قرآن مجید سے دوری کا طبعی نتیجہ ۔۔ امت کی بدحالی

قرآن مجید سے دوری کا طبعی نتیجہ ۔۔ امت کی بدحالی

مولانا مفتی تنظیم عالم قاسمی

قرآنی ہدایات آج بھی تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہیں۔ اور امت کو پستی سے نکال کر نقطہ عروج تک پہنچا سکتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور اس میں دیگر مخلوقات کے ساتھ اشرف المخلوق انسان کو بھی پیدا فرمایا اور اسے دنیا وآخرت میں کام یابی کے ذرائع سے آگاہ کیا اور اپنی مرضی اور خوش نودی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہدایت دی۔ اس کے لیے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک تک ہر دور میں ہر نسل اور ہر طبقہ کے لیے نبی اور رسول مبعوث کیا گیا۔ انہیں آسمانی کتابیں اور صحیفے دیے گئے،جن میں توریت، زبور، انجیل اور قرآن زیادہ مشہور ہیں۔

جب کائنات کا بیشتر حصہ گزر چکا، موقع اور حالاتِ زمانہ کے اعتبار سے کتابیں اور رسول بھیج دیے گئے، تو اب ضرورت تھی کہ دین ومذہب کی تکمیل کردی جائے اور وہ آخری ہدایت نامہ بھی دے دیا جائے جس میں تمام نوع انسانی کی ہدایت کا راز مضمر ہے۔ جو کسی زمانہ اور جگہ کے ساتھ خاص نہیں، رہتی دنیا تک تمام نسلوں کے لیے رحمت اور پیغام ہے، چناں چہ آخری قانون کی حیثیت سے رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا گیا۔

قرآن ایک قانون ہے، جو اللہ کی طرف سے بندوں کو دیا گیا ہے، تاکہ زندگی کی وضع قطع اس کے مطابق بنائی جائے، نشست وبرخاست اور قول وعمل قرآن کے دیے گئے سانچہ میں ڈھالا جائے۔ اس کے بغیر نہ تو کوئی نورِ ہدایت پاسکتا ہے اور نہ ہی فلاح وبہبود کی کسی جھلک کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی قابلِ عمل قانون میں جن بنیادی عناصر کا ہونا ضروری ہے، وہ صرف قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً قانون کے لیے ضروری ہے کہ وہ آفاقی اور عالم گیر ہونے کے ساتھ ساتھ مستحکم اور مضبوط بھی ہو، جو بلاکم وکاست تمام طبیعتوں کی ہدایت کے لیے سامان فراہم کرسکے۔ کسی ردوبدل اور حذفِ وترمیم کے بغیر ہر عہد اور زمانہ کے مسائل کا صحیح حل اس سے نکالا جاسکے اور ظاہر ہے کہ قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قانون میں یہ وصف تلاش نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح قانون کا اہم اور بنیادی مقصد عدل وانصاف کا فراہم کرنا ہے۔اگر کوئی مقدمات میں انصاف اور مساوات کا متلاشی ہے، تو قانون کی چوکھٹ سے اسے کسی حرف اور نقطہ کے تغیر کے بغیر حقوق دیے جاسکیں۔ ظلم وزیادتی، حق تلفی اور جابرانہ طور طریقے کو ختم کرنے کی بے باکانہ صلاحیت اس میں پائی جاتی ہو اور اس سلسلہ میں اس میں کوئی لچک نہ ہو، ایسا قانون قرآن کے علاوہ دوسری جگہوں میں تقریباً ناپید ہے۔ قانون کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے پاس اس بات کی کوئی معقول وجہ موجود ہو کہ وہ کیوں کسی چیز کو جرم قرار دیتا ہے۔ انسانی قانون کے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ جو عمل امنِ عامہ یا نظمِ مملکت میں خلل ڈالتا ہو، وہ جرم ہے۔ اس کے بغیر اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی فعل کو جرم کیسے قرار دے، یہی وجہ ہے کہ قانونِ مروجہ کی نگاہ میں زنا اصلاً جرم نظر نہیں آتا، بلکہ وہ صرف اس وقت جرم بنتا ہے جب کہ طرفین میں سے کسی نے دوسرے پر جبر کیا ہو۔ گویا انسانی قانون کے نزدیک اصلی جرم زنا نہیں، بلکہ جبر واکراہ ہے۔ اس طرح بیشتر معاشی اور معاشرتی قوانین ہیں جن کی وجوہ اور علل سے قطعی ناواقفیت ہے۔ لیکن جب قرآن کسی چیز کو موجبِ گناہ اور جرم قرار دیتا ہے تو اس کی مصلحت اور حکمت پر بھی روشنی ڈالتا ہے، جیسا کہ آج کے سائنسی ایجادات وانکشافات اور جدید تحقیقات سے قرآن کے بتائے گئے تمام مصالح کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے قرآن لاثانی قانون ہے، جس کی ندرت اور امتیازی وصف نے دنیا کو عاجز کردیا۔ ہر زمانہ کے ادیب، ماہر قانون داں، اعلیٰ تعلیم یافتہ دنگ رہ گئے اورہزار کوششوں کے باوجود قرآن کی طرح بے داغ اور صاف وشفاف، فصیح وبلیغ اور کامل ترین قانون وضع نہ کرسکے۔ زمانہ نے دیکھا کہ لبیدبن ربیعہ اور ابن المقفع جیسے قادر الکلام ذہین و طباع قرآنی چیلنج کے سامنے سرنگوں ہوگئے اور اپنی بے کسی کا اعتراف کیا۔

