قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر دے!

قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر دے!

مولانا محمد ندیم الدین قاسمی

اس میں شک نہیں کہ ”صحبت“ سے انسانی زندگی پر مثبت ومنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، انسان کے عقائد واعمال، افکار ونظریات، سیرت وکردار، اخلاق وگفتار، اس سے ضرور متأثر ہوتے ہیں اور حقیقت بھی ہے کہ بروں کی ہم نشینی نے جہاں کئی خدا پرستوں کو راہ ِ حق سے بھٹکا دیا، تو وہیں اہل ِ دل واہل صدق کی نگاہ فیض نے مِسِ خام کو کُندن بنا دیا، قتل وغارت گری کے خوگراور انسانیت کے دشمن، امن کے سفیر اور حق کے پرستار بن گئے، یہ صحبت ہی کا کرشمہ تھا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی فیض ِ تربیت نے حضرات ِ صحابہ کرام کو آسمان ِ ہدایت کا درخشندہ ستارا بنا دیا #
جمال ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

اس لیے قرآن وحدیث میں اہل صدق وتقوی کی ہم نشینی اختیار کرنے کی تاکید آئی ہے۔

صحبت ِ اہلُ الله کی اہمیت
حدیث پاک میں ہے :” وخالطوا الحکماء“ (الجامع الصغیر حدیث:3577) یعنی حکماء سے ملنا جلنا رکھو۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ” التشرف في معرفة أحادیث تصوف“ میں فرماتے ہیں :” اس سے مراد ”اہل الله“ ہیں۔“
ایک حدیث میں آتا ہے:” إن رجلا خرج من بیتہ زائراً …“ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الادب، باب الحب فی الله) ترجمہ:”جب کوئی الله کے لیے کسی سے ملنے جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں۔“ اور اس حدیث میں آگے ہے کہ وہ دعا کرتے ہیں:”ربنا، إنہ وصل فیک فصلہ“․

”اے ہمارے رب! یہ آپ کے لیے اس ( الله والے ، بزرگ) سے مل رہا ہے، آپ اس کو اپنے سے ملائیں ( یعنی اپنا قرب دے کر اپنا بنالیں)۔“

مفسر کبیر علامہ سیّد محمود آلوسی نے اپنی مایہٴ ناز تفسیر ”روح المعانی“ میں﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾(روح المعانی:11/56) کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ ”خالطوھم لتکونوا مثلھم“․(رو ح المعانی:11/56)
یعنی الله والوں کے پاس اتنا رہو کہ تم بھی اُن جیسے بن جاؤ۔

مولانا ظفر احمد عثمانی  نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں ختم ”بخاری شریف“ کے موقع پر فرمایا کہ اے طلباءِ کرام! جاؤ کچھ دن کسی صاحب ِ نسبت، صاحب ِ تقویٰ کی صحبت میں رہ لو، تاکہ ان کے صدقہ میں تم بھی متقی بن جاؤ۔
پھر یہ شعر پڑھا:
دردِ دل نے اور سب دردوں کا درماں کر دیا
دل کو روشن کر دیا آنکھوں کو بینا کر دیا
(صحبت اہل الله کے فوائد:141)

صحبت اہل الله کی وجوہات
حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نے اس کی چار وجوہات بیان کی ہیں، جو یقینا پڑھنے کے قابل ہیں، اہل الله کی صحبت ِ بابرکت سے چار وجہوں سے فیض حاصل ہوتا ہے :
پہلی وجہ نقل ہے، یعنی انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے نقال واقع ہوا ہے، جب اہل الله کی صحبت میں رہے گا اور شب وروزان کے طریقہٴ مناجات، ان کے طریقہٴ فریاد، ان کے آداب واخلاق اور خدا کے حضور ان کے رونے او رگڑ گڑانے اور نالہنیم شبی کو دیکھے گا تو ممکن نہیں کہ ان صفات عالیہ کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہ کرے۔

دوسری وجہ صحبت کی عام برکت ہے۔ اگر کوئی اہل الله کی صحبت میں بغیرکسی خاص ذہن وفکر کے آئے اور کوئی غرض بھی ہو جب بھی وہ اس کی برکت محسوس کرے گا اور آہستہ آہستہ ان کی مقناطیسی شخصیت اپنی طرف کھینچتی رہے گی۔

تیسری وجہ معرفت ہے۔ یعنی ان کی صحبت سے الله کی معرفت حاصل ہوتی ہے، نفس وشیطان سے مقابلہ کرتے ہوئے اسے کس طرح مغلوب کیا جائے؟ ان کی صحبت سے اس کا فن آتا ہے، نفسانی اور شیطانی مکروفریب سے ایک انسان خوب واقف ہو جاتا او ران سے بچنے کی تدبیروں سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔

چوتھی وجہ دعا ہے، یعنی یہ جہاں ساری اُمت کے لیے دعا کرتے ہیں، تو وہاں خصوصیت کے ساتھ اپنے متعلقین اور مریدوں کے لیے بھی دعا کرتے ہیں، بارگاہ ِ الہٰی میں ان کی مخلصانہ دعا بہر حال قبولیت کی تاثیر رکھتی ہے۔ ان چار وجوہ کے علاوہ مولانا رومی  ایک اور وجہ بیان کرتے ہیں کہ دلوں میں سے دلوں میں خفیہ راستے ہوتے ہیں ، غیر مرئی طور پر الله والوں کے دلوں کی ”ایمانی طاقت“ ان کے ہم نشینوں پر اثر کرتی ہے اور ان کے طاقت ور یقین کانور ان کے جلیسوں کے ضعیف او رکم زور یقین کو توانائی بخشتا اور نورانی بناتا رہتا ہے۔ (باتیں ان کی یادرہیں گی ، صفحہ:114)

مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میاں ! بغیر الله کا دیوانہ بنے کام نہیں بنتا، لیکن بس کسی دیوانے سے پالا پڑ جائے! الله کے عاشقین ہم سے خدانخواستہ دنیا نہیں چھڑائیں گے، ان کی برکت سے دنیا ہاتھ میں ہو گی، جیب میں ہو گی، بس دل سے نکل جائے گی، دل میں صرف الله ہو گا، پھر معلوم ہو گا کہ ”ہفت اقلیم“ کی سلطنت اور زمین وآسمان سے بڑھ کر دولت ہمیں حاصل ہوئی ہے۔ (صحبت اہل الله کے فوائد، ص:33)

ایک شخص نے کانپور سے حضرت تھانوی کو لکھا ،میں پہلے اوّابین او رتہجد بھی پڑھتا تھا، اب میری تہجد قضا ہونے لگی اور اوّابین بھی چھوٹنے لگی، اشراق اور چاشت سب چھوٹ گئی، پھر کچھ دن کے بعد لکھا کہ اب تو میری جماعت کی نماز بھی ختم ہو گئی، پھر لکھا کہ اب تو فرض خطرے میں ہے، تو حضرت نے لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کو صالحین کی صحبت میسر نہیں ہے۔

علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ الله والوں کی صحبت کی تاثیر تو دیکھو! کہ کتّا (اصحاب کہف کا) جیسا نجس جانور جس کا لعاب ِ دہن پیشاب کے برابر ناپاک، اس ناپاک کو بھی الله تعالیٰ پاک کرکے جنت میں بھیج دیں گے ۔ (روح المعانی:15/246)

حضرت مولانا گنگوہی رحمة الله علیہ سے جب پوچھا گیا کہ حضرت ! آپ تو بہت بڑے عالم ہیں، آپ تو بخار ی پڑھاتے ہیں، آپ کیوں گئے تھے حاجی امداد الله صاحب کے پاس؟ فرمایا: حاجی صاحب کے پاس میں مسئلہ پوچھنے نہیں گیا تھا، بلکہ مسئلہ پر عمل کرنے میں جہاں جہاں نفس غفلت اور سستی کرتا تھا اور جہاں نفس ہم پر غالب آجاتا تھا، حاجی صاحب کی برکت سے نفس کو مغلوب کرنے گئے تھے، ہم قوت ِ عمل لینے کے لیے حاجی صاحب کے پاس گئے تھے، علم لینے نہیں گئے تھے۔ (صحبت اہل الله کے فوائد، ص:55)

حضرت مولانا محمد احمد صاحب  علماء کو اہلُ الله سے تعلق پیدا کرنے کی ترغیب کے لیے یہ شعر کہتے تھے #
نہ جانے کیا سے کیا ہو جائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا
جو دستارِ فضیلت گم ہو دستارِ محبت میں

ایک شیطانی دھوکہ
یہ کہنا کہ اب اس زمان میں الله والے کہاں ”مسلمانی در کتاب ومسلمان درگور“ تو یہ محض شیطانی دھوکہ ہے۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جس کی صحبت میں دس آدمی بیٹھتے ہوں، اگر 5 یا6 آدمی بھی نیک بن گئے ہوں تو سمجھ لو کہ وہ الله والا ہے۔ (باتیں ان کی یاد رہیں گی،ص:116)

ایک اہم نصیحت
حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب  نے ایک موقع پر فرمایا: ”آج ہمارا حال مختلف ہے، الله والوں کی مجلس سے ہم بھاگتے ہیں، ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہ گناہ وعصیان کا ماحول ہے، گردوپیش سے عام انسان تو عام انسان ہے، ”ولی“ بھی متاثر ہو جاتا ہے، سینما او رگانوں کی آواز، دنیا کی فحاشی یہ سب کچھ انسان کو متاثر کرتے ہیں،صحابہ کرام  کا عاد وثمود کی بستی سے جب گزر ہوا تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے منھ چھپالیا اور صحابہ کرام  کو جلد سے گزر جانے کے لیے فرمایا، دیکھیے ماحول کا اثر، حضور صلی الله علیہ وسلم کی نگاہ میں کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اگر اثر کا خوف نہ ہوتا تو جلدی سے کیوں گزرتے؟ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ برے ماحول سے کٹ کر الله والوں کی مجلس میں بیٹھو ، نورانیت پیدا ہوگی اور اچھے اثرات پڑیں گے۔ (باتیں ان کی یاد رہیں گی، صفحہ:35)

قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر دے
یہ آگ لگتی نہیں ہے لگائی جاتی ہے

خواجہ صاحب فرماتے ہیں #
جو آگ کی خاصیت وہ عشق کی خاصیت
ایک سینہ بہ سینہ ہے ایک خانہ بہ خانہ ہے