نجات کی راہ توبہ

نجات کی راہ توبہ

مولانا اقبال احمد ندوی

روایات میں آتا ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم طلب مغفرت کے سلسلہ میں کبھی کبھی یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے:
”اے الله! اگر تو معاف فرمائے تو سارے گناہ معاف فرما دے، بھلا تراکون ایسا بند ہ ہو گا جس نے گناہ نہ کیے ہوں؟“ (ترمذی)

اسی مفہوم میں عربی کا ایک شعر ہے:
”کون ایسا شخص ہے جس نے کبھی کوئی برائی نہ کی ہو اور جس کے پاس صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوں؟“

حقیقت یہی ہے کہ کوئی اس بات کا دعوی نہیں کرسکتا،:”ماساء قط“ کہ اس نے کبھی کوئی برائی نہیں کی ہے اور ”لہ الحسنی فقط“کہ اس کے پاس صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہیں، کیوں کہ نفس اور شیطان انسان کے دو سب سے بڑے دشمن ہیں، وہ ہر وقت انسان کے ساتھ لگے ہوئے، بلکہ اس کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہیں، انسانوں کو گناہ پر اکسانا ان کا وتیرہ اور غلط کاموں کی ترغیب دینا ان کا شعار ہے، اسی حقیقت کو حضرت یوسف علیہ الصلوٰة والسلام کی زبانی قرآن نے یوں بیان کیا ہے:

”نفس تو (ہر ایک کا) بری ہی بات بتلاتا ہے ،بجز اس ( نفس) کے جس پرمیرا رب رحم کرے۔“ (سورہ یوسف:53)

دوسری جگہ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
”اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں، ان میں سے (شرعی) حلال پاک چیزوں کو کھاؤ ( برتو) اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، فی الواقع وہ تمہارا صریح دشمن ہے، وہ تو تم کو ان ہی باتوں کی تعلیم کرے گا جو کہ ( شرعاً) بری او رگندی ہیں اور (یہ بھی تعلیم کرے گا) کہ الله تعالیٰ کے ذمہ وہ باتیں لگاؤ جن کی تم سند بھی نہیں رکھتے۔“ (سورہ بقرہ:169-168)

شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، اس نے انسانوں سے دشمنی گانٹھنے، انہیں گم راہ کرنے او رنیکی کی شاہ راہ سے ہٹا کر گناہوں کی دلدل میں ڈالنے کا بیڑہ اٹھارکھا ہے او رپھر اس کی دیدہ دلیری کی انتہا یہ کہ اس کام کے لیے اس نے قیامت تک کے لیے الله تعالیٰ سے مہلت مانگ رکھی ہے، دوسری طرف الله کی شان بے نیازی کا یہ عالم کہ اس نے اس کی مانگ پوری بھی کر دی ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے:
”وہ (شیطان) کہنے لگا کہ مجھ کو مہلت دیجیے قیامت کے دن تک ( الله تعالیٰ نے ) فرمایا کہ تجھ کو مہلت دی گئی۔ وہ کہنے لگا، بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گم راہ کیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا، پھر ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی او ران کی دا ہنی جانب سے بھی او ران کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں اکثروں کو احسان ماننے والا نہ پائیں گے۔“ (سورہٴ اعراف:14 تا17)

اس سے معلوم ہوا کہ کوئی انسان خطاؤں سے خالی نہیں ہے، خطا اور لغزش انسانی سرشت میں داخل ہے۔ ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ہر آدمی خطا کار ہے ( کوئی ایسا نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش سرزد نہ ہو ) اور خطا کاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو ( خطا وقصور کے بعد) توبہ کریں اور الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں۔“ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)

اسی لیے الله تعالیٰ انسانوں کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اور برائیوں سے پھیر کر نیکیوں کی طرف لے جانے کے لیے ہر زمانے میں اپنے رسول اور پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور کتابیں نازل کرتا رہا ہے، پھر بھی انسانوں سے نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر اگر گناہ ہو جائیں تو ان کی مغفرت اور صفائی کے لیے الله تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے انسانوں کو ایک عظیم سوغات اور سدا بہار تحفہ عطا کیا ہے اور وہ ہے ”توبہ“… توبہ لکھنے، بولنے اور سننے میں ایک بہت چھوٹا سا لفظ ہے، لیکن اپنے اندر معانی ومفاہیم کی ایک وسیع اور عظیم تر کائنات رکھنے والا ہے۔ انسان چاہے جس قدر بھی گناہ کر لے، حتی کہ کفر اور شرک کا بھی مرتکب ہو ، لیکن جب وہ الله کی طرف رجوع کرتا ہے، اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو الله تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف فرمادیتے ہیں ،چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں او رگناہ کثرت میں ڈھیر لگتے لگتے اگر آسمان تک بھی پہنچ جائیں تو الله تعالیٰ انہیں بھی معاف فرما دیتے ہیں او رکثرت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔

حدیث قدسی ہے:
”توبہ کرنے سے انسان گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے، جیسے اس نے گناہ کیے ہی نہ ہوں اور آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔“ (جامع ترمذی)

”توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔“(سنن ابن ماجہ وبیہقی)

