ملک کی قابل تشویش صورت حال

ملک کی قابل تشویش صورت حال

عبید اللہ خالد

الله تعالیٰ اس کائنات کے خالق ومالک ہیں او راس کائنات کی اشرف المخلوق یعنی انسان کی راہ نمائی کے لیے اس بزرگ وبر تر ذات نے انبیاء کرام علیہم الصلوٰ والسلام کا سلسلہ جاری فرمایا، آخر میں خاتم الانبیاء والرسل حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث فرماکر اس عظیم سلسلے کی تکمیل فرمائی اور آپ کی وفات کے بعد انسانوں کی صلاح وفلاح کی ذمہ داری آپ کی امت کے سپرد کی گئی، آپ کے صحابہ کرام رضوان ا لله علیہم اجمعین اور پھر ہر دور میں الله تعالیٰ کے نیک بندوں نے یہ ذمہ داری انجام دی، دنیا میں اسلام پھیلا اور امن وسکون کا دور دورہ شروع ہواوردنیا کے مختلف خطوں نے اس بہار کی شادابی اوررونق سے خوب فائدہ اٹھایا ، ہمارے خطے برصغیر پر بھی الله تعالیٰ کی یہ نعمت ابررحمت بن کر برسی اور یہاں کے باسیوں نے اس سے خوب خوب استفادہ کیا ، یہاں علماء، صوفیاء، اہل الله او رنیک حکم ران پیدا ہوئے، جنہوں نے لوگوں کی خیر کی طرف راہ نمائی کی اور انہیں صراط مستقیم پر گام زن کیا، ایک طویل عرصہ تک یہ خطہ اہل اسلام کے زیر نگیں رہا، مسلمانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے انگریزوں نے دنیا کے دیگر خطوں کی طرح یہاں کی سطوت وحکومت بھی مسلمانوں سے چھین لی اور پوری دنیا میں امت مسلمہ کے علاقوں پر استعمار کا غلبہ وتسلط قائم ہوا اور طویل عرصہ تک امت مسلمہ ظلم وستم کے پہاڑ تلے آہ وبکار کرتی رہی، جس کا سلسلہ اگرچہ بڑی حد تک اب بھی قائم ہے، لیکن بہرحال الله تعالیٰ کے نیک بندوں نے مختلف خطوں میں دین کی بقا اوراپنے وطن کی آزادی کے لیے عظیم قربانیاں دیں، جن کے نتیجے میں مسلمانوں کے کچھ علاقے ظاہری طور پر آزاد ہو گئے، جن میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے، جب آزادی کی تحریک چلی تو اس وقت کا سب سے اہم نعرہ پاکستان کا مطلب کیا، لا إلہ الا الله تھا، امت کے بڑوں چھوٹوں، مردوں عورتوں اور بوڑھے نوجوانوں سب نے مل کر اس جد وجہد آزادی میں حصہ لیا اور عظیم قربانیوں کے بعد اس خطے کے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں یہ آزاد مملکت حاصل ہوئی ، لیکن وہ سازشوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھی، روز اول سے کفر کی یہ کوشش رہی ہے کہ اسے کم زور سے کم زور تر کیا جائے اوریہاں کے رہنے والے مسلمان امت مسلمہ کے لیے قائدانہ کردارادا نہ سکیں اور ان کے فائدے او ر صلاح وفلاح کے لیے کوئی کام نہ کرسکیں، یہ سازشیں تسلسل کے ساتھ رہی ہیں اوریہاں کے حکم رانوں اور مختلف لوگوں کو ان میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بہرحال مخلص لوگ پھر بھی تھے، ان کی کاوشوں اور الله تعالیٰ کے نیک بندوں کی دعاؤں کی بدولت یہ مملکت اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے لیے ایک حد تک نیک امیدوں کا باعث بن رہی اور اس کی ایٹمی طاقت مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز اور کفار کی آنکھوں کا کا نٹا بن گئی اور وہ مسلسل سازشوں کے ذریعے اس کو ختم کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف رہے، اب اس وقت مملکت کی صورت حال معاشی حوالے سے انتہائی دگرگوں ہے، ہر حکومت میں یہ مسائل رہے ہیں لیکن اس حکومت کے آتے ہی گویا گنگا ایسی الٹی چلنا شروع ہوئی ہے کہ وہ اب سیدھا چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ، مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکاہے، ادھر تجاوزات کے ختم کرنے کے نام پر لوگوں کے کاروبار کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، گرانی کی وجہ سے اشیائے خوردونوش لوگوں کی دسترس سے باہر نکل چکی ہیں اور ہر طرف پریشانی ہی پریشانی کاعالم ہے، حکم ران اوّل روز ہی سے معاشی ابتری کو مختلف حیلوں بہانوں سے سابقہ حکم رانوں کے ساتھ جوڑ کر ایسے اعذار تراش رہے ہیں جو عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہیں، ملک کو آئی، ایم ،ایف کے قرضوں تلے مسلسل جکڑا جارہا ہے اور عوام اور ملکی مفاد کے سراسر خلاف اس کی شرائط کو قبول کیا جارہا ہے۔ حکومتی غلط پالیسیوں کے خلاف اب تک کی بلند ہونے والی ہر آواز صدا بصحراء ثابت ہو رہی ہے اور حکم رانوں کے کانوں پر جوں تک بھی نہیں رینگ رہی اور نہ ہی ملک کی مقتدر قوتوں کو اس کا احساس ہے۔ الله تعالیٰ ہی اس ملک کا حامی وناصر ہو اور اسے سازشوں کے گرداب سے نکال کر ترقی کی شاہ راہ پر گام زن فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!