتی، تاکہ اجتماعی اور معاشرتی مصالح کے ساتھ ساتھ انفرادی اور خانگی شعبہائے زندگی سے متعلق بھی تعلیماتِ نبویہ سامنے آئیں۔ لیکن یورپ کے ملحدین اور مستشرقین اپنی ازلی دشمنی سے مجبور ہو کر صدیوں سے اس بات کی کوشش میں رہے ہیں کہ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ذات و شخصیت کو مجروح کریں اور کیوں نہ ہو کہ یہ بغض تو ان کے خمیر میں گوندھ دیا گیا ،بقول شاعر #
        ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
        چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی کثرتِ ازواج کو خالص جنسی اور نفسانی خواہش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

اعتراض کی حقیقت
لیکن یہ اعتراض اس قدر بے وزن، بے اصل اور لا یعنی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کا معمولی علم رکھنے والا آدمی بھی اس کو ردّ کر سکتا ہے، غور کرنے کی بات ہے کہ کفارِ مکہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے جانی دشمن تھے، انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو روکنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، آپ کے قتل کی سازشیں کیں، آپ کو ساحر و مجنون کہا، آپ کو پتھر مارے، آپ پر گندگیاں پھینکیں، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے، اپنی دولتیں لٹا دیں، اپنی اولادیں قربان کر دیں اور تو اور خود اپنی جانیں دے کر اپنی بیویوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرانا گوارا کر لیا، لیکن کبھی کسی بڑے سے بڑے دشمن کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ آپ کی سیرت واخلاق کے بارے میں اعتراض کا ایک حرف بھی کہہ سکے یا آپ کی کثرتِ ازواج کو نفس پرستی کا نام دے۔

سرکارِ دو عالم ا کی کثرتِ ازدواج پر ایک سرسری نظر
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی کثرت ازواج کا درج ذیل خاکہ سامنے رکھتے ہوئے اس اعتراض کی حقیقت مزید واضح ہو جائے گی۔

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلا نکاح حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے25 سال کی عمر میں کیا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت 40 سال تھی۔(طبقات ابن سعد:1/105) یہ 25 سال آپ کے نکاح میں رہیں اور 10 نبوی میں ان کا انتقال ہوا، ان کی زندگی میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی اور عورت سے شادی نہیں کی۔ (شرح الزر قانی علی المواہب:4/376) ان کی وفات کے بعد سن ۱۰ نبوی ماہِ رمضان المبارک میں آپ نے حضرت سودہ بنت ِزمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ (طبقات ابن سعد:1/42) اس وقت آپ کی عمر مبارک 50سال ہو چکی تھی، اسی سال ماہِ شوال میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا، جن کی رخصتی ہجرت کے آٹھ (8) ماہ بعد شوال المکرم میں ہوئی،(طبقات ابن سعد:1/46) اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک چوّن (54) سال تھی، پھر شعبان ۳ ہجری میں ہجرت کے تیس (30)ماہ بعد حضرت حفصہ رضی الله عنہا سے عقد نکاح ہوا اور رمضان المبارک میں حضرت زینب بنتِ خزیمہ آپ کے حرم میں آئیں (طبقات ابن سعد:1/91-66)س وقت آپ علیہ الصلاة و السلام کی عمر مبارک ستاون (57) برس ہو چکی تھی اور یوں (57) سال کی عمر میں آکر آپ کے حرم میں چار بیویاں جمع ہوئیں۔

شوال سن 4 ہجری میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عقد فرمایا۔(طبقات ابن سعد:1/69) اور سن5 ہجری میں حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(شرح الزرقانی علی المواہب:8/425) اور اسی سال ذیقعدہ میں حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں۔(طبقات ابن سعد:1/90) اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک انسٹھ (59) سال تھی۔ پھر سن7 ہجری میں حضرت ام حبیبہ بنتِ ابی سفیان، صفیہ بنت حُیَیْ اور میمونہ بنت حارث آپ کی حرم سرا کی زینت بنیں۔(طبقات ابن سعد:1/78) آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب سے آخری نکاح حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شوال سن 7 ہجری میں فرمایا(طبقات ابن سعد:1/105) اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر مبارک اکسٹھ (61)سال تھی۔

