نام ونمود اور ریا کاری کی مذمت

نام ونمود اور ریا کاری کی مذمت

مولانا محمد راشد شفیع

انسان کی عبادت اور اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے، اگر نیت خالص ہے تو اعمال الله کے ہاں قبول ہوتے ہیں، اگر نیت میں کھوٹ ہے یا ریا کاری یا نام ونمود مقصود ہے تو ایسے اعمال بجائے قبولیت کے انسان کے لیے موجب ِ وبال بنیں گے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں: پہلی شرط یہ ہے کہ یہ عمل خالص ا لله کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرائط میں سے کوئی بھی ایک شرط نہ پائی گئی تو وہ عمل قبول نہیں ہو گا اور ریا کاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل الله کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا اور ریا کاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹا عمل بھی الله کے ہاں پہاڑ کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ الله رب العزت نے ریا کاری کی مذمت مختلف آیات میں بیان فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد ہے : ﴿فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاء رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہِ أَحَدا﴾․(الکہف:110)

”پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔“

دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿ وَالَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَن یَکُنِ الشَّیْْطَانُ لَہُ قَرِیْناً فَسَاء قَرِیْنا﴾․ (النساء:38)

”جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور الله تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے او رجس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بد ترین ساتھی ہے۔“

ایک اور مقام پر الله تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالأذَی کَالَّذِیْ یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِر﴾․(البقرة:264)

اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر او رایذاپہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ الله تعالیٰ پر ایمان رکھے، نہ قیامت پر۔“

ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریا کار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ الله سے اس کو اجر کی توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہو گی، اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریا کار کو خالق کے بجائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہر گز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا۔ احادیث ِ مبارکہ میں بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ریا کاری کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف ناک ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں! کیوں نہیں؟! فرمایا: وہ شرک ِ خفی ہے کہ آدمی کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔(سنن ابن ماجہ)

دوسری حدیث میں ہے: ”جب الله تعالیٰ تمام اگلوں او رپچھلوں کو قیامت کے روز، جس کی آمد میں کوئی شک نہیں، جمع کرے گا ، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا: ”جس نے الله کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر الله سے طلب کرے، کیوں کہ الله تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔“ (سنن الترمذی)

ایک اور مقام پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا الله تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا الله تعالیٰ اسے رسوا کر دے گا۔“ (بخاری)

الله تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کرے۔