نوجوانوں کے لیے اسوہٴ نبوی صلی الله علیہ وسلم

نوجوانوں کے لیے اسوہٴ نبوی صلی الله علیہ وسلم

مولانا حافظ زبیر حسن

”حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس جوان نے کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے تعظیم وتکریم کی تو الله تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو اس کی تعظیم کرے گا۔“ (رواہ الترمذی)

زمانہ جوانی میں انسانی قوتیں عروج پر ہوتی ہیں، سوچنے کی طاقت ، عمل کی قوت، غصہ کی طاقت اور ہر قسم کی قوت پر اسے ناز بھی ہوتا ہے اس لیے جوانی میں انسان سرکشی کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، لیکن اگر انسان زمانہ جوانی میں سنبھل جائے تو یہ واقعی مثالی جوان ہوتا ہے۔ غالباً اسی لیے شیخ سعدی علیہ الرحمة نے فرمایا #
        در جوانی توبہ کردن شیوہٴ پیغمبری

جوانی میں پرہیز گاری کی زندگی گزارنا پیغمبروں کا طریقہ ہے اور واقعی بہت بڑا کمال ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اور بہت سے کمالات میں سے ایک کمال الله تعالیٰ نے یہ بھی عطا فرمایا تھاکہ جوانی ہی میں آپ نے اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا لوگوں سے اعتراف کروالیا، نبوت ملنے سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم چالیس سالہ زندگی قوم کے درمیان گزار چکے تھے، اس زندگی کی پوری تصویر اور اس کا ہر رخ آج تک محفوظ ہے۔ یہ چالیس سالہ زندگی سچائی، دیانت اور خدمت خلق جیسے اعلی اوصاف سے بھر پور ہے، جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم کو دشمنوں نے بھی صادق اور امین کے لقب سے پکارا۔ جب نبوت ملی تو آپ نے اپنی سچائی کے ثبوت میں اسی چالیس سالہ زندگی کو پیش فرمایا۔آپ کی جان کے دشمن آپ کے دین اوردعوت کے دشمن کو بھی اس بات کی ہمت نہ ہوسکی کہ آپ کی سابقہ زندگی پر انگلی اٹھاسکے۔ رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ آپ کی جوانی کی حالت میں پاکیزہ زندگی ہے ، ایسی صاف ستھری او راخلاق سے آراستہ زندگی جس کے دوست ودشمن معترف ہیں۔ آپ کے چچا ابوطالب کے الفاظ ہیں کہ میں نے اپنے بھتیجے کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا او راسے کبھی گلیوں میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔

آج ہمارے معاشرے میں نوجوان کے سب سے زیادہ عیب اس کے رشتہ داروں کو معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کے بزرگ آج کے نوجوان پر کوئی ذمہ داری ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جوانی کے زمانے میں حجر اسود کی تنصیب جیسے ذمہ دارانہ کارنامے انجام دیے۔ جب بارشوں کی وجہ سے سیلاب آیا، کعبہ کا کچھ حصہ گر گیا، مختلف قبیلوں نے مل کر دوبارہ تعمیر کیا،حجر اسود لگانے کا سوال اٹھا تو فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوا۔ طے ہوا کہ جو سب سے پہلے کل صبح بیت الله میں داخل ہو وہ رکھے گا، سب نے پہلے پہنچنے کی کوشش کی، لیکن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پہلے سے موجو دتھے، آپ نے بڑی عمدہ تدبیر کے ساتھ حجر اسود رکھوایا او رایک بہت بڑا مسئلہ آپ نے جوانی میں حل فرمایا۔ جوانی میں آپ صلی الله علیہ وسلم محبت اور رحمت کی مثال تھے، کسی کی تکلیف کو دیکھ کر مدد کے لیے تیار ہو جاتے، ایک بڑھیا کو دیکھا، بوجھ اٹھائے جارہی تھیں، کمر بوجھ تلے جھکی جارہی تھی، پتھر دل لوگ ہنس رہے تھے، آپ نے آگے بڑھ کر بڑھیا کا بوجھ اپنے کندھے پر رکھا اور لوگوں سے کہا ایک کم زور بڑھیا کا مذاق اڑانا جوانی کا شیوہ نہیں۔ مردانگی یہ ہے کہ اس کا بوجھ بٹا دو۔ جوانی میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے وقت کا کافی حصہ بوڑھوں ، بیماروں اور معذور لوگوں کی دیکھ بھال پر صرف فرماتے تھے۔ ان کے چھوٹے کام کرتے۔ ایک روز ایک قریشی سردار نے کہا کتنی شرم کی بات ہے تم اپنے خاندان کو بٹہ لگاتے ہو، تم اونچے گھرانے کے چشم وچراغ ہو اور اس طرح غریبوں کے کام کرتے ہو؟ رحمت دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک میرا پردادا ہاشم قریش کا سردار تھا، مگر وہ بھی سب کی خدمت کیا کرتے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کو یتیموں سے بھی بڑی محبت تھی، ایک بچے کو کم زور، بے لباس دیکھا، اس سے وجہ پوچھی، وہ رو پڑا او ربھوک کی شکایت کی، آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے، آپ لڑکے کو گھر لے گئے، کھاناکھلا یااور کپڑے پہنائے۔

جوانی میں معاشرتی ذمہ داریاں پیش آئیں تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا۔ آپ کی تجارت کی کام یابی کا علم مکہ کی مال دار خاتون بی بی خدیجہ کو ہوا تو کارندوں کے ذریعہ شام کے سفر تجارت پر بھیجا، اپنے معتبر غلام میسرہ کو بھی ساتھ کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسی دیانت او رمحنت سے کام کیا کہ حضرت خدیجہ کو توقع سے زیادہ منافع ہوا۔ میسرہ کے ذریعہ نیکی اور دیانت کا معیار سناتوآپ صلی الله علیہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ کی عمر40 سال تھی۔ حضرت خدیجہ  کی صورت نیک او رخدمت گزار بیوی ملی، ان کے ہم راہ بڑی پرسکون اور خوش گوار جوانی میں خانگی زندگی گزاری۔ ان سے تین بیٹے اور چاربیٹیاں ہوئیں، بیٹے چھوٹی عمر میں وفات پا گئے، باقی ان کی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں، جوانی کی زندگی میں جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک کام یاب انسان ، ایک کام یاب باپ، خاوند او رکام یاب تاجر کی زندگی گزاری، یہاں تک کہ چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی جوانی کی زندگی میں آج کے جوان کو جو پیغام اور اسوہ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ آج کا جوان سچائی، دیانت اور شرافت کا پیکر بن جائے اور اس کی خوبیوں کے معترف سب سے پہلے اس کے گھر والے ہوں، جن کے ہم راہ وہ دن رات گزارتا ہے، پھر اس کے رشتہ دار اس کی خوبیوں کے معترف ہوں اور آج کے نوجوان پر جب معاشی ذمہ داریاں آجائیں تو یہ کام یابی سے ان ذمہ داریوں کو نبھائے اور یہی خوبیاں اس کی شادی کا سبب بن جائیں اور اس کے بعد خاوند او رپھر باپ بننے کے بعد زندگی کے ہر مرحلے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے راہ نمائی حاصل کرتا رہے۔