قابل توجہ بات:
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی کثرتِ ازواج کا مذکورہ بالا خاکہ سامنے رکھتے ہوئے کون انصاف پسند ہے جو اسے نفس پرستی کا نام دے سکتا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ آپ علیہ الصلاة و السلام نے اپنی عمر شریف کے ابتدائی پچیس برس زہد و تقویٰ اور عفت و پاک دامنی سے گذارنے کے بعد جب شادی کی تو اپنے سے پندرہ سال بڑی خاتون (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ) سے جو کہ پہلے ہی یکے بعد دیگرے دو شوہروں سے بیوہ ہو چکی تھیں، پھر پچاس (50) سال کی عمر تک کسی اور عورت سے شادی نہیں کی اور عنفوان شباب کا سارا کا سارا زمانہ ان ہی ایک خاتون کے ساتھ گذار دیا، وہ بھی اس طرح کہ مہینہ مہینہ انہیں چھوڑ کر غارِ حرا میں عبادت الہٰی میں مشغول رہتے، یہاں تک کہ پچیس (25) سال آپ کے نکاح میں رہ کر ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سودہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نکاح تو فرما لیا، لیکن تعددِ ازواج کا آغاز چوّن (54) سال کی عمر میں اس وقت ہوا جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی، امت کو تو چار شادیوں کی اجازت بہت پہلے مل چکی تھی، لیکن آپ کے ہاں چار بیویاں ستاون (57) سال کی سن رسیدگی کی عمر میں اس وقت جمع ہوئیں جب آپ نے حضرت حفصہ اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ازدواج فرمایا، باقی تمام شادیاں اس کے بعد ہوئیں، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ باقی سب کی سب ازواج مطہرات بیوہ تھیں اور ان میں بھی بعض تو ایسی تھیں جو ایک سے زائد شوہروں سے بیوہ ہو چکی تھیں، پھر ان کے ما بین حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں وہ بے نظیر نمونہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ راتوں میں آپ کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ نمازوں میں اتنا طویل قیام فرماتے کہ پاؤں مبارک پر ورم آجاتا۔

اب اعتراض کرنے والے خود ہی سوچ لیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی کثرتِ ازواج کو ہوا پرستی اور نفسانی خواہش کا نام دینا کہاں تک درست ہے؟! اگر یہ ہوا پرستی تھی تو آپ علیہ الصلاة و السلام کیوں بستر استراحت کو چھوڑ کر راتوں کو لمبی لمبی نمازیں پڑھتے تھے؟ اگر وہاں نفسانی خواہشات کا غلبہ تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے جوانی ہی میں بہت سی بیویاں اور سب کی سب کنواریاں اپنے نکاح میں کیوں جمع نہیں کر لیں؟! حالاں کہ کفار مکہ آپ کو اس کی پیش کش بھی کر چکے تھے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو جاں نثار تھے، وہ تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ سسرالی رشتہ قائم کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے، آپ چاہتے تو آپ کے لیے یہ کچھ مشکل نہ تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، اس لیے کہ وہاں کثرت ازدواج میں نفس پرستی کا کوئی دخل نہ تھا، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کثرت ازدواج تو بہت سے مصالح اور حِکَم کی بنا پر محض حکم الہٰی سے کی تھیں، جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی ہے:

عن أبی سعید الخدري رضي اللہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم :”ما تزوجت شیٴاً من نسائي ولا زوجت شیئاً من بناتي إِلا بوحی جاء ني بہ جبریل عن ربي عزوجل․“ (شرح الزرقانی:4/363)
(ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”میں نے اپنا نکاح اور اپنی کسی بیٹی کا نکاح اس وقت تک نہیں کیا جب تک کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس اللہ رب العزت کی طرف وحی لے کر نہیں آئے۔“