یہ قانونِ الٰہی ہر دور کے لیے یکساں معیارِ ہدایت ہے اور ہر دور کے تقاضوں کی رعایت اس میں ملحوظ ہے۔ متلاشیِ حق عمر اور منزل کے جس موڑ پر بھی ہو، قرآن مکمل طور پر اس کی راہ نمائی کرتا ہے۔سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنا لوجی عروج کے جس نقطہ پر بھی ہوں، مسائل اور مشکلات کا وہ ایسا حل بتاتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے شاید اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قرآن نازل کیا گیا ہے اور اسی مسئلہ کا حل قرآن کے نازل کیے جانے کا اہم مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نزولِ قرآن پر ۱۴ صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک اس میں تابانی، روحانیت اور انقلابی تاثیر موجود ہے، جس کا غیر مسلموں کو بھی اعتراف ہے۔

قرآن جس قوم پر نازل ہوا، وہ تہذیب وثقافت سے نابلد اور اخلاق وکردار سے بالکل ناآشنا تھی، لیکن قرآن نے اس کی تقدیر کو بدل دیا۔کچھ ہی دنوں میں وہ ایسی مہذب قوم بن گئی کہ قیصر وکسریٰ دم بخود رہ گئے۔ وہ قوم مفلس تھی مگر قرآن نے اسے اتنا عروج بخشا کہ دنیا کی سلطنتیں قدم بوس ہوگئیں۔جس قرآن اور قانون پر عمل کر کے بدو اور گنوار عرب قوم نے حیرت انگیز ترقی کی، دنیا پر قبضہ کیا اور ہر میدان کے وہ شہسوار بنے، آج بھی اس کے ذریعہ عروج حاصل کیا جاسکتا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ ہر ملک میں اسی قرآنی قانون کو نافذکیا جائے۔

قرآنی ہدایات آج بھی تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہیں اور اس کو پستی سے نکال کر نقطہ عروج تک پہنچا سکتی ہیں، لیکن افسوس ہے کہ آج بھی ہمارا معاشرہ قرآنی تعلیمات میں پس ماندہ ہے۔ خلفائے راشدین اور قرونِ اولیٰ کی اسلامی حکومتوں کے عروج اور ان کی بڑھتی ہوئی تابانی اور تاریخ سے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ عصرِ حاضر میں دنیا کا کوئی قانون امن وامان، عدل ومساوات کی ضمانت نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس قانون سے کائناتی ماحول کی پراگندگیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔ خوش حالی وترقی، چین وسکون اور امنِ عالم کو حاصل کرنے اور موجودہ خوف ناک حالات سے نمٹنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عصرِ حاضر میں بین الاقوامی طریقہ پر ہر ملک میں قرآن کے قانون کو نافذ کردیا جائے۔

