مبصر کے قلم سے

مبصر کے قلم سے

ادارہ

تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

رسالہ تجدید اسلام
دین اسلام کو کم زور کرنے او راس کے چمن کو ویران کرنے کی سازشیں ہر دور میں ہوئیں، اس لیے کہ ہر دور میں فتنوں نے جنم لیا، ان فتنوں میں سے ایک فتنہ انکار حدیث کا ہے، یہ لوگ خود کو اہل قرآن کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور قرآن مجید کی آڑ میں حدیث کا انکار کرتے ہیں:

الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعثت رسول صلی الله علیہ وسلم کے تین مقاصد بیان فرمائے:1. تلاوت قرآن 2. کتاب وحکمت کی تعلیم 3. تزکیہ نفس۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی،إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی﴾․(النجم:4-3)

یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے وقت او رتزکیہ کرتے وقت جو ارشاد فرمائیں گے اس پر رب تعالیٰ کی تائیدی مہر ثبت ہو گی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ان فرامین مبارکہ کا نام حدیث ہے، دین اسلام کے چار بنیادی اور اساسی ماخذ میں دوسرا نمبر حدیث کا ہے، حدیث، قرآن مجید کے مجمل مضامین کی تفصیل ہے، اگر حدیث کا انکار کر دیا جائے تو دین اسلام کے اکثر احکام کا انکار لازم آئے گا اور قرآن مجید کے مجمل احکامات کی تفصیل ناممکن ہو کر رہ جائے گی، مثلاً نماز کی فرضیت کا حکم قرآن مجید میں مذکور ہے لیکن اس کی کیفیت ،صورت اور متعلقہ مسائل قرآن مجید میں مذکور نہیں، اس کے لیے حدیث کی ضرورت ہے، اسی طرح زکوٰة کے مقاد یر اور اس کے مفصل مسائل صرف حدیث سے معلوم ہوں گے اور حدیث کا انکار ان تمام مسائل کا انکار ہے۔

فتنہ انکار حدیث کی ایک کڑی زیر ِ تصبرہ رسالہ ”تجدید السلام“ ہے، جس کے مصنف بریگیڈئر آفتاب احمد خان صاحب (ر) ہیں، اس رسالہ کے ٹائٹل پر لکھا ہے : ”قرآن او راسلامی مذہبی تاریخ کے گہرے مطالعہ سے حیران کن حقائق کا انکشاف ہوا“، بریگیڈئر صاحب کے اس جملے سے محقق موصوف کی علمیت، قابلیت او رجہالت کا اندازہ ہوتا ہے، یورپین اورانگریز مورخین اس بات پر حیران ہیں کہ مسلمانوں نے علم حدیث کی وہ تاریخی خدمات سرانجام دی ہیں کہ تاریخ اس کی مثال لانے سے قاصر ہے، اس علم کی حفاظت کی خاطر لاکھوں لوگوں کے حالات لکھے گئے، جس نے ایک بار بھی جھوٹ بولا اس سے حدیث لینے سے انکار کر دیا گیا او راس کی بیان کردہ احادیث بھی چھوڑ دی گئیں، حدیث لینے سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کے اصول وضوابط مرتب کیے گئے، ادھر بریگیڈئیر صاحب کا حال یہ ہے کہ انہیں اسلامی مذہبی تاریخ پر تو اعتبار ہے لیکن العیاذ بالله حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم پر اعتبار نہیں، انکار ِ حدیث کے لیے تاریخ کا سہارا یہ ایسے ہی ہے جیسے بینا آدمی نابینا آدمی سے راستہ پوچھے، مصنف موصوف اس رسالہ کے صفحہ نمبر47 پر لکھتے ہیں:”جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کتب ِ حدیث پر پابندی لگادی الخ“ آگے حوالے میں لکھتے ہیں:”رقم الحدیث:33“، انکار، حدیث کا کر رہے ہیں، اس کے لیے دلیل بھی حدیث سے؟ یہاں مصنف کی چالاکی دیکھیے کہ قرآن مجید کے نزول کے ابتدائی زمانہ کی ان احادیث جن میں کتابت حدیث سے بعض صحابہ کو منع کیا گیا تاکہ قرآن اور حدیث میں التباس نہ ہو جائے، کا یہ مفہوم نکال ڈالا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کتب ِ حدیث پر پابندی لگا دی، حیرت کی بات ہے اس وقت کتب حدیث کا وجود بھی نہیں تھا، پابندی کس چیز پر لگائی؟ اور مصنف نے جان بوجھ کر بعد کے زمانہ کی ان احادیث، جن میں کتابت ِ حدیث کی اجازت مذکور ہے، سے پہلو تہی کی۔

