مرض وعیادت ۔۔ اور اسوئہ حسنہ

مرض وعیادت ۔۔ اور اسوئہ حسنہ

حضرت ڈاکٹر عبدالحیٴ عارفیؒ

ہرمرض کی دوا ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر بیماری کی دوا ہے جب دوا بیماری کے موافق ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریض اچھا ہوجاتا ہے۔(مسلم)

سنن ابی داوٴد میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بے شک اللہ تعالیٰ نے مرض بھی نازل کیا اور دوا بھی اتاری اور ہر مرض کے لیے دوا پیدا کی، اس لیے دوا کرو، البتہ حرام چیز سے علاج مت کرو۔“ (زاد المعاد)

علاج کا اہتمام اور اس میں احتیاط
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت مرض میں خود بھی دوا کا استعمال فرمایا کرتے اور لوگوں کو علاج کروانے کی تلقین بھی فرماتے۔ارشاد فرمایا اے بندگانِ خدا! دوا کیا کرو، کیوں کہ خدا نے ہر مرض کی شفا مقرر کی ہے، بجز ایک مرض کے۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت زیادہ بڑھاپا۔“ (ترمذی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار کو طبیب حاذق سے علاج کرانے کا حکم فرماتے اور پرہیز کرنے کا حکم دیتے۔(زاد المعاد)
نادان طبیب کو طبابت سے منع فرماتے اور اسے مریض کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتے۔(زاد المعاد)

حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرماتے۔ ارشاد فرماتے اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی۔(زاد المعاد)

مریضوں کی عیادت
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو بیمار ہوجاتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے۔(زاد المعاد)

مریض کی عیادت کے لیے کوئی دن مقرر کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ میں سے نہیں تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات تمام اوقات میں (حسب ضرورت )مریضوں کی عیادت فرماتے۔(زاد المعاد)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس عیادت کرنے کے سلسلہ میں شور وشغب نہ کرنا اور کم بیٹھنا بھی سنت ہے۔ (مشکوٰة)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کے قریب تشریف لے جاتے اور اس کے سرہانے بیٹھتے وقت اس کا حال دریافت فرماتے اور پوچھتے ”طبیعت کیسی ہے؟“ (زاد المعاد)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو بیمار کی پیشانی اور نبض پر ہاتھ رکھتے۔ اگر وہ کچھ مانگتا تو اس کے لیے وہ چیز منگواتے اور فرماتے مریض جو مانگے وہ اس کو دو اگر مضر نہ ہو۔(حصن حصین)

تسلی وہمدردی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا کہ جب تم کسی مریض کے پاس جاوٴ تو اس کی عمر کے بارے میں اس کے دل کو خوش کرو(یعنی اس کی عمر اور اس کی زندگی کے بارے میں اس کو خوش کرو) اس طرح کی باتیں کسی ہونے والی چیز کو رد تو نہ کرسکیں گی، لیکن اس سے اس کا دل خوش ہوگا اور یہی عیادت کا مقصد ہے۔(جامع ترمذی)

کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی پیشانی پردستِ مبارک رکھتے، پھر اس کے سینہ اور پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اور دعا کرتے۔ اے اللہ! اسے شفا دے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کے پاس تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی فکر کی بات نہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بسااوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ بیماری گناہوں کا کفارہ اور طہور بن جائے گی۔(زاد المعاد)

عیادت کے فضائل
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ مومن جب اپنے صاحب ایمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ گویا جنت کے باغ میں ہوتا ہے۔(صحیح مسلم شریف)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی مریض کے پاس جاوٴ یا کسی قریب المرگ شخص کے پاس جاوٴ تو اس کے سامنے بھلائی کا کلمہ زبان سے نکالو، کیوں کہ تم جو کچھ کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔(مسلم)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی مریض کی عیادت کو جاوٴ تو اس سے کہو کہ وہ تمہارے لیے دعا کرے ،اس لیے کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کے مانند ہوتی ہے۔(ابن ماجہ)

مریض پر دم اور اس کے لیے دعائے صحت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کے لیے تین بار دعا فرماتے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی۔ اے اللہ! سعد کو شفا دے، اے اللہ! سعد کو شفا دے،اے اللہ! سعد کو شفا دے۔(زاد المعاد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے:”اَذھِبِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ“الخ(اے سب آدمیوں کے پروردگار! اس بندے کی تکلیف دور فرمادے اور شفا عطا فرمادے تو ہی شفا دینے والا ہے، بس تیری ہی شفا شفا ہے۔ ایسی کامل شفا عطا فرما جو بیماری کو بالکل نہ چھوڑے)۔(صحیح بخاری ومسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خود بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم فرمایا کرتے اور خود اپنا دست مبارک اپنے جسم پر پھیرتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بیماری لاحق ہوئی جس میں آپ نے وفات پائی تو میں وہی معوذات پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دم کرتی جن کو پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دم کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک آپ کے جسم پر پھیرتی۔ (صحیح بخاری ومسلم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی پیشانی یا دکھی ہوئی جگہ پر داہنا ہاتھ رکھ کر فرماتے:”اللّٰہم أذھب البأس رب الناس واشف أنت الشافي لاشفاء إلا شفاء ک شفاءً لایغادر سقمًا․“
ترجمہ:”اے اللہ! اے لوگوں کے رب! تکلیف کو دور فرما اور شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے۔ ایسی شفا دے جو ذرا مرض نہ چھوڑے۔“

