عورت کا مقام وحقوق قرآن وسنت کی روشنی میں

عورت کا مقام وحقوق قرآن وسنت کی روشنی میں

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمَُ﴾․ (سورہ آل عمران، آیت:19)،﴿وَإِذَا الْمَوْء ُودَةُ سُئِلَتْ﴾․(سورة التکویر، آیت:8)

وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”خیرکم خیرکم لأہلہ وأنا خیرکم لأہلی․“(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النبی صلی الله علیہ وسلم، رقم:3895، وصحیح ابن حبان، کتاب النکاح، ذکر استحباب الاقتداء بالمصطفی صلی الله علیہ وسلم للمرء فی الإحسان إلی عیالہ إذا کان خیرھم خیرھم لھن، رقم:4177)

میرے واجب الاحترام دوستو، بزرگو، بھائیو! آج دنیا میں جس مسئلے کا بڑا شور اور واویلا ہے، وہ مسئلہ ہے عورت کا۔مغربی دنیا اورمغرب زدہ طبقہ یہ تأثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں میں، اسلام میں عورت کے حقوق محفوظ نہیں، یہ یاد رکھیں کہ عورت کو جو مقام اور مرتبہ اسلام نے دیا ہے اس مقام اورمرتبے کا اسلام کے علاوہ پوری دنیا میں تصور نہیں، جب اسلام نہیں آیا تھا تو عورت کو مخصوص ایام میں ایک سال تک ڈر بے نما چھوٹی کوٹھڑی میں رکھا جاتا تھا۔

بخاری شریف وغیرہ میں حضرت أم سلمہ رضی الله عنہا کی روایت ہے ، فرماتی ہیں:جاء ت إمرأة إلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فقالت: یا رسول الله! إنّ ابنتی توفی عنھا زوجھا وقد اشتکت عینھا أفنکحلھا؟ فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا، مرتین أو ثلاثا، کل ذلک یقول: لا، ثم قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : انما ھی اربعة اشھر وعشرا، وقد کانت احدا کن فی الجاھلیة ترمی بالبعرة علی رأس الحول․

قال حمید: فقلت لزینب: وماترمی بالبعرة علی رأس الحول؟ فقالت زینب: کانت المرأة إدا توفی عنھا زوجھا دخلت حضشا ولبست شرّ ثیابھا ولم تمس طیبا حتی تمربھا سنة، ثم تؤتی بدابة حمار أوشاة أو طائر فتفتض بہ، فقلما تفتض بشيء إلا مات، ثم تخرج فتعطی بعرة فترمی بھا ثم تراجع بعد ماشاء ت من طیب أو غیرہ․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الطلاق، باب تحد المتوفی عنھا اربعة أشھر وعشرا، رقم:5336، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الطلاق، باب وجوب الاحداد فی عدة الوفاة، رقم:3727،3728، وسنن أبی داود، کتاب الطلاق، باب احداد المتوفی عنھا زوجھا،:1/314)

ایک عورت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی او رعرض کرنے لگی کہ اے الله کے رسول! میری بیٹی کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں تکلیف ہے، کیا میں اسے سرمہ لگاسکتی ہوں؟ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس عورت نے دو یا تین مرتبہ پوچھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر مرتبہ فرمایا نہیں، اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شرعی عدت چار مہینے دس دن ہی ہیں اور تم عورتیں زمانہ جاہلیت میں (شوہر کے مرنے پر) سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھیں۔ حدیث کے راوی حمید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زینب رضی الله عنہا سے پوچھا کہ سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکنے کا کیا قصہ ہے؟ تو حضرت زینب نے فرمایا (کہ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا) کہ جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جاتا تھا تو وہ ایک جھونپڑے میں داخل ہوجاتی اور بدترین کپڑے پہنتی اور خوش بو استعمال نہیں کرتی تھی، یہاں تک کہ اس پر پورا سال گزر جاتا، پھر کوئی جانور گدھا یا بکری یا پرندہ اس کے پاس لایا جاتا اور وہ عورت اس جانور سے اپنی شرم گاہ رگڑتی تو اکثر دفعہ یہ جانور مر جاتا، پھر وہ عورت باہر آتی تو اسے اونٹ کی مینگنی د ی جاتی تو عورت اسے پھینک دیتی، اس کے بعد وہ عورت خوش بو وغیرہ جو چاہتی استعمال کرتی۔