﴿یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ فَإِن کُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَیْْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَإِن کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَہَا النِّصْفُ وَلأَبَوَیْْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِن کَانَ لَہُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ یَکُن لَّہُ وَلَدٌ وَوَرِثَہُ أَبَوَاہُ فَلأُمِّہِ الثُّلُثُ فَإِن کَانَ لَہُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّہِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصِیْ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ آبَآؤُکُمْ وَأَبناؤُکُمْ لاَ تَدْرُونَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعاً فَرِیْضَةً مِّنَ اللّہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْما حَکِیْماً، وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّہُنَّ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِن بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصِیْنَ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم مِّن بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ وَإِن کَانَ رَجُلٌ یُورَثُ کَلاَلَةً أَو امْرَأَةٌ وَلَہُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ فَإِن کَانُوَاْ أَکْثَرَ مِن ذَلِکَ فَہُمْ شُرَکَاء فِیْ الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصَی بِہَا أَوْ دَیْْنٍ غَیْْرَ مُضَآرٍّ وَصِیَّةً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ، تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، وَمَن یَعْصِ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْن﴾ (سورة النساء، آیت:11 تا14)

حکم کرتاہے تم کو اللہ تمہاری اولاد کے حق میں کہ ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے، پھر اگر صرف عورتیں ہی ہوں دو سے زیادہ تو ان کے لیے ہے دو تہائی اس مال سے جو چھوڑ مرا ،اور اگر ایک ہی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کے لیے دونوں میں سے چھٹا حصہ ہے اس مال سے جو کہ چھوڑ مرا اگر میت کی اولاد ہے، اور اگر اس کی اولاد نہیں اور وارث ہیں اس کے ماں باپ تو اس کی ماں کا ہے تہائی، پھر اگر میت کے کئی بھائی ہیں تو اس کی ماں کا ہے چھٹا حصہ بعد وصیت کے جو کر مرا ، یا بعد ادائے قرض کے، تمہارے باپ اور بیٹے، تم کو معلوم نہیں کون نفع پہنچائے تم کو زیادہ ؟حصہ مقرر کیا ہوا اللہ کا ہے۔ بے شک اللہ خبردار ہے، حکمت والا ہے۔ اور تمہارا ہے آدھا مال جو چھوڑ مریں تمہاری عورتیں اور اگر نہ ہو ان کی اولاد اور اگر ان کی اولاد ہے تو تمہارے واسطے چوتھائی ہے، اس میں سے جو چھوڑ گئی ہیں بعد وصیت کے جو کر گئیں یا بعد قرض کے اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے اس میں سے جو چھوڑ مرو تم، اگر نہ ہو تمہاری اولاداور اگر تمہاری اولاد ہے تو ان کے لیے آٹھواں حصہ ہے اس میں سے کہ جو کچھ تم نے چھوڑا بعد وصیت کے جو تم کر مرو یا قرض کے اور اگر وہ مرد کہ جس کی میراث ہے، باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا یا عورت ہو ایسی اور اس میت کا ایک بھائی ہے یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر زیادہ ہوں اس سے تو سب شریک ہیں، ایک تہائی میں بعد وصیت کے جو ہو چکی ہے یا قرض کے، جب اوروں کا نقصان نہ کیا ہو،یہ حکم ہے اللہ کا اور اللہ ہے سب کچھ جاننے والا، تحمل کرنے والا، یہ حدیں باندھی ہوئی اللہ کی ہیں اور جو کوئی حکم پر چلے اللہ کے اور رسول کے اس کو داخل کرے گاجنتوں میں ،جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، ہمیشہ رہیں گے اس میں اور یہی ہے بڑی مراد ملنی، اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے، ڈالے گا اس کو آگ میں، ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

میراث اور اسلام
انسان اپنے مرنے کے بعد منقولہ اور غیر منقولہ جو کچھ مال چھوڑ جاتا ہے اسے ”ترکہ“اور مال میراث کہتے ہیں اور اس کے حصہ داروں کو ورثاء کہتے ہیں، عرب معاشرے میں اسلام سے قبل صرف مردوں کو حصہ دار سمجھا جاتا تھا، کیوں کہ مال کمانے والا مرد ہوتا تھا، اس لیے ترکہ کا حق دار بھی ہوتا تھا، دنیا کے تمام مذاہب اور وضعی قوانین افراط وتفریط کا شکار ہیں، کہیں صرف بڑے بیٹے کو وارث بنا دیا گیا، کہیں بیوی کو وارث بناکر دوسرے رشتہ داروں کو محروم رکھا گیا، کہیں صرف مردوں کو یہ حق بخشا گیاہے، اسلام کا نظام ان تمام بے اعتدالیوں سے محفوظ ہے، وہ دولت کو فرد واحد میں سمیٹنے کی بجائے، اسے کئی افراد میں پھیلاتا ہے، اسلام کے نظام میراث میں استحقاق اور حصہ داری کا معیار”قریبی رشتہ داری“کو رکھا گیا، اور قریبی رشتہ داری میں مردوں ، عورتوں، بچوں بچیوں سب کا حصہ رکھا گیا ہے، سورة النساء کے دوسرے رکوع میں قریبی رشتہ داروں کے حصے بیان کر کے اس پر عمل کی تاکید کی گئی ہے اور میراث میں کسی حصہ دار کو محروم کرنے پر سخت وعید سنائی گئی ۔

مثلاً: ﴿وَمَن یَعْصِ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْن﴾
اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جائے اس کی حدوں سے، ڈالے گا اس کو آگ میں، ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔(النساء:14)

﴿إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَیٰ ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا ﴾․(النساء:10)
.جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ناحق وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں، اور عنقریب آگ میں داخل ہوں گے۔

﴿وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا،وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾․ (الفجر:19)
اور کھاتے ہیں مردے کا مال سمیٹ کر سارا۔

وارث کا حق مارنا جنت سے محرومی کا باعث
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے اپنے وارث کا حق مارا قیامت کے دن اس شخص کو جنت سے اس کے حصے سے محروم کر دیں گے۔(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:2703)

ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس کے متعلقہ حقوق
1..میت کی تجہیزوتکفین کا درمیانی خرچہ ترکہ سے منہا کیا جائے گا۔
2..میت کے ذمے اگر قرض رہ گیا ہے تو وہ قرض ادا کیا جائے گا۔
3..اگر میت نے ثلث مال میں سے جائز وصیت کی ہے تو اس وصیت کو پورا کیا جائے۔باقی ماندہ حصہ ورثا میں بقدر حصص تقسیم کیا جائے۔

اقسام ورثہ
ورثا کی تین قسمیں ہیں:
1..ذوی الفروض:وہ ورثا جن کے حصص قرآن کریم ،حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اجماع امت سے متعین ہوں۔
2..عصبات:عصبات وہ وارث ہوتے ہیں جو ”اصحاب الفرائض “کے حصص کے ملنے کے بعد باقی ماندہ مال کے مستحق ہوتے ہیں، اور اگر اصحاب الفرائض نہ ہوں تو پورے مال کے حق دار ہوتے ہیں۔
3..ذوی الارحام: ذوی الارحام سے وہ رشتہ دار مراد ہیں جو اصحاب الفرائض بھی نہیں ہوتے اور عصبات بھی نہیں ہوتے۔

تو ان آیات میں جن کا حصہ بیان کیا گیا ہے اس کی وضاحت ذیل میں کی جاتی ہے، تفصیل فقہی کتابوں میں مذکور ہے۔

اولاد کے حصص
﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم………..﴾اولاد کے حق میراث کے سلسلے میں تین حالتیں بیان کی گئی ہیں، مرنے والے کے لڑکے بھی ہوں اور لڑکیاں بھی، اس صورت میں لڑکوں کا حصہ لڑکیوں کے مقابلے میں دگنا ہو گا، مرنے والے کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں، اگر دو سے زیاد ہ ہوں تو متروکہ مال کا دو تہائی لڑکیوں کو دیا جائے گا، اگر لڑکیاں دو ہی ہوں تو تب بھی یہی حکم ہو گا، چناں چہ حدیث شریف میں حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں۔

سعد بن ربیع کی بیوی ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: الله کے رسول!: یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے اور شہید ہو گئے، ان کے چچا نے ان کی ساری میراث پر قبضہ کر لیا، اب عورت سے مال کے بغیر کوئی شادی نہیں کرتا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم یہ سن کر خاموش رہے، یہاں تک کہ میراث والی آیت نازل ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے سعد بن ربیع کے بھائی کو طلب فرمایا اور حکم دیا سعد کی دونوں بیٹیوں کو ان کے مال کا دو تہائی حصہ اور ان کی بیوی کو آٹھواں حصہ دو، پھر جو بچے وہ تم لے لو۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:2892)

تیسری صورت یہ ہے اولاد میں صرف ایک بیٹی ہو،اس صورت میں کل مال کے آدھے کی حق دار ہو گی، (چوتھی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مرنے والے کی اولاد میں صرف لڑکے ہوں، ایک ہو یا ایک سے زائد اس صورت میں بقیہ ورثا کو دینے کے بعد باقی ماندہ مال کے وہی وارث ہوں گے)۔