یہ دعا بھی وارد ہے:اللّٰہم اشفہ اللّٰہم عافہ․
ترجمہ:”اے اللہ! اس کو شفا دے اور اس کو عافیت دے۔“

یا سات مرتبہ یہ دعا پڑھے:
أسأل اللّٰہ العظیم رب العرش العظیم أن یشفیک․
ترجمہ:”میں سوال کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے جو بڑا ہے اور عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا بخشے۔“

جس شخص نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کو موت نہ آئی ہو اور یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس مریض کو اس مرض سے ضرور شفا دے گا۔(مسلم)

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درد کی شکایت کی، جو ان کے جسم کے کسی حصہ میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس جگہ پر اپنا ہاتھ رکھو جہاں تکلیف ہے اور تین دفعہ:” بسم اللّٰہ“ اور سات مرتبہ: ”أعوذ بعزة اللّٰہ وقدرتہ من شرما أجد وأحاذر․“( میں پناہ لیتا ہوں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی قدرت کی اس تکلیف کے شر سے جو میں پارہا ہوں اور جس کا مجھے خطرہ ہے) پڑھو۔ کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری وہ تکلیف دور فرمادی۔(صحیح مسلم)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھ کر حضرات حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اللہ کی پناہ میں دیتے تھے۔

”أعوذ بکلمات اللّٰہ التامّة من کل شیطان وھآمّةٍ ومن کل عین لآمّةٍ․“
ترجمہ:”میں تمہیں پناہ دیتا ہوں اللہ کے کلمات تامہ کی ہر شیطان کے شر سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر اثر ڈالنے والی آنکھ سے۔“ اور فرماتے تھے کہ تمہارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام اپنے دونوں صاحب زادوں اسماعیل واسحاق علیہما السلام پر ان کلمات سے دم کرتے تھے۔ (رواہ بخاری)

جس کے زخم یاپھوڑا یا کوئی تکلیف ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر دم کرتے، چناں چہ شہادت کی انگلی زمین پر رکھ دیتے، پھر دعا پڑھتے:
”بسم اللّٰہ، تربةُ أرضنا، بریقة بعضنا،یشفی بہ سقیمنا، بإذن ربنا․“
ترجمہ:”میں اللہ کے نام سے برکت حاصل کرتا ہوں، یہ ہماری زمین کی مٹی ہے، جو ہم میں سے کسی کے تھوک میں ملی ہوئی ہے، یہ ہمارے بیما رکو ہمارے رب کے حکم سے شفا دے گی۔“ اور اس جگہ انگلی پھیرتے۔ (زاد المعاد)

حالت مرض کی دعا
جو شخص حالت مرض میں یہ دعا چالیس مرتبہ پڑھے اگر مرا تو شہید کے برابر ثواب ملے گا اور اگر اچھا ہوگیا تو تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔
لاإلٰہ إلا أنت سبحانک إني کنت من الظالمین․
اگر مرض میں یہ دعا پڑھے اور مر جائے تو اس کو دوزخ کی آگ نہ لگے گی۔
لا إلٰہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر، لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لا إلٰہ إلا اللّٰہ لہ الملک ولہ الحمد، لاإلٰہ إلا اللّٰہ ولا حول ولاقوة إلا باللّٰہ․(ترمذی)

زمانہ بیماری میں صدق دل اور سچے شوق سے یہ دعا کیا کرے:
اللّٰہم ارزقني شھادةً في سبیلک، واجعل موتي ببلد رسولک․(حصن وحصین)
”اے اللہ! مجھے اپنے راستہ میں شہادت کی توفیق عطا فرما اور کیجیے میری موت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں۔“

بیماری میں زمانہ تن درستی کے اعمال کا ثواب
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ بیمار ہو یا سفر میں جائے اور اس بیماری یا سفر کی وجہ سے اپنی عبادت وغیرہ کے معمولات پورا کرنے سے مجبور ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اعمال اس طرح لکھے جاتے ہیں جس طرح وہ صحت وتن درستی کی حالت میں اور زمانہ اقامت میں کیا کرتا تھا۔(صحیح البخاری)

تکلیف :وجہ رفع درجات
محمد بن خالد سلمی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور وہ ان کے دادا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بندہ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہوجاتا ہے جس کو اپنے عمل سے نہیں پاسکتا تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی جسمانی یا مالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ یا پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ان مصائب وتکالیف (اور ان پر صبر) کی وجہ سے اس بلند مقام پر پہنچادیا جاتا ہے جو اس کے لیے پہلے سے طے ہوچکا تھا۔ (سنن ابی داوٴد)

وجہ کفارہ سیئات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ مومن کو جو بھی بیماری، جو بھی پریشانی ،جو بھی رنج وغم اور جو بھی اذیت پہنچتی ہے ،یہاں تک کہ کانٹا بھی اس کو لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے ذریعے اس کے گناہوں کی صفائی فرمادیتا ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم)