مسجداقصیٰ کی حفاظت امن ِعالم کا فوری تقاضا

مسجداقصیٰ کی حفاظت امن ِعالم کا فوری تقاضا

ڈاکٹر مجاہد منصوری

قارئین کرام!”اسرائیلی صہیونی حکومت کی نظرِ بد میں آئی مسجد اقصیٰ کی حفاظت فقط فلسطینیوں یا امت ِ مسلمہ کے مذہبی عقیدے کا معاملہ نہیں، یہ امن عالم کو یقینی بنانے کا ایک بنیادی تقاضا ہے“۔ یہ آج کے ”آئین نو“ کا کالمی بیانیہ ہے، جسے پہلے قومی، ملی اور پھر عالمی معاشرے کا بیانیہ بنانا عالمی امن واستحکام کے لیے لازم ہو گیا ہے۔ یوں کہ اسرائیل اپنے ناجائز قیام کے بعد دوسری مرتبہ مسجد اقصی کو نذرِآتش یا منہدم کرنے کی دوسری مذموم اور جارحانہ کوشش میں بھی ناکام ہو گیا ہے۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ڈیل آف سنچری کی ادھوری تکمیل، فلسطینیوں کی اذیت ناک بے بسی او رمسلم دنیا کی واضح بے حسی میں دوران صوم وصلوٰة، مسجد اقصیٰ میں موجود فلسطینی اتنی مزاحمت کریں گے اور حماس اُن پر خود ساختہ راکٹوں کی اتنی بارش کرے گا جس سے نسل پرست صہیونی ریاست کے دفاع کا آئرن ڈوم سسٹم کی بے اعتباری بے نقاب ہو جائے گی او رملک بھر کی آبادی کو آناً فاناً زیر زمین تعمیر کی گئی پناہ گاہوں میں منتقل ہو کر اپنی حفاظت کرنا پڑے گی۔ گویا بیت المقدس کے اصلی اور تاریخی کسٹوڈین نہتے فلسطینی مسلمانوں نے ایک طرف تو جان ہتھیلی پر رکھ کر روزہ افطار ہوتے ہی اور دوران نماز مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی ، دوسری جانب ان کے حریت پسند پلیٹ فارم حماس سے جیسی تیسی ،لیکن اس قدر شدید اور اچانک مزاحمت ہوئی جس نے اسرائیل میں کیا، پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ اسے روکنے اور اس کی سزا غزہ کی محبوس ومقہور فلسطینی سول آبادی کو دینے کے لیے اسرائیل نے گیارہ روز تک تبا کن فضائی اور بری حملوں سے جو ریاستی دہشت گردی مچائی اس میں خواتین وبچوں سمیت 250 فلسطینیوں کو شہید اور تین ہزار کو زخمی کیا گیا،جب کہ اسرائیل کی اپنی شہری بستیوں میں فلسطینیوں، شہریوں کی مزاحت کمال کی جرات مندی جس نے اسرائیلیوں کا مورال زمین سے لگا دیا اور حکومتی تکبر، اشتعال، گھبراہٹ اور شدید عدم تحفظ میں تبدیل ہو گیا، جس نے غزہ کی شہری آبادی پر بلا امتیاز عمر وجنس پر جو مظالم ڈھائے اس سے عالمی ردِ عمل خصوصاً عام شہریوں کے سوشل میڈیا پر زخمی جذبات کے اظہار خیال نے خود کو ابلاغی ناخدا سمجھنے والے اسرائیل کو ایک ہفتے میں زمین سے لگا دیا، لیکن صہیونی اپنی تاریخی جبلت کے مطابق باز آنے والے کہاں؟ جب کہ وہ دنیاوی وسائل اور غلبے کی جملہ مطلوب صلاحیتوں سے بھی مالامال ہیں، لیکن اب یہ تو ٹھہر گیا کہ دنیا میں اب اس حوالے سے ایک بڑی پر خطر ابلاغی جنگ تو شروع ہو گئی، ابلاغ ہی جنگی ماحول پیدا کرتا اور اسے روکتا بھی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہی واضح ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ہر وقت ابلاغی جنگ کی شکل میں بظاہر ”سرد جنگ“ دنیا پر مسلط رہے گی، جس کی فلیکچویشن سے امن ِ عالم سرجیکل اسٹرائیکس بھی ہوتے ہوتے بڑی او رگرم جنگ کا خطرہ عالمی معاشرے پر منڈلاتا رہے گا۔ کاش کوئی ایسا باوقار عالمی لیڈر، تھنک ٹینک یا غیر متعصب فلاسفر منظر پر آئے جوجنگ وجدل کی مہم جوئی اور اسلحے کی سود اگری میں مبتلا حکومتوں اورلیڈروں کوعالمی انسانی تباہی وبربادی کے وہ منظر دکھاسکے جن کی عملی تشکیل کے لیے ریاستی شیطانیت، دہشت گردی اور گٹھ جوڑ اپنی انتہا پر ہے۔ متذکرہ پس وپیش منظر کے ساتھ عالمی امن کا مسئلہ اسرائیلی ہوس ارض گیری، اس کے بذریعہ مذہب سیاسی غلبے کی ہوس، افغانستان پر قبضے اورمرضی برابر زیر اثر لانے کی عسکری مہم جوئی اور طویل سیاسی موجودگی، غلط اطلاعات پر عراق پر حملے سے آگینکلتا معلوم رہا ہے۔ ایشیا کا سفرو ترقی تیز ہونے لگا تو ٹرمپ، مودی اور نیتن گٹھ جوڑ سے مشرقی سے لے کرجنوبی ایشیا تک اور خلیج سے لے کر پوری مشرق وسطیٰ تک جنگ وجدل اور ”اکنامک کو اپریشن“ کا رخ، پھر دفاعی اتحادوں کی طرف موڑنے کے لیے اس تگڈم نے کیا کچھ نہیں کیا، ٹرمپ افغانستان میں اپنی پھنسی دبی فوج کو نکالنے کے فیصلے سے جنگوں کا مخالف ہونے کا دعوی تو کرتا رہا، لیکن آزاد معیشت کے مقابل مکمل ذہنی شکست کے بعد جس طرح ”ٹریڈ وار“ کا شوشا چھوڑا، کیا وہ ختم ہوجائے گا۔ داماد کی ڈیزائن کردہ ڈیل آف سنچری پر جزوی عمل درآمد سے نیتن یاہو کو جتنی شہ دی اسی کا شاخسانہ ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس کے پوری چارٹر اور فیصلوں کو صرف جوتی کی نوک پر ہی نہیں رکھا(وہ تو ایک مستقل رویہ پہلے ہی بن چکا تھا) اب چوٹی کے اسرائیلی سیاست دانوں اور سفارت کاروں نے عالمی میڈیا پر کھل کھلا کر اپنی مرضی ومنشا کے مطابق عالمی امن چارٹر اور فیصلوں کو مذہبی عقائد کے مطابق، جس کے مطابق اس نے ناجائز اسرائیل کو اب گریٹراسرائیل بنانا ہے، عملاً دیدہ دلیری کا ایک بڑا مظاہرہ، کرچکا۔ یہ پوری عالم انسانیت پر الله کا رحم ہی سمجھا جائے کہ صہیونی ریاست کو یہ الٹا پڑا۔ اب مسلم ممالک سے زیادہ مغرب کے آسودہ ممالک، حتی کہ خود اسرائیل میں نیتن یاہوکی امکانی جنگی مہم جوئی پر اسے جنگی مجرم قراردینے فلسطینیوں کو ان کے حقوق کی بازیابی اور حالیہ جنگی جرائم پر سزا اورمظلوموں کو ممکنہ ازالے کی بات ہو رہی ہے۔ قیام امن میں اقوام متحدہ کی مکمل ناکامی اورایک ووٹ سے عالمی فیصلوں کو ردی بنا دینے کے نظام کو تبدیل کرنا ممالک کی آزادی وخود مختاری، سرحدوں کے احترام اور یقینی امن عالم کی بڑی عالمی ضرورت کے طور پر مکمل عیاں ہو گئی۔

