عورتوں کی دینی تعلیم نسل نو کی دینی تعمیر ہے

عورتوں کی دینی تعلیم نسل نو کی دینی تعمیر ہے

مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی

الله تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، انہیں عقل وشعورعطا کیا ہے، سمجھ وفہم کی دولت سے مالا مال کیا ہے، زبان وبیان کی قوت عطا کی ہے اور ظاہری خوبیوں کے ساتھ بہت سی باطنی خوبیوں کی دولت بھی عطا کی ہیں، انسانوں میں مردوں اورعورتوں کو الگ الگ خصوصیات سے نوازا ہے؛ اگر طاقت وقوت مردوں کی شان ہے تو خوب صورتی ونزاکت عورتوں کا زیور ہے، مردوں کو باپ بننے کا شرف حاصل ہے تو عورتوں کو ماں بننے کا فخر حاصل ہے، مرد وعورت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں، زندگی کی تازگی وتابندگی ایک دوسرے کی رفاقت میں مضمر ہے، نسل ِ انسانی کی بقا کا انحصار ان دونوں کے ساتھ وابستہ ہے، مردوعورت معاشرے کے دو اہم ترین ستون اور انسانی انجمن کو روشنی پہنچانے میں مثل شمس وقمر ہیں، اسلام نے مردوں کو بحیثیت مرد ہونے کے اور عورتوں کو بحیثیت عورت ہونے کے جو مقام ومرتبہ عطا کیا ہے اور جس قدرعزت وعظمت سے نوازا ہے یقینا دنیا کے کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی، بلکہ اس کا عشر عشیر ملنا بھی ناممکن ہے، اسلام نے مردوں اور عورتوں کے کندھوں پر ان ہی چیزوں کی ذمہ داری ڈالی ہے جس کے اٹھانے کی وہ طاقت وقوت رکھتے ہیں، تخلیقی لحاظ سے وہ جن چیزوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسلام نے بھی اُن ہی کاموں کا انہیں مکلف بنایا ہے، شریعت اسلامی میں ان کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے دونوں کے الگ الگ حقوق بیان کیے گئے ہیں، ایک دوسرے کو ان کی ادائیگی کا پابند بنایا ہے اورانہیں تعلیم دی کہ وہ زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے حقوق کا مکمل پاس ولحاظ رکھیں اور مکمل رعایت کے ساتھ ایک دوسرے سے برتاؤ کریں، اسلام نے تحصیل علم کے لیے مردوں اور عورتوں دونوں ہی کو ترغیب دی ہے اور دونوں ہی کے لیے علم کو زینت قرار دیا ہے، علم انسان کا ایسا زیور ہے جس کی چمک دمک کے سامنے دنیا کے سارے ہیرے جوہرات کی چمک ماند پڑ جاتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ علم کو نور اور جہالت کوتاریکی سے تشبیہ دی گئی ہے، علم رفعت وبلندی ہے تو جہالت پستی وتنزلی ہے، علم مینارہٴ نور ہے تو جہالت اندھیرے کا گڑھا ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے دینی اور اسلامی علوم کے بقدر ضرورت سیکھنے کو فرض قرار دیا ہے؛ کیوں کہ علم دین سے خدا کی مرضی معلوم ہوتی ہے، اس کے احکامات کا علم ہوتا ہے، اس کی ناراضگی ورضا مندی سے واقفیت ہوتی ہے اور زندگی گزارنے میں کن چیزوں کی پابندیاں ضروری ہیں ان کا علم ہوتا ہے ؛ کیوں کہ جب تک دین کا علم حاصل نہیں ہوتا تب تک اس کی مرضی نا مرضی بھی معلوم نہیں ہوسکتی، انسان کو دنیوی زندگی گزارنے میں حکم الہٰی کا پابند بنایا گیا ہے، وہ خود کی مرضی نہیں، بلکہ رب کی مرضی کا مکلف ہے اور اسی میں اس کی بھلائی کام یابی اور خدا کی خوش نودی مضمر ہے۔

