میرے عظیم بھائی حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدؒ

میرے عظیم بھائی حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدؒ

خطاب: حضرت مولانا عبیدالله خالدصاحب حفظہ اللہ ورعاہ
ضبط وترتیب:ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ خان ڈیروی

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُون،وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ﴾․ (سورة البقرہ، آیت:156-154) صدق الله مولانا العظیم․

میرے بھائیو، بزرگو اور دوستو! آج بہت طویل غیر حاضری کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ، 18/اگست کو میں بیمار ہوا اور مستقل صاحب فراش رہا ، اٹھنا، بیٹھنا، کروٹ لینا بھی میرے بس میں نہیں تھا، آج حاضری اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ 10/اکتوبربروز ہفتہ مغرب کے بعد ہمارے عظیم اور قابل فخر بھائی، شہید ، علامہ مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب نوّرالله مرقدہ کو اسی تھانے کی حدود میں شہید کر دیا گیا، آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ وہ آدمی جو دو مہینے سے بستر پر پڑا ہو، اس پر جب یہ پہاڑ ٹوٹا ہو گا تو اس کا کیا حال ہوا ہو گا؛ میرا تأثر ہے اورجو کچھ میں نے دیکھا اورسمجھا، کہ جیسا پہاڑ مجھ پر ٹوٹا ایسا ہی پہاڑ پوری اُمت پر ٹوٹا۔ ہر شخص حیران ہے، پریشان ہے، سوچ رہا ہے کہ یا خدا جو اسلامی مملکت ہمارے آباء واجداد نے اس خطے پر قائم کی تھی کیا ہم اسی میں رہتے ہیں یا خدانخواستہ ہم کسی جنگل میں رہتے ہیں؟! کسی کی جان، مال، عزت، آبرو، کوئی چیز محفوظ نہیں، حضرت مولانا شہید نوّرالله مرقدہ بڑے صاحب عزم آدمی تھے، وہ یقینا مرد مجاہد تھے، ہم لوگوں نے( ان کی خواہش نہیں تھی) بہت کوشش کی کہ اسباب کے درجے میں انہیں کوئی حفاظتی دستہ فراہم کر دیا جائے، لیکن ہم سب کی اور اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے جو بے حس ہیں، باوجود ہماری کوششوں کے آخر وقت تک ایک پولیس والا بھی نہیں ملا۔

یہاں پولیس والے بیٹھے ہوئے ہیں، ہمیں ان کی کیا ضرورت ہے؟ جن کو ضرورت تھی، شدید ضرورت تھی، انتہائی ضرورت تھی، وہ صرف پاکستان کے نہیں، پوری اُمت مسلمہ کا اثاثہ تھے، ان کو حفاظت کی ضرورت تھی، ان کا مرتبہ معمولی مرتبہ نہیں تھا، دنیاوی اعتبار سے بھی معمولی نہیں تھا، وہ پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ میٹنگیں کرتے تھے، اور بلا خوف کرتے تھے اور انہوں نے ان لوگوں کو آمادہ کر لیا تھا، دلیل کی طاقت سے، اپنے اخلاق سے، اپنے علم سے کہ اس دھرتی کے اوپر حضرت صدیق اکبر کی شان میں گستاخی نہیں ہو گی، اس سر زمین پر فاروق اعظم کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرے گا، اس دھرتی پر اوراس سر زمین پر حضرت عثمان ذوالنورین کی گستاخی کی کسی کو جرات نہیں ہوگی اور اسی طرح اس دھرتی پر حضرت علی کرم الله وجہہ کی شان میں کسی کو گستاخی کی جرأت نہیں ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی شان میں کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں ہوگی، حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی شان میں کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں ہوگی، حضرت ابو سفیان رضی الله عنہ کی شان میں کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں ہوگی۔ تمام صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کی ناموس کی حفاظت کی جائے گی، میرے اس ملک کے اندر ان کی ناموس کی حفاظت نہیں، تومجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، اس ملک کے وجود کا کوئی مقصد نہیں، ملک تواسی لیے حاصل کیا گیا تھا، پاکستان کا مطلب کیا لا إلا إلا الله، میرے دوستو! ہمارے ملک میں پہلے ایک طویل دور گزرا ہے کہ جب کوئی عالم حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی شکایت کرتا کہ فلاں صاحب یافلاں فرقہ خلفائے راشدین کی شان میں گستاخی کرتا ہے ، وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی شان میں گستاخی کرتا ہے، وہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، تو انتظام وانصرام والے بلا جھجک کہتے تھے، کہ یہ سب مولویوں کے مسئلے ہیں، یہ سب فرقہ واریت ہے، آپ لوگ آپس میں مل جل کر رہیں، فرقہ واریت اختیار نہ کریں، لیکن حضرت مولانا شہید نوّرالله مرقدہ نے ان انتظام وانصرام والوں یعنی سویلین اور عسکری قیادت دونوں کے سامنے سب کو لاکے بٹھا دیا، باقاعدہ نکات لکھے گئے، اس میں ہر فرقہ موجود تھا، اس کی قیادت موجود تھی اور ملک کی عسکری اور سویلین قیادت بھی موجود تھی، جب اس کو پڑھا گیا، اس میں لکھا تھاکہ خلفائے راشدین کی شان میں کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں ہوگی او راہل بیت کی شان میں کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں ہوگی، تو ایک فرقہ اٹھا۔ اس نے کہا کہ جی ہمیں خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کے حوالے سے تحفظات ہیں، ہم اسے قبول نہیں کرتے۔

