مہمان کے فضائل واحکام

مہمان کے فضائل واحکام

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾․(سورة البقرة، آیت:208)․

وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ﴾․ (سورہ آل عمران،آیت:19)

وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․“(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․ رقم الحدیث:9، الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وأي أمورہ أفضل، رقم الحدیث:162 و سنن الترمذي، کتاب الإیمان، باب ماجاء أن المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، رقم الحدیث:2627، وصحیح ابن حبان، کتاب الإیمان، باب فرض الإیمان، رقم الحدیث:180) أو کما قال علیہ الصلوٰة والسلام․ صدق الله مولانا العظیم وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بزرگو، بھائیو اور دوستو! الله تعالیٰ کا فرمان اور ارشاد ہے : اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقش ہائے قدم کی پیروی اور اتباع مت کرو، اس لیے کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

ایسے ہی الله تعالیٰ نے فرمایا: کہ بے شک دین تو الله تعالیٰ کے ہاں سب سے بہترین اسلام ہے۔

سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․“ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

الله تعالیٰ کا ارشاد، سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان یہ سب اسلام کے حوالے سے ہیں۔

چناں چہ اسلام کے معنی ہیں ماننا، الاسلام، گردن نہا دن ، اسلام کے معنی ہیں گردن جھکانا، تسلیم کرنا، مان لینا، طاعت اختیار کر لینے کا نام اسلام ہے، اسلام کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں ہے کہ ہماری عقل میں آئے گا تو ہم کریں گے،ہماری سمجھ میں نہیں آئے گا توہم نہیں کریں گے، عقل کا دخل نہیں ہے اس میں۔ اس لیے کہ یہ معاملہ الله تعالیٰ کاہے اور ظاہر ہے کہ ہم الله کی مخلوق ہیں تو آدمی کا یہ کہنا کہ میری سمجھ میں آئے گا تو میں کروں گا، یہ بات سو فیصد غلط ہے، اس لیے کہ عقل قدم قدم پر ناکام ہوتی ہے، عقل قدم قدم پر ذلیل اور رسوا ہوتی ہے، خاندان کے بڑے بڑے سمجھ دار لوگ ، بڑے عقل والے،جن کے بارے میں سب یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے تجربہ کار، بڑے عقل مند، بڑے سمجھ دار ہیں، وہ سب اپنی اپنی عقل لگا کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ دکان خریدنی ہے، یہاں نفع ہو گا، لیکن ہمارا آپ کا، صبح شام کا تجربہ ہے کہ سو فیصد ناکامی ہو جاتی ہے، دکان نہیں چلتی،کاروبارنہیں چلتا، عقل فیل ہو جاتی ہے، عقل تو اتنی ناقص ہے کہ ہم اور آپ اس کا تصور نہیں کرسکتے، صبح کی بات شام کو غلط اور شام کی بات کل صبح کو غلط اور اس ہفتے کی بات اگلے ہفتے غلط، اس مہینے کی بات اگلے مہینے غلط ، یہ صبح شام ہوتا ہے۔

بڑے بڑے سائنس دان ایک تھیوری اور ایک ایجاد کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ سب سے بہترین ہے، لیکن پانچ سال بعد کہتے ہیں کہ نہیں وہ بات بالکل غلط تھی تو عقل کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ۔معیار وحی ہے، معیار الله تعالیٰ کا حکم ہے،جس میں کسی قسم کا کوئی ردوبدل نہیں، جس میں کوئی تبدیلی نہیں،جو ایک ہزار سال پہلے بھی او رایک ہزار سال بعد بھی اپنی سچائی کے اعتبار سے، اپنی صداقت کے اعتبار سے، اپنے حق ہونے کے اعتبار سے بالکل کامل او رمکمل ہے، اسی کا نام اسلام ہے، اسلام کی تمام تر تعلیمات کامل ہیں، کوئی تعلیم بھی ایسی نہیں ہے جو ناقص ہو، نامکمل ہو، غلط ہو، ایسا نہیں ہو سکتا، ہر چیز مکمل ہے او ربڑی عجیب بات ہے کہ آج دنیا کی ناکام قوموں کا جو تھوکا ہوا ہے اسے بیچارہ مسلمان چاٹ رہا ہے، جس کو انہوں نے تھوک دیا جس میں وہ ناکام ہو گئے۔

