قرآن سے نسبت باعث ِرُشدوہدایت!

قرآن سے نسبت باعث ِرُشدوہدایت!

محترم محمد جاوید شیخ

انسان کو ہمیشہ کسی راہ نما کی ضرورت رہتی ہے، جو اس کی راہ نمائی کرے، اسے نشانات ِ منزل بتائے، صحیح غلط کی تمیز سکھائے، حق اور باطل کا فرق سمجھائے اور حقیقی معنوں میں اس کا رشتہ خالق حقیقی سے جوڑنے میں اس کی معاونت کرے۔ اسی طلب کو پورا کرنے کی غرض سے الله تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔ ہردور میں انبیاء او ررسولوں نے الله کے بندوں کی راہ نمائی کی۔ یہ را ہ نما حقیقی معنوں میں بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ایک الله رب العالمین کی بندگی میں لانے اور کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کے نور سے قلوب انسانی کو منور کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ الله نے اپنے پیغمبروں کو کتابوں اور صحیفے دے کر اوردوسرے لفظوں میں”کتاب ہدایت‘ ‘کے ساتھ بھیجا۔ انبیاء اور رُسل کی بعثت کا یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ سب سے آخر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لے آئے۔ الله تعالیٰ نے نبی مہربان صلی الله علیہ وسلم پر بھی ایک عظیم الشان اور عظیم المرتبت کتاب ”قرآن مجید“ کی صورت میں نازل کی۔ درحقیقت یہ کتاب انسانیت کے لیے ہدایت بھی ہے اور فلاح کی ضامن بھی #
        اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
        اور ایک نسخہٴ کیمیا ساتھ لایا

اسی نسخہٴ کیمیا کے ذریعے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عرب کے معاشرے میں انقلاب برپا کیا۔ اس قرآن کے مسحور کن الفاظ جس کے کانوں میں پڑے اس کے دل کی دنیا یکسر تبدیل ہو گئی۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دل کی دنیا میں انقلاب برپاکرنے والی یہ کتاب زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوؤ ں میں راہ نمائی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہ کیوں کر ممکن ہو کہ ایک شخص قرآن مجید سے اپنی نسبت کا اظہار کرے اور وہ گم راہی کے راستے پر گام زن ہو،جہالت کے صحرا میں بھٹکتا پھرے۔ یہ کتاب انسان کی دنیا سنوارتی ہے، اخلاق کریمہ سے اسے متصف کرتی ہے، اس کے قلب کو سکینت کے لمحات بخشتی ہے، نور ِ خدا وندی سے اس کے اذہان کو منور کرتی اور آخرت او رجنت کے لیے اسے تیار کرتی ہے ۔

قرآن مجید انسان کو درپیش روحانی بیماریوں کے لیے شفا کا سرچشمہ ہے۔ یہ کتابِ عظیم دلوں کی کدورتوں کو دھو کر اس کے قلب کو پاک وصاف کرتی ہے۔ یہ زندگی کے مختلف مراحل میں ایک مسلمان کومایوسی سے بچاتے ہوئے اپنے رب پر توکل کرنے ، اپنے مالک کے در سے آس لگانے، اس کی رحمت سے امید باندھنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہ کتاب عظیم الشان ابن آدم کو شکر کے جذبات سے اپنے دامن کو بھرنے اور ناشکری کے داغ دھونے کا حکم دے کر اس کا تعلق اپنے رب سے مضبوط کرتی ہے۔

”اگر تم شکر کرو گے تو میں بڑھا کردوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو جان لو کہ میرا عذاب بڑا درد ناک ہے۔“ (سورة ابراہیم:7) قرآن مجید اپنے پڑھنے والے کے سامنے دنیا کی حقیقت آشکار کرتے ہوئے آخرت کی ابدی حیات اور دائمی نجات کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔”اور آخرت کی زندگی بہتر ہے اورباقی رہنے والی ہے۔“ (سورة الاعلیٰ:17)

اس کتاب کو اپنے سینوں میں محفوظ کرنے والے بروز قیامت لوگوں کو جہنم میں داخلے سے روکنے او رجنت میں داخل کرنے کا باعث ہوں گے۔ جیسا کہ نبی مہربان صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن پڑھا کرو، یہ اپنے پڑھنے والے کے لیے بروز قیامت شفاعت کرنے والا ہو گا۔“(صحیح مسلم) قرآن مجید سے نسبت قائم کرنے والا، اسے اپنے روز وشب کے معمولات کا حصہ بنانے والا، اسے سیکھنے او رسکھانے کے عمل میں شریک رہنے والا دنیا میں بسنے والے اربوں انسانوں میں سب سے بہتر قرار پاتا ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے او رسکھائے۔“(صحیح بخاری)

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک روز مسجد ِ نبوی میں تشریف لائے۔ آپ نے دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ ہیں جو الله کے حضور رکوع اور سجود، ذکر واذکار اور دعا ومناجات میں مشغول ہیں۔ گویا انفرادی عبادت کے ذریعے رب کو راضی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جب کہ ایک طرف کچھ لوگ ہیں جو قرآن مجیدکا فہم حاصل کرنے، اس کی آیات کے مفہوم سے آگاہی کے لیے جمع ہیں، قرآن سیکھنے او رسکھانے کے عمل میں مصروف ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک خیر پر ہے۔ یعنی جو خلوت کے سجدوں کے ذریعے رب کو منانے میں مصرف ہیں وہ بھی خیر اور بھلائی پانے والے ہیں اور جو فہم قرآن کے لیے جمع ہیں وہ بھی خیرو بھلائی پا جائیں گے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم ان صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما ہوئے جو قرآن کا فہم حاصل کررہے تھے۔ درحقیقت نبی مہربان صلی الله علیہ وسلم کا یہ عمل اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ قرآن کے پیغام کو سمجھنے او رجاننے کا عمل الله تعالیٰ کو انفرادی عبادات سے زیادہ محبوب بھی ہے او رمطلوب بھی۔

قرآن کے جہاں بہت سارے حقوق ہیں وہیں سب سے بڑھ کر حق یہ ہے کہ اس کتاب ِ عظیم کو صرف طاقوں میں سجانے اور آنکھوں سے لگانے کے بجائے اس کے پیغام کو سمجھا جائے، اسے عام کیا جائے۔اس کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے قرآن مجید کو راہ نمابنایا جائے۔

یاد رکھیں! یہ قرآن بروز قیامت یا تو ہمارے حق میں گواہ بن کر ہمیں جنت کے بالاخانوں کا مستحق بنائے گا یا پھر ہمارے خلاف گواہی دے کر ہمیں جہنم کی ہول ناک وادیوں کا مستحق ٹھہرائے گا #
        اے خدا قرآن کی تفہیم دے
        دین ودنیا کی ہمیں تعلیم دے