اس موقع پر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ کا وہ اقتباس قابل توجہ ہے جو انہوں نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد کہا تھا:
”مالٹا جیل کی خلوتوں میں ہمیشہ یہ مسئلہ سامنے آیا کہ آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلتِ وپستی اور ہر جگہ مصائب وآفات میں مبتلا ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ مسلسل غوروفکر کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس کے اسباب ۲ ہیں، اول مسلمانوں کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوم آپس میں لڑنا۔“

قرآن کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر آغازِ اسلام سے اب تک ہر دور کے علمائے امت نے خدمتِ قرآنی پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ اس کی ہر زاویہ سے خدمت کی گئی ہے اور اس کے ایک ایک گوشہ کو تحقیق کا موضوع بنایا گیا ہے۔ آج اسلامی کتب خانے اور لائبریریاں علومِ قرآن اور اس کے متعلقہ علوم وفنون سے بھری ہوئی ہیں۔ عربی، فارسی، اردو،ہندی،انگریزی اور دوسری مختلف زبانوں میں کتابیں اتنی دست یاب ہیں کہ دوسرے فن پر اتنی کتابیں موجود نہیں۔ضرورت ہے کہ قرآن کے معنی ومفہوم کو خود سمجھیں اور دوسروں کو بھی اس کے سمجھنے کی دعوت دیں۔ اجتماعی، انفرادی، سماجی،معاشی اور معاشرتی جیسے بھی مسائل ہوں عصرِ حاضر میں یہ کتاب راہ نمائی کے لیے کافی ہے، بلکہ قیامت تک جس دور میں بھی اسے را ہ نما بنایا جائے عصری تقاضوں کے مطابق قیادت کی بھر پور صلاحیت اس میں پائی جاتی ہے، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ہر دور کے لحاظ سے عصری کتاب ہے۔ اس میں وہ تاثیر ہے جو انسانی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہے، بلکہ اس کا ظاہری ادب بھی انسان کو اعلیٰ مقام تک لے جاتا ہے۔

ایک بڑے بزرگ کا واقعہ ہے کہ پہلے وہ بری عادتوں میں گرفتار تھے، شراب بھی پیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے دیکھا کہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی زمین پر پڑی ہوئی ہے۔ اسے حیرانی ہوئی کہ یہ تو اللہ کا کلام ہے اور یہاں زمین پر پڑا ہوا ہے۔ ان کے پاس اس وقت پیسے بہت مختصر تھے ، فوراً انہوں نے اس کاغذ کو اٹھالیا اور بازار سے عطر خرید لائے اور اس کاغذ میں عطر لگا کر اسے اونچے مقام پر رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا پسند آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہوں سے توبہ کی توفیق دے دی اور پھر وہ اللہ کے ولی ہوگئے۔ ساری دنیا میں وہ بشر حافی کے نام سے مشہور ہوئے۔چوں کہ ننگے پیر انہوں نے توبہ کی تھی اسی لیے وہ زندگی بھر ننگے پیر ہی رہے۔ جس راستے سے یہ گزرتے تھے اس راستہ پر جانور تک غلاظت نہیں کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے زمین کو پاک صاف بنادیا۔ قرآن کے محض ادب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک شرابی کو ولایت کے مقام تک پہنچا دیا۔ آپ اندازہ کیجیے کہ اگر ہماری زندگی میں قرآن داخل ہوجائے او ر اس کے سانچے میں ہم ڈھل جائیں تو کیا دنیا کی کوئی طاقت ہماری چمکتی ہوئی تقدیر کو بدل سکتی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرنِ اول کی طرح ہمارا رعب ہو اور ہم عزت کی زندگی گزاریں تو اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ قرآن کو اپنے سینے سے لگائیں اور اسے اپنا دستورِ حیات بنالیں۔