فکر ِ آخرت سے بے فکری معاشرتی بگاڑ کا سبب

فکر ِ آخرت سے بے فکری معاشرتی بگاڑ کا سبب

محترم راحیل گوہر

ڈکیتیاں، لوٹ مار، منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان، جسم فروشی، جنسی زیادتی ، گاڑیوں کی چوری، ہسپتالوں میں مریضوں سے غفلت اور بے حسی کا سلوک، سرکاری محکموں میں رشوت ستانی، پولیس کی بدمعاشی، عدالتوں میں انصاف کا قتل، تعلیمی اداروں میں گروہ بندیاں ہیں اور حکم رانوں کی لوٹ کھسوٹ۔ گویا فساد فی الارض کا پورا نقشہ ہمارے ملک کے کینوس پر ہر ایک دیکھ سکتا ہے۔ یہ وہ سوغات ہیں جن کا زہر ہمارے معاشرے کی رگوں میں خون کے سرطان کی طرح دوڑ رہا ہے۔

معاشرے کا ہر فرد اپنی دنیا میں مگن ہے، جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنے حصے کا خراج دوسرے شخص سے وصول کر لیتا ہے۔ کوئی راستے کا کانٹا ہٹانے پر راضی نہیں ہے، الا ماشاء الله! دنیا میں نفسا نفسی کا عالم قیامت سے پہلے ہی نظر آرہا ہے، اپنا حق لینا سب کو یاد ہے او راپنا فرض کسی کو یاد نہیں۔ ہم نہ حقوق الله کو دیانت داری سے ادا کرتے ہیں اور نہ حقوق العباد کی ادائیگی میں ہی مخلص ہے۔ بلکہ حقوق العباد کی ہمارے دین میں کیا اہمیت ہے اس کا تو ہمیں شعور ہی نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں الله نے نماز کی ادائیگی کے ساتھ ہی زکوٰة کا ذکر کیا ہے، اس لیے کہ نماز الله کا حق ہے اور زکوٰة بندوں کا حق اور ایمان حقیقی کا تقاضا ہے کہ حقوق الله اور حقوق العبادد ونوں ساتھ ساتھ ادا کیے جائیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات سمجھ میں کیسے آئے؟ مسلمانوں کی اکثریت قرآن ہی نہیں پڑھتی او راگر پڑھ بھی لیں تو سمجھتے نہیں اور اگر سمجھ لیں تو اس پر عمل نہیں کرتے، عمل کرنے میں ان کا نفس آڑے آجاتا ہے، کیوں کہ دنیا پرستی نے انہیں خدا فراموشی پر مائل کیا ہوا ہے۔ ذاتی مفادات ، خود غرضی اور اغیار کی بے روح او راخلاق باختہ تہذیب وتمدن کی نقالی نے انہیں انسانیت کے مرتبے سے گم راہی کی گہری کھائی میں لا پھینکا ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب او ران کے ماننے والوں کا مقصد زندگی اس دنیا اور اس کی تمام تر رعنائیوں سے لطف اندوز ہونا ہے، اس دنیا کے بعد کی کسی اور دنیا کا کوئی تصور ان کے ہاں ہے ہی نہیں ، مگر ایک مسلمان کے لیے یہ دنیا محض ایک امتحان گاہ ہے اور اس کی پوری زندگی ایک آزمائشی وقفہ۔ اور مختصر سے وقفہ میں اسے اپنی بندگی کا ثبوت دینا ہے۔ از روئے قرآن حکیم:”ترجمہ: اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے۔“ (الملک:02) اس رنگ وبوکی دنیا میں سارے فتنوں ، برائیوں ، گم راہیوں اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے انحراف کی اصل وجہ اپنے انجام، یعنی آخرت کی فکر سے، بے پروا ہو کر اپنی پسندکی زندگی بسر کرنا ہے۔ اپنے اعمال کی جواب دہی کا تصور جب ذہن سے نکل جائے تب انسان اپنے ہر عمل میں خود کو آزاد سمجھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
”ترجمہ: مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے، جب کہ وہ اپنے تئیں دیکھتا ہے۔“ ( سورة العلق:06-07)

ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوار نے، اس کو بندگی کے سانچے میں ڈھالنے ، فکر ونظر کو صحیح رخ دینے اور اس کو صراط مستقیم کی راہ دکھانے میں اگر کوئی مؤثر عقیدہ ہے تو وہ فکر آخرت کا عقیدہ ہے۔ اسی لیے سورة البقرہ کی ابتدائی آیات میں مؤمنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں صرف آخرت کے لیے ”یوقنون“ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی وہ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ مرکر دوبارہ اٹھائے جانے اور قیامت کی ہول ناکیاں، الله جل جلالہ کا جاہ وجلال او رغضب کا تصور ہی انسان پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ ارشاد الہیٰ ہے:”ترجمہ: خوب جان لو جن لوگوں نے کہ کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، اگر ان کے قبضے میں ساری زمین کی دولت ہو اور اتنی ہی او ران کے ساتھ اور وہ چاہیں کہ اسے فدیے میں دے کر روز ِ قیامت کے عذاب سے بچ جائیں، تب بھی وہ ان سے نہ قبول کی جائے گی۔ او رانہیں دردناک سزا مل کر رہے گی۔ وہ چاہیں گے کہ دوزخ کے عذاب سے نکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے او رانہیں قائم رہنے والا عذاب دیا جائے گا۔“ (سورة المائدہ:36-37) سورة المؤمن کی آیت18 میں ارشاد رب العالمین ہے:”ترجمہ: اور ( اے نبی!) ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراؤ، جب کلیجے منھ کو آرہے ہوں گے ( اور) لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پئے کھڑے ہوں گے، ظالموں کا نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ شفیع۔“

فکر آخرت انسان کے فکری جمود کو توڑنے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ جب انسان اپنی صحیح راہ گم کر دے، بے عملی کی روش اختیار کر لے، زمانے کی کثافتوں میں لپٹ کر پاکیزہ اور شفاف زندگی کو فراموش کر دے تو یہی آخرت کی فکر اور اس پر یقین کامل اس کے ایمان پر لگے زنگ کو صیقل کرکے الله کا مطلوب انسان بنانے میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ امت مسلمہ کے اسی بے راہ روی کے غم نے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے رفیق خاص حضرت ابوبکر صدیق نے اس حالت کی وجہ دریافت کی تو ارشاد فرمایا: ” ہاں! مجھے سورہ ہود، سورہ واقعہ، سورہ نباء اور سورہ تکویر نے بوڑھا کر دیا ہے۔“ (الترمذی) کبھی دنیا کے بکھیڑوں سے کچھ وقت مل جائے تو مذکورہ سورتوں کی تلاوت کر لیا کریں، تو احساس ہو گا کہ قیامت کس ہوش ربا منظر کا نام ہے۔ قرآن کریم نے اس کی یوں عکاسی کی ہے: ”ترجمہ: آخر کار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہو گی۔ اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں او راپنے باپ او راپنی بیوی او راپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا“۔ ( سورہ عبس:35 تا37)

حدیث مبارک کے الفاظ ہیں کہ : ” مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف خواہش اور لمبی امید کا ہے۔ خواہش تو حق سے گم راہ کرتی ہے اور لمبی امید آخرت کو بھلاتی ہے۔“

مذکورہ بالا تمام حقائق کی روشنی میں ہر شخص کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا دنیاوی طرز عمل ہی آخرت میں اس کے لیے جزا اور سزا کا باعث بنے گا او راس حقیقت پر ہر انسان کو یقین کامل ہونا چاہیے، کیوں کہ غیر یقینی اور تذبذب کی کیفیت انسان کے قلب وذہن میں شکوک وشبہات کے دروازے کھول دیتی ہے۔ اور الله کو اپنے ہر بندے سے تصدیق بالقلب والا ایمان در کار ہے۔