آپ یورپ تشریف لے جائیں، وہاں جاکے دیکھیں ، اس لیے کہ ان کے ہاں تو بس دنیا ہے، اس کے علاوہ تو کچھ ہے نہیں، ان کے ہاں آخرت کا تصور نہیں ہے، ان کے ہاں تو جو کچھ ہے وہ صرف دنیا ہے، دن رات اسی کو کمانا ہے، اسی کو حاصل کرنا ہے، اسی میں ترقی کرنی ہے، آخرت کا ، مرنے کے بعد کی زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے ،چناں چہ جیسے حیوان اورجانور زندگی گزارتے ہیں، بالکل اسی طرح سے زندگی گزارتے ہیں اور جانوروں کی زندگی کیا ہے؟ کھانا، کھانے کے لیے بھاگنا ،دوڑنا، محنت کرنا، کوشش کرنا، کھانے کی چیزیں حاصل کر لینا، انہیں کھا لینا اور زندگی گزارنے کے جتنے اسباب ہیں انہیں حاصل کرنا، ان کی تگ ودو کرنا، کوشش کرنا، اس کے علاوہ اورکچھ نہیں، چناں چہ انہوں نے اس کے لیے بہت کوشش کی، اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسباب ، سامان ، اشیاء اور چیزیں ترقی کر رہی ہیں، انسان تنزل اختیار کر رہا ہے، چیزوں نے تو بڑی ترقی کی، لوہے پر انسان نے محنت کی، وہ ہوا میں اڑ رہا ہے، لکڑی پر محنت کی وہ سمندروں میں تیر رہی ہے اور بے شمار چیزیں ہیں، لیکن جو بیچارہ انسان ہے، جو اس کائنات کا، اس دنیا کا دولہا ہے، جس کے لیے الله تعالیٰ نے یہ کائنات اور یہ دنیا بنائی ہے، یہ سورج، تارے، سارے اسباب سب الله تعالیٰ نے اس انسان کے لیے بنائے ہیں، لیکن اس انسان کو الله نے ان چیزوں کے لیے نہیں بنایا، انسان کو الله تعالیٰ نے اپنے لیے بنایا ہے کہ یہ میری مانیں، میری اطاعت کریں، اسی کا نام اسلام ہے۔ وہاں دنیا، مال، ترقی سب موجود ہے ، لیکن بیچارہ انسان نہیں ہے، کہیں پر، دنیا کو وہ دھوکا دیتے ہیں ، انسانیت کا دھوکا دیتے ہیں، حقوق نسواں کا دھوکا دیتے ہیں، آپ گئے نہیں ہیں، اس لیے پتہ نہیں ہے، میں گیا ہوں ، بار بار گیا ہوں، بہت اندر تک اتر کر میں نے ان کودیکھا ہے، میرا تجزیہ یہ ہے کہ جنگل کے اندر ایک کتا اور کتیا، جنگل کے اندر رہنے والے جانوروں میں نر او رمادہ ، شاید ان میں بھی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں، یورپ کے رہنے والے کفار اورمشرکین کے اندر وہ اخلاقیات بھی نہیں، نہ باپ کا تصور ہے، نہ ماں کا تصور ہے، نہ بیوی کا تصور ہے ،نہ بیٹے کا تصور ہے، نہ بیٹی کا تصور ہے اور یہ ساری چیزیں ماں باپ کا احترام ، بیوی، اولاد کے حقوق کہاں سے آتی ہیں؟ یہ الله سے آتی ہیں، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم بتاتے ہیں۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ اس دنیا کے اندر تمہیں بہت بڑا بن کے رہنا ہے، لیکن وہ بڑائی اسباب اورسامان سے نہیں آتی، وہ ایمان سے،اسلام سے آتی ہے، وہ اخلاق سے آتی ہے، سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بڑا انسان نہ اس کائنات میں پہلے کوئی آیا ہے نہ قیامت تک کوئی آ سکتاہے، سب سے بڑے انسان ہیں، آپ مجھے بتائیں کہ کیا ان کے پاس دنیوی اسباب تھے؟ کچھ بھی نہیں ہے، اتنا بھی نہیں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جب اس دنیا سے تشریف لے گئے تو اس وقت گھر والوں کے لیے ایک یہودی سے جو خریدا اور اس کے بدلے اپنی زرہ بطور رہن اس کے پاس رکھوائی ہوئی تھی۔ (عن ابن عباس رضي الله عنہما أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم توفي وإن درعہ مرھونة عند یہودي بثلاثین صاعا شعیراً طعاما أخذھا لأھلہ․“ (السنن الکبری للبیہقي، کتاب الرہن، باب جواز الرہن، رقم الحدیث: 11523 ، والمجعم الکبیر للطبراني، أحادیث عبدالله بن عباس، رقم الحدیث:11697،و مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:2724)

یہ کس کا گھر ہے؟ یہ کائنات کے سب سے بڑے انسان کا گھر ہے ۔یہ کائنات کے سب سے بڑے نبی کا گھر ہے، یہ اس کائنات کے سب سے بڑے رسول کا گھر ہے۔ یہ اس کا گھر ہے جس کا مرتبہ او رمقام الله کے بعد سب سے بڑا ہے تو یہ سوچنا کہ صاحب فلاں کے پاس یہ ہے، فلاں کے پاس یہ ہے ، اس کو ترقی کہتے ہیں، اس کو ترقی نہیں کہتے، ترقی تو اس کو کہتے ہیں کہ آدمی کے عادات، اس کے اخلاق، اس کی انسانیت پروری ترقی کرے، چناں چہ پوری دنیامیں آپ صلی الله علیہ وسلم سے لے کر اب تک آج بھی اگر آپ کو انسانیت کی کوئی مثال ملے گی، تو وہ صرف اور صرف اسلام میں ملے گی، اسلام کے علاوہ کہیں نہیں ملے گی، میرے دوستو! اسلام ہمیں ظلم کی تعلیم نہیں دیتا، جبر کی تعلیم نہیں دیتا، بد اخلاقی کی تعلیم نہیں دیتا، بڑے کے ساتھ بد اخلاقی کی تعلیم نہیں دیتا، چھوٹے کے ساتھ عدم شفقت اور ظلم کی تعلیم نہیں دیتا، اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسانیت کی ترقی کی بات کرتا ہے، چناں چہ باپ کا ایک مقام ہے اور وہ صرف اسلام سکھاتا ہے، اگر آدمی مسلمان ہے او راسلامی آداب سے واقف ہے تو وہ اپنے باپ کا ادب کرے گا، وہ اس کا حترام کرے گا۔

اب جو صورت حال ہم دیکھ رہے ہیں پہلے تو یہ چیزیں نہیں تھیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کے اثرات ، اسلام کی تعلیمات موجود تھیں، اب بہت تیزی کے ساتھ، ہم مسلمان اپنا پیٹ کاٹ کر، اپنی ضرورتوں کو قربان کرکے، اپنے بچوں کو ایسی جگہ تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں جہاں اسلام کی تعلیم نہیں ہے اور سب کچھ ہے، چناں چہ اب وہ بچے بچیاں بڑے ہو رہے ہیں، باپ کا کیا مرتبہ، مقام ہے، ماں کا کیا مرتبہ، مقام ہے ؟ بھائی کا کیا مرتبہ، مقام ہے؟ بیوی کا کیا مرتبہ ، مقام ہے؟ خاندان کے دیگر افراد، حتی کہ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ جو آپ کے خاندان کے نہیں ہیں، آپ کے پڑوس میں رہتا ہے، پڑوسی ہے، اس کے بھی حقوق ہیں۔

”من کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلیکرم جارہ․“ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الأدب، باب من کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلا یؤذجارہ، رقم الحدیث:6019، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار، رقم الحدیث:173) جو الله پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور الله پر اور آخرت پر ایمان مسلمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا کہ جو اپنے گھر میں پیٹ بھر کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو، وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ (قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لیس المؤمن الذی یشبع وجارہ جائع إلی جنبہ․“ (شعب الإیمان للبیہقي، فصل ماجاء في کراھیة إمساک الفضل وغیرہ مما یحتاج إلیہ، رقم الحدیث:3389) یہ اسلام سکھاتا ہے۔

اسلام مہمان نوازی کی تعلیم دیتا ہے، آج کل تو ہر جگہ ہوٹل ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”من کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ․“(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الأدب، باب إکرام الضیف، رقم الحدیث:6135، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار والضیف، رقم الحدیث:174) جو الله پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

اسلام یہ ہے، جب کہ اب ہمیں یہ باتیں اجنبی لگ رہی ہیں، ہمارے ایک استاذ قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک آدمی بہت بخیل تھا اور تھا تاجر، تجارت کے لیے سفر کرتا تھا، اس کی شادی ہو گئی، تو الله تعالیٰ نے اسے جو بیوی دی وہ بہت سخی عورت تھی، اور جیسے انسان ہوتا ہے اسی طرح کے اس کے مہمان ہوتے ہیں، تو یہ تاجر تھا ،جہاں جہاں تجارت کے لیے جایا کرتا تھا ان سب کو اس نے اپنی شادی میں شرکت کی دعوت دی، تو اس کی بیوی نے ان کا بہت اکرام کیا، آج بھی کل بھی ، پرسوں بھی، لوگ آرہے ہیں وہ پکا پکا کے کھلا رہی ہے، روزانہ یہ سلسلہ ہو رہا ہے۔ جب پندرہ ، بیس دن مہینہ گزر گیا، تو شادی کے سلسلے سب ختم ہوگئے، اب اس نے پھر رخت سفر باندھا تجارت کے لیے جانے لگا، تو اس نے بیوی سے کہا کہ میرا کھانا، زاد راہ تیار کرو، بیوی نے کہا کسی زاد راہ کی ضرورت نہیں، آپ کا زاد راہ میں آگے بھیج چکی ہوں، کہا کیا مطلب ؟ بیوی نے کہا آپ جائیں،کچھ لے کر نہ جائیں، آپ کو کہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی، چناں چہ یہ جب گیا تو یہ بھی دعوت کر رہا ہے، وہ بھی دعوت کر رہا ہے، ہر طرف دعوت ہی دعوت ہے۔

یہ اسلام ہے، ہم آج مہمان سے ڈرتے ہیں، ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی آیا ہے تو بس فون ہی پہ بات ختم ہوجائے او راگر آگیا تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ دروازے ہی سے ملاقات پر بات ختم ہوجائے اور وہیں سے رخصت ہوجائے، اندر نہ آئے۔

میرے دوستو! یہ اسلام کے خلاف ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اکرام مسلم او رمہمان نوازی کے بڑے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ اور مہمانی یہ ہے کہ خندہ پیشانی سے مہمان کو اندر لے کر جائیں اور پھر جو کچھ میسر ہو، اچار ہو دودھ ہو ، چائے ہواور کوئی چیز ہو، جو میسر ہو، آپ کھلے دل سے دسترخوان بچھائیں اور پیش کریں، آپ یقین کریں کہ اس کا جو اثر ہو گا وہ قورموں اور بریانیوں کا نہیں ہوتا، دل کی خوشی کے ساتھ جو موجود ہے آپ وہ پیش کریں۔

مہمان سے متعلق کچھ واقعات، احکامات اور تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔
حضرت شیخ الہند رحمہ الله کی ایک کافر مہمان کی مہمان نوازی: (حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں ) کہ مولو ی محمود صاحب رامپوری کہتے تھے کہ ایک مرتبہ میں او رایک ہندو تحصیل دیوبند میں کسی کام کو گئے، میں حضرت مولانا دیوبندی ( شیخ الہند) کے یہاں مہمان ہوا، اور وہ ہندو بھی اپنے بھائیوں کے گھر کھا پی کر میرے پاس آگیا کہ میں بھی یہاں ہی رہوں گا، اس کو ایک چارپائی دے دی گئی، جب سب سو گئے، رات کو میں نے دیکھا کہ مولانا زنانہ میں سے تشریف لائے، میں لیٹا رہا اور یہ سمجھتا تھا کہ اگر کوئی مشقت کا کام کریں گے تو میں امداد دے دوں گا، ورنہ خواہ مخواہ اپنے جاگنے کا اظہار کرکے کیوں پریشان کروں۔ میں نے دیکھا کہ مولانا اس ہندو کی طرف بڑھے اور اس کی چارپائی پر بیٹھ کر اس کے پاؤں دبانا شروع کیے، وہ خراٹے لے کر خوب سوتا رہا، مولوی محمود صاحب اٹھے اور یہ کہا کہ حضرت! آپ تکلیف نہ کریں میں دبا دوں گا، مولانا نے فرمایا کہ تم تو جا کر سوؤ ،یہ میرا مہمان ہے، میں ہی اس خدمت کو انجام دوں گا، مجبوراً میں چپ رہ گیا اور مولانا اس ہندو کے پاؤں دباتے رہے، ہمارے حضرت نے فرمایا کہ مولانامیں تواضع ومہمان نوازی کی خاص شان تھی ۔ (ملفوظات حکیم الامت:11/37)

حضرت شیخ الہند رحمہ الله کی مہمان نوازی کا ایک او رواقعہ
دیوبند کے بڑے جلسے کے زمانہ میں ایک شخص نے مدرسہ میں گھوڑا دیا تھا، مولانا نے اس کو ایک مقام پر بھیج دیا تھا کہ اس کو فروخت کر دیں، اس مقام سے ایک شخص اس گھوڑے کے متعلق ایک خط لایا تھا، اس زمانہ میں جلسہ کا اہتمام ہو رہا تھا، مہتمم صاحب نے خط کا جواب دے کر اس کو رخصت کر دیا، مولانا دیوبندی رحمہ الله نے مہتمم صاحب سے پوچھا کہ اس خط کے لانے والے کو کھانا بھی کھلایا تھا؟ مہتمم صاحب نے کہا کہ حضرت! کھانا تو ہجوم اشتغال میں نہیں کھلایا، پیسے دے دیے ہیں کہ کچھ لے کر کھا لے گا۔ فرمایا: کافی نہیں، غریب آدمی پیسے خرچ نہیں کرتا،گھر کا باندھ کر لے جاتا ہے اور لوگوں سے پوچھا کہ وہ شخص کس راستہ سے گیا ہے؟ پتہ لگا کہ فلاں سڑک کو گیا ہے مولانا ادھر ہی تشریف لے گئے اور اس کو واپس کرکے کھانا کھلا کر پھر رخصت کیا۔ (ملفوظات حکیم الامت:11/37)

حضرت شیخ الہند رحمہ الله کا ایک اور واقعہ
مدرسہ معینیہ اجمیر کے معروف عالم حضرت مولانا محمد معین الدین صاحب رحمہ الله معقولات کے مسلم عالم تھے، انہوں نے حضرت شیخ الہند حضرت مولانا محمود صاحب قدس سرہ کی شہرت سن رکھی تھی، ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا تو ایک مرتبہ دیوبند تشریف لائے او رحضرت شیخ الہند رحمہ الله کے مکان پر پہنچے ، گرمی کا موسم تھا، وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جو صرف بنیان اور تہہ بند پہنے ہوئے تھے۔ مولانا معین الدین صاحب رحمہ الله نے اپنا تعارف کرایا او رکہا کہ مجھے حضرت مولانا محمود حسن صاحب سے ملنا ہے، وہ صاحب بڑے تپاک سے مولانا اجمیری رحمہ الله کو اندر لے گئے، اکرام سے بٹھایا او رکہا کہ ابھی ملاقات ہو جاتی ہے، مولانا اجمیری منتظر رہے، اتنے میں وہ شربت لے آئے او رمولانا کو بلایا، اس کے بعد حضرت مولانا اجمیری رحمہ الله نے کہا کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب کو اطلاع دیجیے، ان صاحب نے فرمایا: آپ بے فکر رہیں اور آرام سے تشریف رکھیں، تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے او رکھانے پر اصرار کیا ۔ مولانا اجمیری نے کہا کہ میں مولانا محمود حسن صاحب سے ملنے آیا ہوں۔ آپ انہیں اطلاع کر دیجیے، ان صاحب نے فرمایا: انہیں اطلاع ہو گئی ہے، آپ کھانا تناول فرمائیں، ابھی ملاقات ہو جاتی ہے، مولانا اجمیری نے کھانا کھا لیا تو ان صاحب نے انہیں پنکھا جھلنا شروع کر دیا، جب دیر گزر گئی تو مولانا اجمیری رحمہ الله برہم ہو گئے اور فرمایا کہ آپ میرا وقت ضائع کر رہے ہیں، میں مولانا سے ملنے آیا تھا اوراتنی دیر ہوچکی ہے ،ابھی تک آپ نے ان سے ملاقات نہیں کرائی۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ دراصل بات یہ ہے کہ یہاں مولانا تو کوئی نہیں ،البتہ محمود خاکسار ہی کا نام ہے، مولانا معین الدین صاحب یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور پتہ چل گیا کہ شیخ الہند کیا چیز ہیں۔(تحفة المدارس:1/420)

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب رحمہ الله کی مہمان نوازی:
شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ فرماتے ہیں:حضرت شیخ الاسلام کا ساری زندگی”الید العلیا خیر من الید السفلی“ پر عمل رہا، وہ بہت کم دوسروں کے ممنون ہوئے او رانہوں نے ایک عالم کو ممنون کیا، ان کا مہمان خانہ ہندستان کے وسیع ترین مہمان خانوں میں اور ان کا دسترخوان ہندستان کے وسیع ترین دسترخوانوں میں تھا، اورحقیقت یہ ہے کہ ان کا قلب اس سے بھی زیادہ وسیع تھا، بعض واقفین کا اندازہ ہے کہ پچاس مہمانوں کا روزانہ اوسط تھا، پھر اس میں ہر طبقے اور حیثیت کے لوگ ہوتے تھے ،شیخ کی بشاشت، انتظام، مستعدی او راہتمام بتلاتا تھا کہ ان کو کس قدر قلبی مسرت اور روحانی لذت حاصل ہو رہی ہے۔

ضیافت، مہان نوازی اور اطعام طعام ان کی روحانی غذا اورطبیعت ثانیہ بن گئی تھی، پھر مہمانوں کے ساتھ وہ جس تواضع او رانکساری اور جس اعزاز واحترام کے ساتھ پیش آتے تھے اس کودیکھ کر یہ شعر بے اختیار یاد آتا تھا #
        وإنی لعبد للضیف مادام نازلا
        وما شیمة لی غیرھا تشبہ العبدا
(میں مہمان کا غلام ہوں جب تک وہ میرے گھر مہمان رہے اورمیرے اندر یہی ایک صفت ہے جس سے میں غلام معلوم ہوتا ہوں۔ (کشف الباری:1/70-69)

شیخ الاسلام رحمہ الله کی مہمان نوازی کا واقعہ:
دیوبند کے ایک صاحب جو آج بھی حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ الله کے دسترخوان پر کھاتے ہیں اور برسوں سے کھاتے چلے آرہے ہیں، ایک دن جب آپ نے ان کو دستر خوان پر نہ دیکھا تو دریافت کیا کہ وہ صاحب کہاں ہیں؟ خدام میں سے کسی نے عرض کیا۔ حضرت! فلاں آدمی نے ان کو جھڑک دیا، بس پھر کیا تھا حضرت آگ بگولہ ہو گئے اور دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوئے، چاروں طرف آدمی دوڑا دیے، حتی کہ اس آدمی کے گھر تشریف لے گئے او راپنے ساتھ لا کر کھانا کھلایا۔ (انفاس قدسیہ)

مہمانی ومیز بانی کے آداب
مہمان کے لیے وسعت سے زیادہ تکلف نہ کرے، بلکہ جو کچھ موجود ہو وہ پیش کرے:
حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کی روایت ہے:أمرنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن لا نتکلف للضیف مالیس عندنا، وأن نقدم ماحضر․(شعب الإیمان للبیہقي، الثامن و الستون من شعب الإیمان، وھو باب في إکرام الضیف، رقم الحدیث:9601)

ہمیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم مہمان کے لیے اس چیز پر تکلف نہ کریں جو ہماے پاس نہ ہو او ر جو کچھ حاضر ہو ہم اسے پیش کریں۔

اسی طرح حضرت شقیق رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے روٹی اور نمک پیش کیا او رکہا کہ اگر نبی پاک صلی الله علیہ وسلم تکلف سے منع نہ فرماتے تو میں تمہارے لیے تکلف سے اہتمام کرتا۔ (شعب الإیمان للبیہقي، الثامن والستون من شعب الإیمان، وھو باب في إکرام الضیف، رقم الحدیث:9598 والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الأطمعة، رقم الحدیث:7146)

مہمان کے لیے تکلف کا حکم
مذکورہ احادیث سے مقصود یہ ہے کہ مہمان کے لیے تکلف نہ کرے، بلکہ جو کچھ موجود ہو وہ مہمان کے سامنے پیش کرے، لیکن اس تکلف سے مراد وہ تکلف ہے جومیزبان کے لیے مشقت کا باعث ہو، ایسے تکلف سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے میزبان کو مہمان سے خوشی نہ ہوگی، بلکہ بوجھ محسوس ہو گا۔ (شرح النووي علی الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعہ غیرہ إلی دار من یثق برضاہ بذلک:13/213)

شیخ سعدی رحمہ الله کا واقعہ:
جیسے حکم الامت رحمہ الله نے شیخ سعدی رحمہ الله کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ شیخسعدی رحمہ الله سمر قند میں کسی کے یہاں پہنچے، میزبان نے بہت تکلفات کیے، جب کھانا سامنے آیا تو فرمایا: آہ دعوت شیراز، میزبان نے اور زیادہ تکلف کیا پھر بھی یہی فرمایا، اس نے اپنے دل میں کہا کہ کیا شیراز میں سونا چاندی کھاتے ہیں؟ ایک مرتبہ یہ شخص حضرت سعدی کے یہاں مہمان ہوا، پہنچتے ہی ہاتھ دھلوا کر اور جو کچھ دال روٹی تھی لا کر سامنے رکھ دی، وہ سمجھا کہ اس وقت نہیں ملا ،شام کو تکلف ہو گا، مگر شام کوبھی وہی، پھر دوسرے دن بھی وہی، آخر اس شخص نے پوچھا حضرت وہ دعوت شیراز کہاں ہے؟ فرمایا: یہی ہے وہ دعوت شیراز، اس نے کہا اس میں کیا بات ترجیح کی ہے؟ فرمایا: ترجیح یہ ہے کہ اگر تم میرے پاس چار مہینے بھی ٹھہرے رہو تو مجھ پر گرانی نہ ہوگی اور تم چار ہی روز میں دل میں کہنے لگتے کہ خدا کرے جلدی دفع ہو، کہاں سے بلا سر پڑی۔ (ملفوظات حکیم الامت:2/377)

البتہ اگر میزبان صاحب وسعت ہے اور اس کے لیے تکلف کسی بھی طرح گرانی کا سبب نہیں بنے گا، تو پھر میزبان کا مہمان کے لیے تکلف کرنا بھی سنت ہے۔

امام بخاری رحمہ الله نے باب قائم فرمایا:”باب الرجل یتکلف الطعام لإخوانہ․“

اسی طرح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم بھوک کی شدت سے گھر سے باہر تشریف لائے او رحضرت ابوبکر وعمررضی الله عنہما بھی اسی حالت میں تھے، تو یہ حضرات ایک انصاری کے گھر تشریف لائے، انہوں نے سب سے پہلے کھجور کا خوشہ پیش کیا اور پھر ان حضرات کے لیے بکری ذبح کی۔ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعہ غیرہ إلی دار من یثق برضاہ بذلک، رقم الحدیث:2038)

علامہ نووی رحمہ الله اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:”فیہ دلیل علی استحباب تقدیم الفاکھة علی الخبز واللحم وغیرھما، وفیہ استحباب المبادرة إلی الضیف بما تیسر،وإکرامہ بعدہ بطعام یصنعہ․ شرح النووي علی الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الأشربة، باب جواز استتباعہ غیرہ إلی دار من یثق برضاہ بذلک:13/213)

یعنی مہمان کے لیے ایک تو فوری طور پر کھانے پینے کے لیے جو کچھ میسر ہو وہ پیش کر دے، (جیسے اس حدیث میں صحابی نے کھجور جو کہ موجود تھی پیش کی ) او رپھر کھانے کا انتظام ہو، تو باقاعدہ کھانا تیار کرکے اس سے مہمان کا اکرام کرے۔

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله تفسیر قرطبی کے حوالے سے فرماتے ہیں: ﴿فما لبث أن جاء بعجل حنیذ﴾یعنی نہیں ٹھہرے ابراہیم علیہ السلام، مگر صرف اس قدر کہ لے آئے تلا ہوا بچھڑا۔

اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں، اول یہ کہ مہمان نوازی کے آداب میں یہ ہے کہ مہمان کے آتے ہی جو کچھ کھانے پینے کی چیز میسر ہواور جلدی سے مہیا ہو سکے وہ لا کررکھے، پھر اگر صاحب وسعت ہے تو مزید مہمانی کا انتظام بعد میں کرے۔ (قرطبی)

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مہمان کے لیے بہت زیادہ تکلفات کی فکر میں نہ پڑے، آسانی سے جو اچھی چیز میسر ہو جائے وہ مہمان کی خدمت میں پیش کر دے، حضرت ابراہیم کے یہاں گائے بیل رہتے تھے، اس لیے بچھڑا ذبح کرکے فوری طور پر اس کا گوشت تل کر سامنے لا رکھا۔ (قرطبی) (معارف القرآن، سورہ ھود:4/648،والجامع لأحکام القرآن للقرطبي، سورہ ھود، آیت:69،9/45)

میزبان مہمان کی خدمت خود کرے
میزبان مہمان کی خدمت خود کرے، البتہ اگر مہمان کم ہیں اورمیزبان مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ کر خدمت سر انجام دے سکتا ہے تو پھر مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: وینبغي أن یخدم المضیف بنفسہ اقتداء بإبراہیم علی نبینا وعلیہ السلام، وإذا دعوت قوماً إلی طعامک فإن کان القوم قلیلا فجلست معھم فلا بأس، لأن خدمتک إیاھم علی المائدة من المروئة، وإن کان القوم کثیرا فلا تقعد معھم واخدمھم بنفسک․ (الفتاوی العالمکیریة، کتاب الکراھیة، الباب الثاني عشر في الھدایا والضیافات:5/399)

اسی طرح میزبان مہمان کو کھانے کاکہے کہ اور کھالو، یہ چیز کھا لو ۔ (الفتاوی العالمکیریة:5/399)

البتہ میزبان مہمان پر مسلط نہ ہو، بلکہ مہمان کی مرضی اور پسند ناپسند کا بھی خیال رکھا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے جو چیز جتنی چاہے کھائے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں: آج کل کی تہذیب یہ ہے کہ میزبان مہمان پر مسلط ہو جاتا ہے، قبلہ یہ کھائیے، قبلہ وہ کھائیے ،اس سے مہمان بالکل منقبض ہو جاتا ہے، ممکن ہے اس کا جی اس وقت ایک چیز کوچاہتاہو، دوسری کو نہ چاہتا ہو او راس چیز کو کھائے تو انبساط نہ ہو اور بعض وقت متعدد کھانے اس طرح کھلائے گئے کہ مقدار میں بڑھ گئے اور ہضم نہ ہوئے، آپ کی تو خاطر داری ہوئی او رمہمان کو تکلیف ہوئی، یہ کیا خاطر داری ہے؟! (ملفوظات حکیم الامت:20/315-314)