صفحہ نمبر5 پر لکھتے ہیں:
”دوسری، تیسری صدی ہجری میں مشہور کتب ِ حدیث مدون ہونے کے باوجود ان کو فوری عوامی مقبولیت حاصل نہ ہوئی،احادیث حفظ کرکے بیان وسماع سے نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں تھیں، ذاتی نوٹس بھی مروج تھے، افسوس جب دوسری تیسری صدی میں بدعات نے زور پکڑا تو تاویلیں گھڑی گئیں، پھر تیسری صدی میں مشہور کتب ِ حدیث لکھی گئیں، جن کو عوام نے فوری طور پر قبول نہ کیا اور بالآخر بہت کوششوں سے دو صدی کے بعد 464ھ/1072ء میں نیشابور میں البخاری کو پہلی مرتبہ پڑھا گیا۔

یہاں محقق موصوف نے تاریخی جھوٹ بولا، امام بخاری کی وفات 256ھ میں ہوئی، ان سے پہلے بھی کئی حضرات نے کتب حدیث تصنیف کی ہیں اور وہ اپنے دور میں بہت زیادہ مقبول ہوئی ہیں، جن میں سے مؤطاامام مالک بھی ہے، اس کی وجہ تسمیہ ہی میں ایک بات یہ ذکر کی گئی ہے کہ اس کو اہل اسلام کے ہاں قبولیت عطا ہوئی، لہٰذا اسے موطا کہا گیا، نیز امام بخاری سے صحیح بخاری نقل کرنے والوں کی تعداد نوے ہزار (90000) ہے، امام بخاری کے دور میں ہی ”صحیح بخاری“ کو اتنی مقبولیت حاصل ہو چکی تھی اور اسے کثیر تعداد میں پڑھا گیا کہ ناقلین صحیح بخاری کی تعداد امام بخاری کے ہی زمانے میں ایک لاکھ کے قریب جا پہنچی۔

صفحہ نمبر6 پر رقم طراز ہیں:
”مگر مسلمان مقدس کتاب کے اتنے شوقین ہیں کہ پیغمبر سے منسوب کتب احادیث کی تعداد میں تسلسل سے اضافہ ہو تا رہا ہے ، جب کہ قرآن اور رسول صلی الله علیہ وسلم نے کتب احادیث سے منع فرمایا۔ نتیجہ قرآن متروک العمل ہے، اسے گستاخی، حکم عدولی، انکار رسالت، بدعت کہیں یا کچھ اور؟“

یہاں بریگیڈئیر صاحب نے حد کر دی، حدیث کو قرآن ِ مجید کا مقابل ٹھہرا دیا، حدیث پر عمل کرنا گویا قرآن کی مخالفت کرنا ہے، پوری امت کو حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے گستاخ، حکم عدولی کرنے والا، بدعتی کہہ ڈالا، اور صرف یہیں بس نہیں کی، بلکہ رسالت کا انکار کرنے والا ٹھہرا دیا، جیسے صرف بریگیڈئر صاحب ہی پوری امت میں راہ راست پر ہیں اور صرف انہیں یہ دین سمجھ میں آیا ہے اور کسی کو نہیں۔

اسی طرح کی غلط بیانیاں اور خیانتیں مصنف نے اس کتاب میں جگہ جگہ کی ہیں، نمونے کے طور پر یہ تین مثالیں ہی کافی ہیں، الله تعالیٰ ہم سب کی اس فتنے اور دیگر تمام فتنوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین!

19 صفحات کا یہ رسالہ غیر مجلد شائع کیا گیا ہے۔