”ابن قتیبہ رحمہ الله حدیث کا لفظ ”فتفتض بہ“ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے حجازیین سے افتضاض کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا:”المعتدة کانت لا تمس ماء ولا تقلم ظفرا، ولا تزیل شعرا ثم تخرج بعد الحول بأقبح منظر ثم تفیض أی تکسر ماھی من العدة بطائر تمسح بہ قبلھا وتنبذہ فلا یکاد یعیش بعد ما تفتض بہ․(فتح الباری، کتاب النکاح:9/612)

یعنی معتدہ نہ پانی کو ہاتھ لگاتی تھی، نہ ناخن کاٹتی، نہ بالوں کو صاف کرتی، ایک سال کے بعد وہ تنگ کوٹھڑی سے بہت بری صورت میں نکلتی اور عدت کی پابندیوں کو ایک پرندے کے ذریعے ختم کر ڈالتی، اس طرح سے کہ اس پرندے سے اپنی شرم گاہ کو پونچھتی اور پھر اس کو پھینک دیتی، وہ پرندہ اس کی وجہ سے عموماً زندہ نہیں رہتا تھا، یعنی اس گندگی کی وجہ سے اس عورت کے جسم میں ایسے جراثیم پیدا ہو جاتے تھے کہ جس کی وجہ سے وہ پرندہ مر جاتا تھا۔

اسلام سے پہلے عورت کے ساتھ ایک اور بڑا ظلم یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی کی بچی پیدا ہوجاتی تھی تو اس کو زندہ درگور کر دیتے تھے، جس کا ذکر قرآن میں ہے:﴿وَإِذَا الْمَوْء ُودَةُ سُئِلَتْ﴾․

ایک صحابی ہیں صعصعہ بن ناجیہ رضی الله عنہ ، وہ اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت کاا پنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں میری دو اونٹنیاں گم ہو گئیں، میں ان اونٹنیوں کی تلاش میں نکلا، دیکھا کہ جنگل میں ایک جگہ سے آگ کی روشنی نظر آرہی ہے، میں وہاں پہنچا توایک آدمی بیٹھا ہوا ہے ،میں نے اس آدمی سے اپنی اونٹنیوں کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ ہاں وہ اونٹنیاں دیکھی ہیں، اور ان اونٹنیوں کی وجہ سے ہمارا گزر بسر ہو رہا ہے، اس دوران اس کے خیموں سے آواز آئی ،بچی پیدا ہوئی ہے، تو اس آدمی نے کہا کہ اگر بچہ ہوتا تو اس کو پالتا، لیکن بچی ہوئی ہے تو اس کے لیے گڑھا کھودتا ہوں اوراس کو دفن کرتا ہوں، تو صعصعہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس آدمی سے کہا کہ وہ دو اونٹنیاں بھی تمہاری اور یہ اونٹ جس پر میں سوار ہو کر آیا ہوں یہ بھی تمہارا او راس بچی کو مت دفن کرو، مجھے دے دو، میں اس کی پرورش کروں گا، چناں چہ اس آدمی نے وہ بچی مجھے دے دی او را س کے بعد جب بھی مجھے کسی کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ اپنی بچی دفن کرنا چاہ رہا ہے تو میں دو اونٹنیاں اورایک اونٹ اسے دے کر بچی لے لیتا، اس طرح میں نے 360 بچیاں بچالیں، جب حضرت صعصعہ رضی الله عنہ ایمان لائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کفر کی حالت میں جو میں نے یہ عمل کیا ہے کیا اس عمل پر مجھے اجر ملے گا؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اجر ملے گا۔