زمانہٴ نبوت میں عورتوں کاجذبہٴ علم
اسلام نے روزِ اول ہی سے علم دین کی طرف مردوں اور عورتوں کی توجہ مبذول کروائی ہے اور حصول علم دین کی انہیں ترغیب دلاتا رہا ہے، زمانہ نبوت میں علم دین دیکھنے کا مرد جتنا شوق رکھتے تھے عورتیں بھی اسی قدر جذبہ رکھتی تھیں، رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی مجالس سے جہاں صحابہ استفادہ کرتے تھے وہیں صحابیات بھی مستفید ہوا کرتی تھیں؛ بلکہ ان کا جذبہ اور شوق دیکھ کر تعلیم دین کے لیے ہفتہ میں ایک دن آپ صلی الله علیہ و سلم ان کے لیے مقررفرمایا تھا، اس دن کے علاوہ ضرورت پڑنے پر صحابیات وفود کی شکل میں حاضر خدمت ہو کر مسائل شرعیہ معلوم کرتی تھیں،خواتین کی تعلیم وتربیت کا یہ اہتمام زمانہ نبوت میں اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ بسا اوقات صحابہ کرام کا نکاح محض قرآنی سورتوں کی تعلیم کے عوض میں کر دیا جاتا تھا، صحابیات کا علمی شوق وذوق، علم دین سے حددرجہ دل چسپی اور علمی شغل نے انہیں بہت اونچا مقام عطا کیاتھا، حافظ ابن قیم نے ایسی بائیس صحابیات  کی تصریح کی ہے جو فقہ وفتویٰ میں مشہور تھیں، ان کے بعد تابعیات نے بھی علم حدیث، فقہ وفتویٰ میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دیں، خواتین میں، خاص کرازواج مطہرات نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی قربت ورفاقت کا فائدہ اٹھا کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے خوب خوب علمی استفادہ کیا تھا، خاص کر”ام المؤمنین حضرت عائشہ، ام المؤمنین حضرت ام سلمہ، ام المؤمنین حضرت حفصہ، ام المؤمنین ام حبیبہ اور ام المؤمنین میمونہ“

حضرت عائشہ کی علمی دل چسپی او رمقام
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ درس گاہ نبوت کی سب سے کام یاب طالبہ او رامت ِ مسلمہ کی سب سے بڑی معلمہ تھیں، ام المؤمنین آپ صلی الله علیہ وسلم سے علمی سوالات کیا کرتی تھیں اور جواب معلوم کرکے دوسروں کو بتایا کرتی تھیں؛ چناں چہ ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جس کے تین بچے ہوئے اور فوت ہو گئے تو قیامت کے دن یہ تین بچے اس کی شفاعت کریں گے اور قیامت کے دن اپنے والدین کو ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے، یہ سن کرام المؤمنین نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیاکہ اگر کسی کے دو بچے فوت ہو جائیں تو اس کا کیا ہوگا آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اس کی شفاعت کریں گے اور والدین کو جنت میں لے جائیں گے؛ پھر پوچھا! اگر کسی کا ایک بچہ فوت ہو جائے تو اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایک بچہ بھی اس کی شفاعت کرے گا او راپنے والدین کو جنت میں لے جائے گا، اس کے بعد ام المؤمنین نے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہو جائے او راتنا وقت گزر گیا کہ بچے میں جان پیدا ہو گئی، مگر کسی وجہ سے یہ حمل ضائع ہو گیا او رماں نے اس موقع پر جو تکلیف برداشت کی کیا اس پر اسے اجر ملے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا” وہ بھی اس کی سفارش کرے گا او رانہیں جنت میں لے جائے گا“۔ ام المؤمنین کے سوالات نے قیامت تک کے لیے امت کو زبان نبوت سے جواب فراہم کرکے عظیم سہولت اور فوت ہو جانے والے بچوں کے ماں باپ کو دخول جنت کی بشارت سنائی، ام المؤمنین اپنی علمی صلاحیت، ذہانت اور علمی شوق ذوق کی بنا کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوالات کیا کرتی تھیں اور زبان نبوت سے نہایت قیمتی جوابات حاصل کرکے اسے اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا کرتی تھیں، ام المؤمنین نے مشکوٰة نبوت سے جو کچھ علم حاصل کیا ہے اسے دیکھ کر ان کے بارے میں کہا گیا کہ ”نصف دین ان سے حاصل کیا جائے“ یہ نصف دین مقدار کے لحاظ سے نہ بھی ہو تو کیفیت کے لحاظ سے ضرور نصف دین ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ حدیث نبوی کے پانچ بڑے راویوں میں سے ایک ہیں؛ بلکہ خواتین میں احادیث نبوی کی سب سے بڑی راویہ ہیں، انہیں دور صحابہ  کے ان سات بڑے مفتیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو خلافت ِ راشدہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے، وہ قرآن کریم کی مفسرہ اور احکام اسلام کی حکمت بیان کرنے میں امتیاز ی شان رکھتی تھیں، فقہی باریکیوں سے مکمل واقفیت رکھتی تھیں؛ یہی وجہ تھی کہ اجتہاد کا حق پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کرتی تھیں،ام المؤمنین کو علم شریعت کے علاوہ علم کلام، علم عقائد ، علم اسرار الدین، علم طب، تاریخ، ادب، خطابت اور شاعری میں بھی اچھی دست گاہ حاصل تھی، بڑے بڑے صحابہ  وتابعین آپ سے علمی استفادہ کرتے تھے اور دور دراز سے علم کے شوقین آپ  کی خدمت میں حاضر ہو کر علم حاصل کرتے تھے، آپ  نے تقریباً نصف صدی تک مدینہ منورہ میں مسند تدریس کو زینت بخشی، آپ  سے براہ راست حدیث کا علم حاصل کرنے والوں کی تعداد دو سو (200)سے زائد بیان کی جاتی ہے، جن میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی شامل تھے، امام المفسرین حضرت ابن عباس آپ کے شاگرد ہیں او رانہوں نے بھی آپ سے خوب علمی استفادہ کیا ہے، پردے کے پیچھے بیٹھ کر تفسیری نکات پوچھا کرتے تھے، آپ کے سب سے بڑے شاگرد آپ کے بھانجے عروہ بن زبیر ہیں۔