پاکستان اس تمام تر صورت حال میں اپنے ہم مزاج وخیال ساتھی دوست ممالک کے ساتھ ایک سرگرم کردار ادا کر رہا ہے، جو ہمارے تاریخی اور مکمل قومی موقف او رامن کی عالمی ضرورت کا عکاس ہے، منڈلاتی ابلاغی جنگ کی بڑی اور فوری ضرورت موثر اور پاورفل بیانیہ سازی (Narrative Building) ہے۔

ناچیز نے ابلاغی سائنس کے حساس او ربہت اہم موضوع میسج کنٹرکش کے عملی اصولوں کی پیروی کرتے اپنے متذکرہ کا لمی بیانیے کو سیاسی وسفارتی ابلاغ اور میڈیا پر تجزیوں کے لیے مختصر ترین قومی بیانیہ بنانے کے لیے آپ کی آرا حاصل کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق خاکسار کی رائے میں ہمیں موضوع پر عالمی بنتی رائے عامہ میں اپنی جگہ اس طرح بنانی ہے کہ ہم دنیا کو باور کراسکیں کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت فقط فلسطینیوں یا مسلمانوں کا معاملہ نہیں، یہ عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ جو پوری نہ ہوئی تو اس سے صرف مشرق وسطی کا امن ہی ڈسٹرب نہیں ہو گا، عالمی وعلاقائی سیاست کے جو نئے زاویے اور اس سے دفاعی اتحادوں کی جو شکل بنتی نظر آرہی ہے اس میں یہ کسی بڑی عالمی جنگ کا پیشہ خیمہ ہو گا۔ لہٰذا اب پہلے ملک، پھر مسلم دنیا اور دنیا میں واضح کریں کہ مسجد اقصیٰ جسے منہدم کرنے کی اسرائیلی نیت مکمل واضح ہے اس کی حفاظت امن عالم کی ناگزیر ضرورت ہے۔ وما علینا الاالبلاغ․