عن صعصعة بن ناجیة المجاشعی وھو جد الفرزدق بن غالب قال: قدمت علی النبی صلی الله علیہ وسلم فعرض علي الإسلام فأسلمت وعلمنی آیات من القرآن فقلت یا رسول الله! إنی عملت أعمالا فی الجاھلیة فھل لی فیھا من أجر؟ قال وما عملت؟ فقلت ضلت ناقتان لی عشراوان فخرجت أتبعھما علی جمل لی فرفع لی بیتان فی فضاء من الارض، فقصدت قصدھما فوجدت فی أحدھما شیخا کبیرا، فقلت: أحسستم ناقتین عشراوین فأنادیھما فقال مقسم بن دارم قد أصبنا ناقتیک وبعناھما وقد نعش الله بھما أھل بیتین من قومک من العرب من مضر، فبینما ھو یخاطبنی إذ نادتہ امرأة من البیت الآخر ولدت ولدت، قال وما ولدت، إن کان غلاما فقد شرکنا فی قومنا وإن کانت جاریة، فادفنیھا، فقالت جاریة، فقلت وما ھذہ المولودة؟ قال ابنة لی، فقلت إنی أشتریھا منک، فقال: یا أخابنی تمیم أتبیع ابنتک وإنی رجل من العرب من مضر؟ فقلت: إنی لا أشتری منک رقبتھا، بل إنما اشتری منک روحھا أن لا تقتلھا، قال: بم تشتریھا؟ فقلت: بناقتی ھاتین وولدھما، قال وتزیدنی بعیرک ھذا؟ قلت: نعم علی أن ترسل معی رسولا فإذا بلغت إلی أھلی رددت إلیہ البعیر، فلما کان فی بعض اللیل فکرت في نفسی أن ھذہ مکرمة ما سبقنی إلیھا أحد من العرب وظھر الإسلام وقد أحییت بثلاثمائة وستین من الموء ودة، اشتری کل واحدة منھن بناقتین عشر اوین وجمل فھل لی فی ذلک من أجر؟

فقال النبی صلی الله علیہ وسلم: تم لک أجرہ إذ من الله علیک بالإسلام․( المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ذکر صعصعة بن ناجیة المجاشعی، رضی الله عنہ، رقم الحدیث:6562،3/707)

دختر کشی کے اس ظالمانہ اور وحشیانہ رواج کا نقشہ مولانا حالی نے ”مسدس حالی“ میں یوں کھینچا ہے:
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوف شماتت سے بے رحم مادر
بپھرے دیکھتی تھی جب شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
(مسدس حالی، ص:14، تاج کمپنی)

آج جو حضرات مغربی ممالک جاچکے ہیں ان کو علم ہو گا، میں خود گیا ہوں او راپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مغرب میں عورت کتنی مظلوم ہے، عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔

ظہور اسلام سے قبل عرب میں عورت پر ظلم زیادتی کا کچھ ذکر تو آچکا ہے، بخاری شریف کی روایت ہے،حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں چار طرح کا نکاح تھا، ایک نکاح تو یہی تھا، جو آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک آدمی دوسرے کے پاس اس کی ولیہ یا اس کی بیٹی کا پیغام بھیجتاتھا او رمہر دے کر اسے بیاہ لاتاتھا، نکاح کا دوسراطریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی سے کہتا کہ جب تو ایام سے پاک ہو جائے تو فلاں مرد کے پاس چلی جانا او راس سے فائدہ حاصل کر لینا، پھر شوہر اس عورت سے جدا ہو جاتا تھا او راس کے قریب نہ جاتا تھا،جب تک اس مرد کا حمل ظاہر نہ ہو جاتا، جب اس کا حمل ظاہر ہو جاتا تو اس کا شوہر جب دل چاہتا اس عورت کے پاس چلا جاتا، یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا کہ بچہ اچھی نسل کا پیدا ہو۔

نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ دس سے کم آدمیوں کا ایک گروہ جمع ہو کر ایک عورت کے ساتھ صحبت کرتا تھا، جب عورت کو حمل ٹھہر جاتا اور اس کا بچہ پیدا ہو جاتا تو کچھ دن گزرنے کے بعد وہ سب کو بلواتی، ان میں سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا، جب وہ سب اس کے پاس جمع ہوجاتے تو وہ کہتی تم سب کو اپنا حال معلوم ہے جو کچھ تھا، میرا بچہ پیدا ہوا ہے، اے فلانے! یہ تیرا بیٹا ہے، جو نام تجھے پسند ہو وہ نام اس بچے کا رکھ لے اور وہ بچہ اس آدمی کا ہو جاتا اور اسے انکار کرنے کی مجال نہ ہوتی تھی۔