مہمان کے لیے اپنے اورادو وظائف اور نوافل چھوڑ دے
اگر کسی شخص کا کوئی مہمان آجائے تو وہ دو قسم کا ہو گا یا تو اکثر آتا رہتا ہوگا یا کبھی کبھار آتا ہو گا۔

اگر مہمان اکثر آتا رہتا ہو تو پھر یہ شخص اپنے نفلی معمولات کو قضا نہ کرے او راگر کبھی کھبار آتا ہو تو اپنے معمولات چھوڑ کر مہمان کے ساتھ بیٹھنا بہترہے ۔ (فتاوی حقانیہ:2/253)

فاسق وفاجر کی مہمانی کا حکم:
”فتاوی محمودیہ“ میں ہے: فاسق وفاجر مہمان کی تعظیم وتکریم کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب ایسے مہمان میں جب دو حیثیتیں ہوں ،ایک مہمان ہونے کی، دوسرے فاسق ہونے کی، تو پہلی حیثیت سے حق مہمانی ادا کیا جائے اور اکرام کیا جائے، دوسری حیثیت کو اس اکرام میں ملحوظ نہ رکھا جائے۔ (فتاوی محمودیہ:18/151)

مہمان کے لیے آداب:
فتاوی عالمگیری میں ہے:” یجب علی الضیف أربعة أشیاء: أولھا: أن یجلس حیث یجلس․ والثاني: أن یرضی بما قدم إلیہ․ والثالث: أن لا یقوم إلا بإذن رب البیت․ أن یدعولہ إذا خرج․

یعنی مہمان پر چار چیزیں واجب ہیں:
مہمان کو میزبان جہاں بٹھائے وہاں بیٹھے۔ جو کھانا مہمان کے سامنے پیش ہو اس پر راضی ہو۔ میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے۔ او رجب مہمان رخصت ہو تو میزبان کے لیے دعا کرے۔ (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الکراھیة:5/399-398)

مہمان کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ میزبان سے کسی خاص کھانے وغیرہ کی فرمائش نہ کرے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے :
سوال: مہمان کی میزبان سے مندرجہ ذیل چیزوں کی فرمائش درست ہے یا نہیں؟ خواہ بے تکلفی ہو یا نہ ہو؟ نمک کم ہے تو مانگ لینا بہتر ہے یا ایسے کھالیوے، مرچ وغیرہ گڑ وغیرہ بھی مانگ سکتا ہے؟
جواب: جہاں ان چیزوں کے مانگنے کا عرف ہو وہاں مانگنے میں مضائقہ نہیں اور بے تکلفی میں مانگنے میں بھی حرج نہیں، صبر کرنا اوّل مقام ہے۔ (فتاوی محمودیہ:18/154-153)

مہمان کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب کھانا کھالے تو برتن بالکل صاف نہ کرے، بلکہ برتن میں کچھ کھانا بچالے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ کھانا کھا لینے کے بعد برتن صاف کرنے کی بابت جو مسنون طریقہ مشہور ہے اور حدیث میں بھی ہے کہ پیالہ صاف کر لینا چاہیے اس کے متعلق ایک تفصیل ہے، وہ یہ کہ یہ اپنے گھر کے لیے ہے او راگر مہمان ہو تو بہتر یہ ہے کہ کسی قدر کھانا برتن میں چھوڑ دے، تاکہ میزبان یہ نہ سمجھے کہ مہمان نے پیٹ بھر کر نہیں کھایا او راس کا دل برا ہو، کیوں کہ اگر کسی قدر کھانا بھی برتن میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو میزبان سمجھتا ہے کہ مہمان بھوکا نہیں رہا۔ (ملفوظات حکیم الامت:12/203)

یہ اسلام ہے، یہ اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ اس سے معاشرے میں باہمی اخوت قائم ہوتی ہے، اس سے آدمی کو روح کی بالیدگی اور خوشی حاصل ہوتی ہے او رجب والدین اس کا اہتمام کریں گے تو یہی چیزیں اولاد کرے گی، ورنہ اگر ہم بیٹے سے یہ کہیں گھنٹی بجنے کے بعد کہ جاکے کہہ دو کہ ابو گھر میں نہیں ہے، آپ مجھے بتائیے کہ ہم اس بچے کو کیا تعلیم دے رہے ہیں؟ اس کو تو ہم خود جھوٹ سکھا رہے ہیں۔

الله تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․