تو عسکری قیادت سیدھی ہو کے بیٹھ گئی، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ صحابہ کو نہیں مانتے؟ اب اس قیادت کے سامنے براہ راست وہ بات آرہی ہے جس کو 72 سال سے ہمارے علماء کہہ رہے ہیں اور وہاں یہ بات کہی گئی او راعلی قیادت کی طرف سے کہی گئی کہ اگر کسی کے منھ سے خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخی ہوئی تو ہم وہ زبانیں کھینچ لیں گے۔

میرے دوستو! یہ جرم تھا میرے عظیم بھائی نوّرالله مرقدہ کا، بڑی حکمت علمی سے وہ اس بات کو اس مقام پر لے آئے، دستخط کروائے سب سے، اور اسی میٹنگ کے اندر ان حضرات نے کہا یہ ضابطہٴ اخلاق نہیں بن رہا ، اخبارات نے جو رپورٹنگ کی ہے وہ ضابطہ اخلاق کی کی ہے، نہیں، یہ ایکٹ بنے گا، نیشنل اسمبلی سے منظور ہو گا، قانون بنے گا، اسی میٹنگ کے اندر اسپیکر قومی اسمبلی کو بلایا گیا اور سارا طریقہ کار ان سے طے کیا گیا، اسمبلی سے منظور کروانے کا۔

میرے دوستو! حضرت نوّرالله مرقدہ کا یہ جرم تھا، وہ اتنے سچے آدمی تھے، اتنے کھلے دل کے آدمی تھے اور یہ چیز انہیں اپنے آباء واجداد سے اور بالخصوص ہمارے والد ماجد نورالله مرقدہ سے ورثے میں ملی تھی، وہ نسبت منتقل ہوئی تھی، ہمارے حضرت آپ سب جانتے ہیں کہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے تاحیات صدر رہے، وہ انتخابی ادارہ ہے، وہاں انتخاب ہوتا ہے، لیکن تمام فرقوں نے او رتمام مسالک کے قائدین نے متفقہ طور پر یہ قرار داد منظور کی کہ حضرت انتخابی نظام سے مستثنیٰ ہیں، وہ تا حیات ہمارے قائد ہیں، وہ جو کہیں گے ہم اسے دل وجان سے قبول کریں گے، یہ حضرت کی شخصیت تھی۔

میرے دوستو! اخلاقیات اپنی جگہ، میرے بھائی حضرت مولانا شہید نوّرالله مرقدہ میں اخلاق تھے، مفتی منیب الرحمن صاحب کو رات کو فون کر رہے ہیں، مفتی صاحب میں صبح آپ کے پاس آرہا ہوں، آپ کے ساتھ ناشتہ کروں گا۔

عقیدہ اپنی جگہ پر، اخلاق اپنی جگہ پر۔ اس ملک کے اندر آپ جانتے ہیں کہ ہماری توپیں آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف چلتی ہیں، مسجد میں اگر کوئی دیوبندی داخل ہو جائے تو بریلوی حضرات بعد میں اس مسجد کو دھویا کرتے تھے کہ مسجد ناپاک ہو گئی، حضرت ڈاکٹر صاحب نوّرالله مرقدہ نے توپ کا رخ صرف ایک طرف کر دیا، آج آپ تقریریں سنیں، بیانات سنیں، تو آپ کو یہ سب کچھ سمجھ میں آجائے گا، دشمن کو یہ گوارہ نہیں۔

حضرت مولانا بہت مہربان رب کی بارگاہ میں ہیں، الله تعالیٰ کو ان کی ادائیں پسند آگئیں، الله تعالیٰ نے ان کی کاوشوں کو قبول فرمالیا اور الله تعالیٰ نے ان کو وہ مقام عطا فرمایا جو ایرے غیرے کو نہیں ملتا، جو ہر کس وناکس کو نہیں ملتا۔

میں نے اپنے ان کانوں سے کئی دفعہ اپنے والد ماجد نوّرالله مرقدہ کے یہ جملے سنے ہیں کہ میری شدید خواہش ہے، میں یہ چاہتا ہوں، میں اس کی دعا کرتا ہوں کہ اے الله! مجھے ایسی شہادت عطا فرما کہ میرا سر اِدھر پڑا ہو، دھڑ اُدھر پڑا ہو، ٹانگیں اِدھر پڑی ہوں، میں اس حال میں اے الله آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔

پہلے مولانا کے ڈرائیور پر فائر ہوا او راس کے چند لمحوں بعد مولانا پر فائز ہوا ، وہ چند لمحے جو فصل ہیں ڈرائیور اور مولانا کی شہادت کے درمیان میں میں نے وہ لمحہ دیکھا نہیں، لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ اس میں یقینا انہوں نے کہا ہو گا فزت ورب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کام یاب ہو گیا، صحابہ کے سینوں پہ تیر لگتے تھے، وہ کہتے تھے، فزت ورب الکعبہ،رب کعبہ کی قسم میں کام یاب ہو گیا۔

میرے دوستو! شہادت معمولی مرتبہ نہیں، وہ معمولی مقام نہیں ہے۔ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے کتنی بار فرمایا اے الله! میں آپ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں:”عن أبي ھریرة رضي الله عنہ قال: أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ لوددت أني أقاتل في سبیل الله فأقتل ثم أحیا ثم أقتل ثم أحیاثم أقتل․“ الجامع الصحیح للبخاري، کتاب التمنی، باب ماجاء في التمنی ومن تمنی الشھادة، رقم الحدیث:7226،الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإمارة، باب فضل الجھاد،رقم:4864)

میرے دوستو! یہ رتبے ہر کس وناکس کو نہیں ملتے ، وہ بڑے عظیم مقام پر پہنچے ہوئے تھے، اب ہماری ذمہ دار ی یہ ہے کہ ہم سنجیدہ ہو جائیں، باشعور ہوں، صرف دال روٹی کے چکر میں مصروف نہ رہیں، اپنے عقیدے کو سمجھیں، باہمی ہم آہنگی اختیار کریں او رکفر ، شرک اور رفض کے خلاف ڈٹ جائیں۔

میرے دوستو! یاد رکھنا! اگر ہم باشعور نہ ہوئے تو ہم اپنے شہداء کے وفادار نہیں ہوں گے، اگر ان سے وفاداری اختیار کرنی ہے، تو ہمیں اس کا اہتمام کرنا ہو گا، اس کی فکر کرنی ہو گی کہ الله تعالیٰ نے جو مرتبہ اورمقام انہیں عطا فرمایا اس میں دن بہ دن، لمحہ بہ لمحہ، ان کی راحتوں میں اضافہ ہو، وہ اسی صورت میں ہو گا جب ہم ان کی فکر کو لے کر چلیں گے۔

میرے دوستو! الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ یہ بھی یادرکھیں کہ انار کا درخت، آم کا درخت ، سیب کا درخت، انگو رکی بیلیں اورفصلیں، گندم کی فصل، چاول کی فصل، دیگر فصلیں اورپھل پھول میں زرخیزی، شادابی، مٹھاس، خوش بو، پانی سے آتی ہے۔ پانی اگر نہ ہو تو سیب کے باغات سوکھ جاتے ہیں۔ پانی نہ ہو تو انار اور آم کے باغات بھی سوکھ جاتے ہیں، باغیچے اجڑ جاتے ہیں، خوب یاد رکھنا !جب اس کرہ ارضی اور زمین پر الله کے لیے شہید کا خون گرتا ہے، اس کے قطرے ٹپکتے ہیں اور وہ اس میں جذب ہوتے ہیں تو اسلام طاقت ور ہوتا ہے، اسلام سر سبز وشاداب ہوتا ہے، اسلام میں خوش بو پیدا ہوتی ہے، اسلام ترقی کرتا ہے۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ عادل خان کو شہید کر دیا تو معاملہ ختم ہو گیا، نہیں، ہزاروں لاکھوں عادل خان پیدا ہوچکے ہیں، ہر گھر میں عادل خان پیدا ہوچکا ہے، عورتیں شہادت کے جذبے سے تڑپ رہی ہیں۔

میرے دوستو! الله تعالیٰ ہم سب کو شہادت کا مرتبہ عطا فرمائے، الله تعالیٰ ہم سب کو اپنے شہداء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔

الله تعالیٰ حضرت شہید نوّرالله مرقدہ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے، انہیں امام الانبیاء، سید الرسل صلی الله علیہ وسلم کی صحبت عطا فرمائے، انہیں خلفائے راشدین کی صحبت عطا فرمائے، انہیں صحابہ کرام جو شہید ہوئے اوردیگر سب کی صحبتیں عطا فرمائے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین․