موجودہ دور میں اُمّت مسلمہ کی ذمہ داری

موجودہ دور میں اُمّت مسلمہ کی ذمہ داری

مولانا محمدیوسف

اُمّت مسلمہ کی فکر انگیز اور دردناک حالت، ہر سمجھ دار اور دین اسلام کی غیرت اورحمیت سے سرشار درد دل رکھنے والے انسان کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف ناکامیاں ہیں، ذلت وپستی، بے چارگی ولاچارگی کی صورت حال ہے تو دوسری طرف دور دور تک روشن مستقبل کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، موجودہ حالات میں اگر ہم انفرادی واجتماعی طور پر اپنا احتساب کریں تو اس مایوس کن صورت حال کے جہاں اورعوامل سامنے آئیں گے وہیں ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ ہم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے ناقابل معافی حد تک کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ اُمت مسلمہ کی ناکامیوں اور موجودہ آلام ومصائب میں اس ذمہ داری سے غفلت کا بھی بڑا دخل ہے، قرآن کریم کی آیات اور بے شمار احاد یث مبارکہ اس بات کا برملا اعلان کرتی ہیں کہ اس اُمت کو خیرالامم (تمام اُمتوں میں سب سے بہتر اُمت) کا خطاب ملنے میں اچھائی کاپرچار کرنے اور برائیوں سے روکنے کی ذمہ داری کا بڑا دخل ہے، اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی اشاعت اور معاشرے وملک میں پھیلی ہوئی اخلاقی وروحانی برائیوں کا سد باب اُمت محمدیہ کا اہم فریضہ ہے۔ نمونہ کے طور پر چنداحادیث پیش خدمت ہیں:

حضرت حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ کی قسم! اچھائیوں کا حکم دو اوربرائیوں سے روکو، ورنہ عنقریب الله جل شانہ تم پر بہت سخت عذاب بھیجیں گے، پھر تم دعائیں کرو گے تو وہ بھی قبول نہیں ہوں گی۔ (ترمذی شریف)

حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله جل شانہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فلاں بستی کو اس کی آبادی سمیت الٹ دو تو انہوں نے فرمایا کہ پروردگار! ان میں آپ کا ایک ایسا بندہ بھی ہے جس نے پل بھر بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی۔ پروردگار عالم نے فرمایا: اس کو اٹھا کر پٹخ دو، کیوں کہ اس کے چہرے پر میری (نافرمانی کی) وجہ سے کبھی بھی غصہ او رناگواری کا اثر نہیں آیا۔

ترک تبلیغ کا نتیجہ
حضرت ابو درداء رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اچھائیوں کی تلقین اوربرائیوں سے منع کرتے رہو، ورنہ الله تعالیٰ تم پر ایسا ظالم حاکم مسلط کر دیں گے جو نہ کسی بڑے کی تعظیم کا خیال رکھے گا اور نہ چھوٹے پر رحم کھائے گا اورتمہارے نیک لوگ دعائیں بھی کریں گے تو قبول نہیں ہوں گی اور مدد مانگیں گے تو ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔

مندرجہ بالا احادیث سے اس فریضہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور یہ کہ دوسروں کو گناہوں سے روکنا اور اچھائیوں کا حکم کرنا ایمان کا لازمی جز ہے۔

اہل بصیرت اور عاقبت اندیش لوگ ہمیشہ سے یہ پیش گوئی کرتے چلے آئے ہیں اور کر رہے ہیں کہ اُمت محمدیہ جب بھی اس فریضہ سے غفلت اختیار کرے گی تو سخت مصائب وآلام اور ذلت وخواری میں مبتلا کر دی جائے گی اور ہر قسم کی غیبی نصرت ومدد سے محروم ہو جائے گی اور یہ سب کچھ اپنے فرض منصبی کو نہ پہچاننے، اس کی قدر نہ کرنے اور جس کام کی انجام دہی اس کی ذمہ داری تھی، اس سے غفلت برتنے کی بنا پر ہو گا اور یہی صورت حال آج درپیش ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے پانچ اصول
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس ذمہ داری کو جس قدر شرعی ہدایات کی روشنی میں حکمت وتدبر او رمنظم طریقے پر نبھایا جائے گا اسی قدر اس کار خیر کے مثبت اور دوررس اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ فقیہ ابواللیث سمر قندی رحمة الله علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کام کے لیے پانچ چیزوں کی ضرورت ہے :

1..صحیح علم ہو ( جاہل اور دین سے ناواقف شخص اس کام کا اہل نہیں)۔
2..مقصد الله جل شانہ کی رضا اور دین کی برتری ہو (بری نیت ساری محنت پر پانی پھیر دیتی ہے)۔
3..نرمی او رمحبت کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کرے ، سخت اور تند خونہ بنے، الله تعالیٰ نے حضرت موسی او رحضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف دعوت دین کے لیے بھیجتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس سے نرمی سے بات کرنا۔
4..اس عمل کے نتیجے میں دوسروں سے تکلیف پہنچے تو صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ،انتقام اور بدلہ لینے پر نہ تل جائے، حضرت لقمان علیہ السلام اپنے صاحب زادے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”بھلی باتوں کا حکم کرو، برائی سے سے روکو اور جو حالات آئیں ان پر صبر کرو۔“ (سورہ لقمان)
5..جس چیز کی دوسروں کو تلقین کرے خودبھی اس پر عمل کرے تاکہ لوگ اس شخص کو خود عمل نہ کرنے کا عار نہ دلائیں۔ ارشاد خداوندی ہے : ”کیا تم لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟“

علماء کی خصوصی ذمہ داری
علوم دینیہ کے حاملین پر یقینا یہ ذمہ داری دیگر لوگوں کی نسبت بہت زیادہ ہے، یقینا یہ حضرات اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ ابتداءً اپنے گھرانے او راس کے بعد اپنے معاشرے او رماحول میں پھیلی ہوئی خرابیوں اور فواحش ومنکرات کا بغور جائزہ لیں او راس کے بعد کوئی عملی قدم اٹھائیں، گناہوں پر روک ٹوک او رابتدائی دینی باتوں سے اپنے حلقہ اور اردگرد کے لوگوں کو باخبر کرتے رہنا، ان حضرات کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ موجود ہ زمانے میں خصوصاً عمومی اصلاح وتبلیغ، عوام الناس کی دینی ذہن سازی او رملک ومعاشرے میں کھلے عام الله جل شانہ کی نافرمانی پر آواز اٹھانا او رحتی المقدور لوگوں کو بے دینی وبے حیائی کے کاموں سے روکنے کی مہم میں حصہ لینا قابل احترام علمائے کرام کے لیے فرض کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے اپنے علمی مشاغل کے ساتھ اس سلسلے کو جوڑنا ان حضرات کے لیے بے حد ضروری ہے کہ دین کی بقا اور اس کے احیا کی یہ اہم ترین صورت ہے۔ حق تعالیٰ علمائے بنی اسرائیل سیشکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”اہل علم اور نیک لوگوں کوچاہیے تھا کہ عوام کو گناہ کی باتوں اورحرام کھانے ( اور دیگر بُرے کاموں) سے روکتے ،انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ (ان کی یہ خاموشی بہت سنگین گناہ اور) ان کا یہ طرز عمل بہت ہی بُرا ہے۔“ (المائدہ)

دور حاضر میں
موجودہ زمانے میں غلط نظریات کی اشاعت، دین میں تحریف اور لوگوں کے افکار، اعمال او راخلاق کو خراب کرنے کے لیے جس منصوبہ بندی کے تحت اہل باطل کی طرف سے کام ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ کہیں دین کا نشو ونما نہ رک جائے اور دین کے بنیادی نظریات وتعلیمات، اس کے نام لیواؤں کے لیے ایک انوکھی چیز نہ بن جائیں۔ یہ محض الله جل جلالہ کا فضل ہے کہ اب بھی دین کے مختلف شعبوں پر کام ہو رہا ہے، لیکن اس کے باوجود معاشرے میں بگاڑ اور خرابی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ماضی قریب کے عالم اسلام کے مفکراور بزرگ شخصیت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے بقول:”فساد وبگاڑ کا طوفان جتنا تیزاور سخت ہے، اس تناسب سے دین کی اشاعت اوربھلائی کے پرچار کی کاوشیں اور کوششیں بہت کم ہیں“۔ اس لیے قوم میں عمومی بیداری پیدا کرنا ضروری ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس اور خصوصاً مغربی معاشرے سے متاثر طبقے میں خاص منصوبہ بندی اورمنظم انداز میں اس کام کو اٹھایا جائے او ران کے نظریات، اخلاق واعمال کی اصلاح پر خصوصی توجہ دی جائے۔