لین دین میں حقوق کی ادائی کا خیال

لین دین میں حقوق کی ادائی کا خیال

مولانا محمد عاشق الہٰی بلند شہری

قرض بری بلا ہے، اکابر کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ القرض مقراض المحبة یعنی قرض محبت کی قینچی ہے۔ لفظ قرض کا لغوی معنی ہی کاٹنے کا ہے، قرض گیری کے عادیوں پر بہت سے قرضے چڑھ جاتے ہیں تو ڈھیٹ ہو جاتے ہیں اور ہر ایسے آدمی کی تاک میں رہتے ہیں، جس سے قرض مل سکتا ہو، جہاں کہیں نئے آدمی سے میل جول ہوا بس اسے داغ دیا، اب جب قرض دینے والا مانگنے کو آتا ہے تو اس کی صورت دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا، اس کو دیکھا اور بخار چڑھ گیا او ربعض تو بڑے بے باکی سے کہہ دیتے ہیں کہ میں نہیں دیتا، جو چاہے کر لو۔

قرض بہت ہی مجبوری میں لیاجائے اور جیسے ہی انتظام ہو جائے فوراً ادا کردے، پیسوں کی آمد پر ادائی منحصر نہ رکھے، گھر کی چیزیں بیچ کر، محنت مزدوری کرکے، جس طرح ہو، جلد سے جلد قرضہ ادا کرے اور قرض خواہ کے تقاضے سے پہلے خود جاکر ادا کر دے، قرض کی ادائیگی کا انتظام ہوتے ہوئے ادا نہ کرنا، اس کو حدیث میں ”مطل“ فرمایا گیا ہے۔رسول صلی الله علیہ و سلم کا ارشاد ہے : ”جس کے پاس ادائی کا انتظام ہو، اس کا ٹال مٹول کرکے قرض ادا نہ کرنا ظلم کی بات ہے۔“ جس شخص نے نیکی کی، تمہاری ضرورت کے وقت کام آیا اور ادھار دے دیا، اس کو یہ سزا دے رہے ہیں کہ تقاضوں کے لیے بار بار آئے، واپس چلا جائے اور انتظام ہوتے ہوئے بھی نہ دیا جائے، شرعاً اور عقلاً ظلم کی بات ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”قرض کے علاوہ شہید کا ہر گناہ بخش دیا جاتا ہے۔“

دیکھو! شہادت کتنی بڑی نیکی ہے، جان تک دے دی، اس سے بڑھ کر او رکیاہو گا، لیکن حقوق العباد پھر بھی معاف نہیں، جس کسی کا کوئی کچھ اپنے اوپر واجب ہو، خواہ قرض لیا ہو خواہ اور کسی سبب سے کسی کا کوئی حق واجب ہو گیا ہو، جلد سے جلد ادا کر دے، اپنی عبادتوں نماز، روزہ اور ذکرو اذکار کی مشغولیت سے دھوکا نہ کھائے، بعض سمجھتے ہیں کہ ہم نے زیادہ عبادت کر لی ہے، حق داروں کے حقوق اس میں سے دے دیں گے۔ یہ بڑی بے وقوفی کی بات ہے، دنیا میں ذرا سی حقیر دنیالی اور اس کے بدلے میں نماز روزے دے کر خود دوزخ میں چلے گئے ، یہ کیا سمجھ داری ہے؟

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ فرماتے تھے کہ دو پیسے کے عوض سات سو مقبول نمازیں دینی ہوں گی۔ مزید فرمایا کہ میں نے مولوی نصیر الدین سے کہہ دیا ہے ( یہ حضرت شیخ کے کتب خانے کے ناظمتھے) لین دین میں حقوق کی ادائی کا خیال رکھو، میری تو سات سو نمازیں مقبول نہیں ہیں، اب تو اپنے بارے میں سوچ لے تیری کتنی مقبول ہیں؟

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے ارشاد فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم تو مفلس اسے سمجھتے ہیں جس کے پاس روپیہ نہ ہو اور مال نہ ہو، یہ سن کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ میری امت کا حقیقی مفلس وہ ہو گا جو قیامت کے روز نماز، روزہ اور زکوٰة لے کر آئے گا، یعنی اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں گی، روزے بھی رکھے ہوں گے، زکوٰة بھی ادا کی ہو گی اور ان سب کے باوجود میدان حشر میں اس حال میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا ناحق مال کھایا ہو گا اور کسی کا ناحق خون بہایا ہو گا او رکسی کو مارا ہو گا اور چوں کہ قیامت کا دن فیصلے کا دن ہوگا اس لیے اس شخص کا فیصلہ اس طرح کیا جائے گا کہ جس کو اس نے ستایا ہو گا، جس کی حق تلفی کی ہوگی، سب کو اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی، پھر اگر پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو اس کے سرحق داروں کے گناہ ڈال دیے جائیں گے، پھر اس کو دورخ میں ڈال دیا جائے گا۔

نیز حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کر رکھا ہو کہ اس کی بے آبروئی کی ہو یا کوئی اور حق تلفی کی ہو تو آج ہی (اس دنیا میں اس کا حق ادا کرکے یا معافی مانگ کر) اس سے معاف کرائے، پہلے اس کے کہ نہ دینار ہو گا نہ درہم۔ پھر فرمایا کہ اگر اس کے کچھ عمل اچھے ہوں گے تو بقدر ظلم اس سے لے لیے جائیں گے ( جو اصحاب حقوق کو دے دیے جائیں گے) اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں لے کر ظالم کے سر ڈال دی جائیں گی۔

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ صرف پیسہ کوڑی دبا لینا ہی ظلم نہیں ہے، بلکہ گالی دینا، غیبت کرنا ،تہمت لگانا، بے جامارنا، بے آبروئی کرنا بھی ظلم اور حق تلفی ہے ۔بہت سے لوگ اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ ہم دین دار ہیں، مگر ان باتوں سے ذرا نہیں بچتے، واضح رہے کہ الله تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے حقوق توبہ واستغفار سے معاف فرما دیتا ہے، لیکن بندوں کے حقوق اس وقت معاف ہوں گے جب ان کو ادا کرے یا صاحب ِحق سے معاف کرالے۔