چوتھی قسم کا نکاح یہ تھا کہ بہت سے مرد ایک عورت کے ساتھ صحبت کرجایا کرتے تھے اور وہ اپنے پاس کسی آنے والے کو منع نہیں کیا کرتی تھی، درحقیقت یہ طوائف ہوتی تھیں۔ یہ بطور نشانی اپنے گھروں پر جھنڈ ے نصب کر لیا کرتی تھیں کہ جو چاہے ان سے صحبت کرے،جب ان میں سے کسی ایک کا حمل ٹھہر جاتا تھا او ربچہ پیدا ہو جاتا تو وہ سب جمع ہو کر علم قیافہ کے جاننے والے کو بلاتے، وہ قیافہ شناس بچے کو اس میں سے جس شخص کے مشابہ بتاتا تھا،اسی کے ساتھ بچے کو ملا دیتا، وہ بچہ اس شخص کا بیٹا کہہ کر پکارا جاتا اور وہ مرد اس کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔

اسلام نے زمانہ جاہلیت کے تمام نکاح باطل کر دیے، صرف آج کل کے نکاح کا مروجہ طریقہ باقی رکھا گیا۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب النکاح، باب من قال: لانکاح إلا بولی، رقم:5127)

اس روایت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کیسی گندگیوں اور تاریکیوں میں تھے او رپھر آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت او رتعلیم وتربیت نے ان کو آسمان ہدایت کا چاند اور سورج بنا دیا ۔

شغار کی ممانعت
زمانہ جاہلیت میں ایک طریقہ”نکاح شغار“ کا تھا اور نکاح شغار یہ ہوتا تھا کہ دو مرد ایک دوسرے سے اپنی محرم خاتون کا نکاح کرتے تھے اورایک نکاح کو دوسرے کے لیے مہر ٹھہراتے تھے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ (الجامع للصحیح للبخاری، کتاب النکاح، باب الشغار، رقم:5112)

اسی طرح زمانہ جاہلیت میں یہ ظالمانہ رسم چلی آتی تھی کہ جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جاتا تو اس کے ورثاء اس عورت کو بھی میراث کا حصہ سمجھ کر اس کے اس معنی میں مالک بن بیٹھتے تھے کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر نہ دوسری شادی کرسکتی تھی او رنہ زندگی کے دوسرے اہم فیصلے کرنے کا حق رکھتی تھی۔

اسلام نے اس ظالمانہ رسم کو ختم فرما دیا۔

قرآن کی آیت ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء کَرْہاً﴾․(سورة النساء، آیت:19)
اے ایمان والو! یہ بات تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو۔(الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة النساء، آیت:19،5/70)

اسی طرح ایک اور ظالمانہ رسم یہ تھی کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتا کہ جو مہر ان کو دے چکا ہے وہ اسے واپس مل جائے تو وہ اپنی بیوی کو طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کر دیتا تھا، مثلاً وہ اس کو گھر میں اس طرح مقید رکھتا تھا کہ وہ اپنی جائز ضروریات کے لیے بھی گھر سے باہر نہیں جاسکتی تھی، اس طرح ستانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ بے چاری، مجبو رہو کر شوہر سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے اسے خود یہ پیش کش کرے کہ تم اپنا مہر واپس لے لو او رمجھے طلاق دے کر میری جان چھوڑ دو، الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس سے بھی منع فرمایا:﴿وَلَا تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ إِلَّا أَن یَأْتِینَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ﴾․(سورة النساء، آیت:19، الجامع لأحکام القرآن للقرطبی:5/71)

اسی طرح زمانہ جاہلیت کی ایک ظالمانہ رسم یہ بھی تھی کہ بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے، باپ کے مرنے کے بعد، بغیر مہر کے نکاح کر لیتا تھا او راگر وہ خود اپنی سوتیلی ماں سے نکاح نہ کرتا تو وہ خود کو اس سوتیلی ماں کا مالک سمجھتا، اگر وہ چاہتا توکسی اور مرد سے اس کا نکاح کر دیتا او راس کا مہر خود وصول کرتا اور یا سوتیلی ماں کو ویسے چھوڑے رکھتا اور اس پر ظلم کرتا، تاکہ وہ فدیہ دے کر اپنے آپ کو آزاد کرائے۔ ( السیرة الحلبیة:1/41، المکتبة الاسلامیة)

