نرمی، وسعت اور کشادہ دلی کی ضرور ت

نرمی، وسعت اور کشادہ دلی کی ضرور ت

محترم عبدالرشیدطلحہ نعمانی

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت ومشیت سے دنیا کانظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ایک شخص متبوعاوردوسرااس کے تابع ہے، ایک شخص محکوم اور دوسرا اس پر حاکم ہے،ایک شخص امیر اوردوسرا اس کا مطیع ہے۔ساتھ ہی اس فرقِ مراتب اور تفاوتِ احوا ل کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے لیے رزق وسیع کردیتا تو وہ ضرور زمین میں فساد پھیلاتے۔(الشوری:27)یعنی اگررب کائنات اپنے تمام بندوں کا رزق ایک جیساکر دیتے تو عین ممکن تھا کہ لوگ مال و دولت کے نشے میں چور ہو کربغاوت و سرکشی پر اترآتے اور زمین کو فتنہ وفسادسے بھردیتے، نیز جب کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا تو ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنابھی دشوارومحال ہوجاتا،مثلاً کوئی گندگی صاف کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا،کوئی سامان اٹھانے پر راضی نہ ہوتا،کوئی تعمیراتی کاموں میں محنت ومزدوری کے لیے آمادہ نہ ہوتا، یوں نظامِ عالَم میں جو بگاڑ پیدا ہو تا،اسے ہر عقل مند بہ آسانی سمجھ سکتاہے۔
مذکورہ آیت کے ذیل میں امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی (المتوفی:671ھ)فرماتے ہیں:”اگرچہ بندوں کی بہتری اور فائدے کے کام کرنا اللہ تعالیٰ پرواجب نہیں، ا س کے باوجود اللہ تعالیٰ کے اَفعال حکمتوں اور مَصلحتوں سے خالی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حال کو جانتا ہے کہ اگر ا س پر دنیا کا رزق وسیع کر دیا تو یہ وسعت بندے کے اعمال کو فاسد کر دے گی،اس لیے ا س پر رزق تنگ کر دینے میں اسی کی مصلحت اور بہتری ہے، لہٰذا کسی پر رزق تنگ کر دینے میں اس کی توہین مقصود نہیں اور نہ ہی کسی پر رزق کشادہ کر دینا اس کی فضیلت کا سبب ہے۔مزید فرماتے ہیں:”تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں،وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ اپنے کسی فعل پرجواب دِہ نہیں؛کیوں کہ وہ علی الاطلاق مالک ہے“۔(ملخص از تفسیر قرطبی،سورة الشوری، تحت الآیة: 27)
امام ابو نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق اصفہانی (المتوفی:430ھ)نے اپنی شہرہٴ آفاق کتاب حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء میں حضرت انس  سے ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ا ن کے ایمان کی بھلائی مال داری میں ہے،اگر میں انہیں فقیر کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کاایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی فقیری میں ہے،اگر میں انہیں مال دار بنا دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی صحت مند رہنے میں ہے،اگر میں انہیں بیمار کر دوں تو اس بنا پر ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی بیمار رہنے میں ہے،اگر میں انہیں صحت عطا کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔میں اپنے علم سے اپنے بندوں کے معاملات کا انتظام کرتا ہوں،بے شک میں علیم و خبیر ہوں“۔
مذکوہ تمہید کی روشنی میں یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ غربت و ثروت،امیری و فقیری،صحت وبیماری اور خوش حالی و تنگ معاشی کا تعلق تقسیم خداوندی سے ہے؛اس لیے بندوں کو چاہیے کہ وہ اس کی تقسیم پر راضی اور تقدیر پر خوش رہیں۔ہاں! دولت مند کا فریضہ ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی دولت میں سخاوت و فیاضی سے کام لے اورمحتاجوں کی حاجت بر آری کرے؛ جب کہ مفلس وغریب کوچاہیے کہ وہ قناعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔
ان دنوں انسانی تاریخ کے سب سے طویل ترین لاک ڈاؤن کے بعد ہرشخص معاشی بحران کا شکار اور مختلف پریشانیوں سے دوچارہے، جسے دیکھیے فکر امروز میں غلطاں اور اندیشہٴ فردا میں پیچاں نظر آرہا ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، ہم دردی سے پیش آئیں، ایک دوسرے کے دکھ درد کااحساس کریں۔ جو مکان دار ہے وہ اپنے کرایے دار کو قسطوں میں کرایہ ادا کرنے کی مہلت دے، جو قرض وصول کرنے والا ہے وہ اپنے مقروض کو چند ماہ تاخیر سے قرض لوٹانے کا موقع دے، جو مالک و عہدیدار ہے وہ اپنے ملازم کا حسب وسعت خیال رکھے۔ اگر ہم دنیاکی مختصر زندگی میں اس حوالے سے بھی خلق خدا کے کام آئیں گے تو کل آخرت کی ابدالآباد زندگی میں خالق کائنات ہمارے کام آئے گا اور ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا۔