توبہ کرنے والا نہ صرف یہ کہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے، بلکہ الله تعالیٰ اس سے اتنا خوش ہوتے ہیں جتنا کہ وہ شخص اپنی گم شدہ سواری کے مل جانے سے خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل بیابان میں ہو اور سواری پر کھانے پینے کا سامان لدا ہو اور وہ کہیں گم ہو جائے او رمالک کو اس کے ملنے کی طرف سے مایوسی ہو جائے او رپھر سواری اچانک مل جائے اور وہ مارے خوشی کے غلطی سے جلدی میں کہہ اٹھے:”اے الله! تو میرا بندہ ہے اورمیں تیرا رب ہوں۔“ (صحیح مسلم)

یہ الله تعالیٰ کی شان کریمی ہی تو ہے کہ وہ بندوں کو خود ہی توبہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں او رمعافی کا یقین بھی دلاتے ہیں۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
” بندہ جب اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے الله تعالیٰ کے سامنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں ۔“ (متفق علیہ)

”میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو معاف کرتا ہوں، لہٰذا تم مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو، میں معاف کر دوں گا۔“ (صحیح مسلم)

رب کریم کی شان کریمی کا یہ ظہور شب وروز ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری رہے گا جب تک کہ آفتاب بجائے مشرق کے مغرب سے نہ نکلے، جو قیامت کی نشانی ہے یا بندہ پر غرغرہ کی کیفیت نہ طاری ہو جائے۔

”الله تعالیٰ رات میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے کہ دن کا خطا کار توبہ کر لے اور دن میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے کہ رات کاخطاکارتوبہ کر لے۔“ (صحیح مسلم)

”الله تعالیٰ بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک کہ اس پر غرغرہ والی کیفیت نہ طاری ہو جائے۔“ (ترمذی، ابن ماجہ)

الله تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع او را ن کے غضب پر غالب ہے۔ شیطان نے بندوں کو گم راہ کرنے کا الله تعالیٰ سے وعدہ، بلکہ اس کام کا ٹھیکہ لیا، اس کے مقابلہ میں رحمت الہٰی اور غیرت خداوندی نے بھی جوش میں آکر فرمایا: ”جب تک بندے مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں گے، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔“ (مسند احمد بن حنبل)

استغفار سے الله تعالیٰ نہ صرف گناہوں کی مغفرت فرماتے ہیں، بلکہ تنگی سے فراخی نصیب فرماتے ہیں، غموں سے نجات دیتے ہیں اور بے سان وگمان رزق عطا فرماتے ہیں۔ (مسند احمد، سنن ابی داود، سنن ابن ماجہ)

قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا: ”میں نے (ان سے کہا) تم اپنے پروردگار سے گناہ بخشواؤ، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے، کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا او رتمہارے مال واولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغ لگا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بہا دے گا۔“ (سورہٴ نوح:12-10)

حق تعالی کی رحمت تو موقع او ربہانہ کی تلاش میں رہتی ہے، جہاں تھوڑا سا بہانہ ملا وہیں لطف وکرم کی برسات شروع ہو گئی:
رحمت حق بہانہ می جوید

رحمت حق واقعی بہانہ ڈھونڈتی ہے او ربندگان ِ خدا سے واشگاف انداز میں کہتی ہے :
”آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے(گناہ کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو، بالیقین خدا تعالیٰ تمام(گزشتہ) گناہوں کو معاف فرما دے گا، واقعی وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت والا ہے اور تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کی فرماں برداری کرو،قبل اس کے کہ تم پر عذاب (الہی) واقع ہونے لگے اورپھر ( اس وقت کسی کی طرف سے) تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے۔“ (سورہ غافر:54-53)

یہ رحمت حق ہی ہے جو بندہ کی ڈھارس بندھاتی او راس کو بڑے پیار سے اپنی طر ف بلاتی ہے:”باز آ… بازآ…“
        ایں در گہ مادر گہ نومیدی نیست
        صد بار اگر توبہ شکستی بازآ

لیکن توبہ اور استغفار صرف زبانی کافی نہیں ہے، زبان سے الله! توبہ !الله توبہ! کہنے سے توبہ نہیں ہوتی ہے، بلکہ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ گناہوں پر شرمندگی ہو، خدا کی بڑائی کا خیال کرکے گناہ پر نادم اور پشیمان ہو اور آئندہ کے لیے گناہوں سے بچنے کا مضبوط ارادہ کرے، حقوق الله تعالیٰ اور حقوق العباد میں سے جس قدر ضائع کیے ہوں، سب ادا کرے، تب پھر الله کی رحمت کا امیدوار ورخواست گار ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ توبہ سے دل کو سکون اور روح کو چین نصیب ہوتاہے، کیوں کہ بندہ جب سچی توبہ کرتا اور اطاعت الہٰی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو اس کا دل پرسکون اور نفس مطمئن ہو جاتا ہے او راس گناہ کا احساس زائل ہوجاتا ہے، جس سے اس کے دل میں بے چینی اور شخصیت میں اضطراب پیدا ہوا تھا۔ بقول شاعر #
        اس دل پہ خدا کی رحمت ہوتی ہے
        جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے
        اک بار خطا ہو جاتی ہے
        سو بار ندامت ہوتی ہے