یہودیوں کا یہ طریقہ تھا کہ بعض خاص حالات میں عورتوں کو گھروں سے نکال دیا کرتے تھے، عیسائی گناہ اور عورت کو ایک ہی چیز قرار دیتے تھے، رومی تہذیب میں عورت کی حیثیت ایک غلام کی تھی، بدھ مت میں عورت کے بارے میں خیالات ایک بدھ مت مفکر نے نقل کیے ہیں، وہ لکھتا ہے:” پانی کے اندر مچھلی کی ناقابل فہم عادتوں کی طرح عورت کی فطرت بھی ہے، اس کے پاس چوروں کی طرح متعدد حربے ہیں اور سچ کا اس کے پاس گزز نہیں۔“

ہندوستان میں عورت کی حالت
ہندوستان میں ہندؤوں کے ہاں عورت پر ظلم کے ایسے عجیب وغریب ظالمانہ رسوم ورواج تھے کہ جن کو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ہندؤوں کے ہاں جب عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ عورت بھی اپنے خاوند کے ساتھ زندہ آگ میں جل جاتی اور اگر وہ عورت اپنے خاوند کے ساتھ زندہ جلنے کو اختیار نہ کرتی تو ایسی عورت بے وفا سمجھی جاتی اور اس کی زندگی موت سے بدتر ہوتی، وہ عورت کبھی دوسری شادی نہ کرسکتی، اس کی قسمت میں طعن وتشنیع اور ذلت وتحقیر کے سوا کچھ نہ ہوتا، بیوہ ہونے کے بعد اپنے خاوند کے گھر والوں کی لونڈی بن کر رہنا پڑتا۔
چناں چہ ”ابن بطوطہ“ نے اپنی کتاب ”رحلة“ میں ہندوستان کے حالات میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں ہندوؤں میں جب خاوند فوت ہو جاتا تو اس کی بیوی کو بناؤ سنگار کے ساتھ سوار کیا جاتا اورلوگوں کا ہجوم ساتھ ہوتا، ہندؤوں کے پنڈت ساتھ ہوتے اور وہاں کے مسلم حکم ران سے اجازت مانگتے، یہ چوں کہ ہندؤوں کی مذہبی رسم تھی، اس لیے مسلم حکم ران روکنے کی کوشش تو کرتے تھے ،لیکن زیادہ زور زبردستی سے کام نہیں لیتے تھے اور یہ ضرور تھا کہ ہندو وہاں کے مسلم حاکم کی اجازت کے بغیر یہ رسم نہیں کرسکتے تھے۔

او رپھر ”ابن بطوطہ“ نے اپنی آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک ہندو عورت، جس کا وخاند مر چکا تھا تو اس کو بناؤسنگار کراکے سوار کیا گیا، اور لوگوں کا ہجوم ساتھ تھا، میں بھی دیکھنے کے لیے ساتھ چلا گیا، ایک ایسی اندھیری جگہ میں پہنچے جو جہنم کی وادی لگ رہی تھی اور وہاں پرآگ جلا کر عورت اپنے مردہ خاوند کے ساتھ جل کر راکھ ہو گئی۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھے”رحلة ابن بطوطہ، ذکرأھل الھند الذین یحرقون انفسھم بالنار:2/17-16)

اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ
اسلام نے عورت کی پیدائش سے لے کر اس کے بڑھاپے تک ہر موقع پر خیال رکھا ہے۔

چناں چہ بیٹی کی پیدائش پر قرآن کریم نے کفار کی حالت بیان کی ہے:﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُم بِالْأُنثَیٰ ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیمٌ ، یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوء ِ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلَیٰ ہُونٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ أَلَا سَاء َ مَا یَحْکُمُونَ﴾(سورة النحل، آیت:59-58)
”اور جب ان (کفار) میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے، اس خوش خبری کو برا سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور (وہ سوچتا ہے کہ ) ذلت برداشت کرکے اسے اپنے پاس رہنے دے یا اسے زمین میں دفن کر دے، دیکھو! انہوں نے کتنی بری باتیں طے کر رکھی ہیں“