آج کتنے اہل ثروت ایسے ہیں جو باہر تو خدمت خلق کے مختلف کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں؛مگر ان کے قریبی رشتے دار فاقہ وافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔آج کتنے تاجر ایسے ہیں جو دست سوال دراز کرنے والوں کے ساتھ تو دادو دہش کا معاملہ کرتے ہیں؛مگردکان پر آنے والے ایک غیرت مندغریب کے جذبات و احساسات سے ناواقف ہیں۔آج کتنے خوش حال ایسے ہیں جوخود تو تین وقت انواع و اقسام کی غذاؤں سے لذتِ کام و دہن کا سامان کررہے ہیں؛مگران کے گھر سے متصل ان کا عیال دار پڑوسی نان شبینہ کا محتاج ہے۔آج جہاں عمومی اعتبار سے خدمت خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں سرگرمی دکھانا ضروری ہے اتنی یا اس سے بدرجہا زیادہ اپنے گرد و پیش میں موجود،اپنی ذات سے وابستہ اور اپنی دکان و مکان میں برسرکارضرورت مندوں کی خبرگیری بھی ضروری ہے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص خود تو شکم سیر ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا رہے،وہ ایمان دار نہیں۔(مشکوة)
وسعت کرنے والے کے لیے خوش خبری
حضرت امام بخاری(المتوفی:256 ھ)نے اپنی صحیح کی کتاب البیوع میں ایک باب اس طرح قائم کیا ہے:خرید وفروخت کے وقت نرمی اور وسعت و فیاضی کے بیان میں۔اوراس باب میں ایک روایت معروف صحابیِ رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لے۔مطلب یہ ہے کہ ہر شخص، خواہ دکاندار ہو یا خریدار، اپنا معاملہ نرمی اورسنجیدگی کے ساتھ انجام دے، سختی، ترش روئی اوربد زبانی سے پیش نہ آئے، اسی طرح اپنا حق اور قرضہ وصول کرنے والا سختی نہ کرے، درشت لہجہ استعمال نہ کرے، نرمی اور سنجیدگی سے کہے۔اس طرح معاملہ کرنے پر خدا تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے حج اور عمرہ کیا۔(جامع صغیر)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم سے پہلے گذشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں؟ روح نے جواب دیاکہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مال دار لوگوں کو (جو ان کے مقروض ہوں)مہلت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی۔ (بخاری)
لوٹ پیچھے کی طرف
مشہورمغربی مصنف سٹین لی پول نے اپنی کتاب ”اسلام ان چائنا“میں مسلمان تاجروں کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیاہے: ”وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اورکبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ یہاں چین میں منصب قضا تک پہنچے اورحاکم بنے تو انہوں نے ظلم کیانہ کبھی طرف داری سے کام لیا۔وہ عزت والے تھے اورعزت کرتے تھے۔وہ متعصب نہ تھے؛بلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی تھی وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔وہ چینیوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔“
ایک طرف وابستگان اسلام کے یہ بلند اخلاق کہ اغیار بھی اعتراف پر مجبوراور دوسری طرف ہماری حالت زار۔آج کے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاق وکردار،حسن معاملت اور نرمی و ملاطفت کے آثار مٹتے جارہے ہیں؛جس کی بنیادی وجہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسوا اورذلیل ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھا تاجارہا ہے۔ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرتے ہیں جوانہوں نے ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے،حالاں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم دوسروں کی دیکھادیکھی کام نہ کرو کہ یوں کہنے لگو! اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں تو ہم بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں اور اگر لوگ ہمارے اوپر ظلم کریں تو ہم بھی ان پر ظلم کریں؛ بلکہ تم اپنے آپ کو اس بات پر قائم رکھو کہ اگر لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرواور اگر لوگ برا سلوک کریں تب بھی تم ظلم نہ کرو۔(ترمذی)
ہم کیاکرسکتے ہیں؟
آج صورت شمع جلنے اور دوسروں کا گھر روشن کرنے والے نایاب نہ سہی، کم یاب ضرورہیں،انسانیت کا وقار باقی رکھنے اور انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والوں کا فقدان ہوتاجارہا ہے، کسی کو دکھ اور تکلیف کے عالم میں دیکھ کر تڑپ اٹھنے اورمقدور بھر سعی وکوشش کے ذریعہ مجبوروں کے دکھوں کا مداوا کرنے والے کم ہوتے جارہے ہیں،غریبوں کی حمایت، درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کو مطمح نظر رکھنے والے کروڑوں میں ہزار بھی نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بندگان خدا کے ساتھ فراخی و سہولت کا معاملہ کرے،تجّار اپنی تجارت میں، قرض خواہ قرض طلبی میں اوردیگر حقوق کا تقاضا کرنے والے اپنے تقاضے میں نرمی سے کام لیں۔اس وقت کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں،مثلاًکسی کوراشن کی ضرورت ہے اسے راشن دے دیا، گھر میں سامان کی ضرورت ہے اسے بر وقت عطا کردیا،کوئی ضعیف و ناتواں شخص پھل فروخت کررہاہے،اس سے پھل خریدلیے،کوئی دوائی کے لیے پریشان ہے اس کی مدد کردی،کوئی قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس کے حق میں سفارش کردی،کوئی میت کی تجہیز وتکفین کے لیے سرگرداں ہے،اس کی معاونت کردی۔ وغیرہ
اخیر میں دعا ہے کہ حق تعالی ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق محتاجوں کی امداد کے لیے نتیجہ خیزکوشش کرنے والا بنائے۔آمین!