والدین کے حصص
ولابویہ لکل واحد منھما السدس…الخ
یہاں سے والدین کے حصوں کا بیان ہے، اس میں تین صورتیں بیان کی گئی ہیں، مرنے والا صاحب اولاد ہو، اس صورت میں ماں باپ کو متروکہ مال کا چھٹا حصہ ملے گا، یعنی مال متروکہ کا ایک تہائی والد اور والدہ میں تقسیم ہو گا، مرنے والے کی کوئی اولادنہ ہو اور کوئی بھائی بھی نہ ہو یا صرف ایک بھائی ہو، اس صورت میں متروکہ مال کا ایک تہائی حصہ والدہ کو ملے گا، پھر دیگر ورثا میں تقسیم ہونے کے بعد باقی ماندہ مال والد کو ملے گا، اگر مرنے والے کی اولاد تو نہ ہو، مگر بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو اس صورت میں ماں کو چھٹا حصہ ملے گا، تقسیم کے بعد باقی ماندہ مال والد کو ملے گا، (واضح رہے کہ اگر مرنے والے کی بیوی بھی ہو تو بیوی کا حصہ نکالنے کے بعد بقیہ مال کا ایک تہائی ماں کو اور بقیہ والد کو ملے گا، اس کی تمام تر تفصیل فقہی کتب میں مذکور ہے)

میراث کی تقسیم قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تکمیل کے بعد
من بعد وصیة…………….
آیت کے اس حصے میں بتایا گیا کہ مالِ میراث کی تقسیم سے قبل مرنے والے نے اگر وصیت کی ہے تو ترکہ میں سے وصیت کی تکمیل کی جائے۔ وصیت کے جائز ہونے کا پہلا اصول حدیث میں ہے کہ وصیت کسی ایسے شخص کے لیے نہ کی گئی ہو کہ جو ترکہ میں وارث بھی بن رہا ہو، یعنی وصیت غیر وارث کے لیے ہو، دوسرا اصول یہ ہے کہ وصیت ثلث مال سے زائد نہ ہو۔ (جامع الترمذی،رقم الحدیث2120)

شوہروبیوی کے حصص
شوہر اور بیوی دونوں کی دو حالتیں بیان کی گئی ہیں۔صاحب اولاد ہوں۔ صاحب اولاد نہ ہوں۔

اگر بیوی کی اولاد نہیں ہے تو بیوی کو شوہر کے ترکے میں سے آدھا ملے گا اور اگر بیوی کی اولاد ہے اسی شوہر سے یا دوسرے شوہر سے تو شوہر کو بیوی کے ترکے میں سے چوتھائی ملے گا۔

شوہر کی اولاد نہیں تھی تو بیوی کو شوہر کے ترکے میں سے چوتھائی ملے گا اور اگر شوہر کی اولاد ہے اس بیوی سے یا دوسری بیوی سے تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا، شوہر و بیوی کا حق میراث بھی قرضہ اور وصیت کی تکمیل کے بعد ہو گا۔

”کلالہ“ کا حصہ
وإن کان رجل یورث کللٰة…الخ
اس آیت میں”کلالہ“کا حصہ مذکور ہے، ”کلالہ“اس میت کو کہتے ہیں، جس نے اپنے پیچھے نہ والدین چھوڑے ہوں نہ اولاد چھوڑی ہو، ایسے شخص کے متروکہ مال کا تذکرہ ہے، اگر اس کا ایک ماں شریک بھائی ہو یا ماں شریک بہن ہو، تو وہی اس کے وارث ہوں گے، دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر ایک سے زائد ہوں تو متروکہ کا تہائی حصہ ان سب میں تقسیم ہو جائے گا۔

قرآن کریم میں مطلقاً بہن کا تذکرہ ہے، لیکن فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں جس بہن کا تذکرہ ہے اس سے اخیافی یعنی ماں شریک بہن مراد ہے، کیوں کہ عینی یعنی ماں باپ شریک بہن یا علاتی یعنی باپ شریک بہن کا تذکرہ سورة النساء کے آخر میں مذکور ہے۔( روح المعانی. النساء. ذیل آیت:12) (جاری)