جب کہ اسلام نے بیٹی سے حسن سلوک کی تاکیدبیٹے کی بنسبت زیادہ کی ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ومن کانت لہ انثی فلم یئدھا ولم یھنھا ولم یؤثر ولدہ علیھا أدخلہ الله الجنة“․(سنن ابی داود، کتاب الأدب، باب في فضل من عال یتامی، رقم:5146) جس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، پس وہ نہ اسے زندہ درگور کرے اور نہ ذلت کی حالت میں رکھے او رنہ اولاد نرینہ کو اس پر ترجیح دے تو الله تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔

مسلم شریف کی روایت ہے: آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیامة أنا وھو وضمَّ أصابعہ“․ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البر، باب فضل الاحسان إلی البنات، رقم:6695، وسنن الترمذی، ابواب البر والصلة، باب النفقة علی البنات والاخوات، رقم:1914)

جس نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح آئیں گے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملا کردکھایا۔

اسی طرح حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت ہے:” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من عال ثلاث بنات أو مثلھن من اللأخوات فأدبھن ورحمھن حتی یغنیھن الله أوجب الله لہ الجنّة، فقال رجل: یا رسول الله! واثنتین؟ قال: واثنتین، حتی قالوا:أو واحد؟ لقال: واحدة․ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، رقم:4975)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش کی، انہیں تعلیم وتربیت دی اور ان کے ساتھ رحمت اور شفقت کا برتاؤ کیا، یہاں تک کہ الله تعالیٰ انہیں بے نیاز کر دے، (یعنی ان کی شادی ہو جائے اور وہ اپنے خاوند کے گھر چلیجائیں) تو ایسے شخص کے لیے الله نے جنت واجب کر دی، ایک شخص نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! اگر کسی کی دو ہی بیٹیاں ہوں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر دو ہی بیٹیاں ہیں تو دو کی پرورش پر بھی یہی اجر ہے۔

حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک بیٹی کے بارے میں پوچھتے، یعنی اگر کسی کی ایک ہی بیٹی ہو اور وہ اس کی پرورش کرے تو آپ صلی الله علیہ وسلم ایک بیٹی کی پرورش پر بھی یہی اجر ملنے کا فرماتے۔
ایک اور مسلم شریف کی روایت ہے،حضرت عائشہ رضی الله عنہما فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، مجھ سے اس نے سوال کیا، اس وقت میرے پاس صرف ایک کھجور تھی، وہی میں نے اس کو دے دی،اس نے اس کھجور کو دوٹکڑے کرکے دونوں بچیوں میں تقسیم کر دیا اور خود کچھ نہ کھایا، پھر وہ اٹھ کر چلی گئی، اس کے بعد جب نبی کریم صلی الله علیہ و سلم تشریف لائے تو میں نے یہ واقعہ عرض کیا، آپ صلی ا لله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لڑکیوں کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کیا جائے، یعنی اس کے ہاں لڑکیاں ہی پیدا ہوں او رپھر وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگے سے ڈھال بن جائیں گی۔(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البر، باب فضل الإحسان إلی البنات، رقم:6693)

سید الانبیاء سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم کی صرف چار بیٹیاں ہی حیات رہیں،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی الله عنہا سے اولاد، قاسم او رعبدالله جن کو طیب اور طاہر بھی کہتے ہیں، دو بیٹے پیدا ہوئے او رچار بیٹیاں، زینب ، رقیہ، فاطمہ اور ام کلثوم پیدا ہوئیں، اور دونوں بیٹے قاسم اورعبدالله بچپن ہی میں فوت ہو گئے اور چاروں بیٹیاں زندہ رہیں، اسی طرح مدینہ منورہ میں حضرت ماریہ رضی الله عنہاکے بطن سے ابراہیم پیدا ہوئے اور وہ بھی بچپن میں فوت ہوگئے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد، ذکر اولاد رسول الله صلی الله علیہ وسلم وتسمیتھم:1/133) (جاری)