حضرت ام سلمہ کی علمی دل چسپی
ام المؤمنین ام سلمہ کا شمار بھی علمی اعتبار سے بہت بلند تھا، انہیں علم دین سیکھنے کا غیر معمولی شوق تھا، یہ ہر وقت متوجہ رہا کرتی تھیں اور ان کے کان ہر وقت مسجد نبوی کی جانب متوجہ رہتے تھے، جیسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم منبر رسول پر جلوہ افروز ہوتے وہ اپنے حجرہ میں دیوار سے لگ کر کھڑی ہو جاتیں اور بڑی توجہ کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات وفرمودات سماعت کرکے اسے یاد کر لیا کرتی تھیں،حضرت ام سلمہ سے بھی بہت سی روایات مروی ہیں۔

خواتین اسلام میں تعلیم وتعلم کا سلسلہ زمانہ نبوت سے شروع ہوا اور ہر دور میں جاری رہا، علمی تاریخ میں ایسی خواتین کے نام موجود ہیں جنہیں علم وفضل، تفسیر وحدیث ، فقہ وفتویٰ علمی مہارت اور تقوی وورع کی وجہ سے اپنے دور کے بڑے بڑے علماء ومحدثین، مفسرین اورواعظین پر فوقیت حاصل تھی، حفصہ بنت سیرین ام المؤمنین حضرت عائشہ کی خاص شاگردہ تھیں، ان کے متعلق حضرت ایاس فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں حسن بصری اور ابن سیرین پر حفصہ کو فضیلت حاصل ہے، مشہور محدث وعظیم فقیہ امام مالک ،جنہیں فقیہ مدینہ کہا جاتا ہے، ان کی صاحب زادیاں کمال درجہ کا علم رکھتی تھیں، ان کی عبارت حدیث اور اسماءِ رجال پر گہری نظر تھی، امام مالک جب درس حدیث کے لیے مسجد نبوی میں بیٹھتے تو پردے کے پیچھے آپ کی صاحب زادیاں بھی بیٹھتی تھیں اور جب مرد حضرات حدیث شریف کی تلاوت کرتے اور دوران تلاوت کہیں غلطی ہوتی تو یہ پردے کے پیچھے سے ایک لکڑی کو دوسری لکڑی پر مار کر انہیں غلطی سے آگاہ کرتی تھیں، مشہور امام ابو جعفر طحاوی ،جنہوں نے حدیث کی کتاب طحاوی شریف لکھی ہے ،جو مدارس دینیہ کے نصاب میں داخل ہے، امام طحاوی حدیث بیان کرتے تھے اور ان کی لائق بیٹی اسے تحریر کرتی تھیں، اس طرح طحاوی شریف کی تصنیف میں ان کی بیٹی کا بھی حصہ ہے، طحاوی شریف کی تصنیف سے لے کر آج تک جتنے لوگ بھی اسے پڑھ رہے ہیں ،ان کے علم میں امام طحاوی کی بیٹی کا بھی حصہ ہے ،بلکہ یہ سب روحانی اعتبار سے ان کے شاگرد ہیں۔

تاریخ اسلام میں ایسی عظیم او رجلالت علم رکھنے والی خواتین کے نام ہیں جنہوں نے اپنے علم وفضل، ذہانت وقابلیت اور عزم وحوصلہ کی چٹان بن کر دینی وعلمی راہوں کی، ہر رکاوٹ دور کرتے ہوئے، وہ علمی خدمات انجام دی ہیں جن پر بجا طور سے علمی تاریخ ناز کرتی ہیں، انہوں نے نامساعد حالات اورگھریلو مصروفیات کے باوجود دینی، علمی اور تدریسی سفر جاری رکھا، اپنے گھروں سے علم کی شمع روشن کی اور پورا محلہ، شہر، بلکہ ملکی سرحدوں کو پار کرکے دور دراز تک اس کی روشنی بکھیر دی، ان کی محنت، جہد مسلسل او رجذبہ علمی نے ہزاروں کی تعداد میں مرد وخواتین کو دینی علم سے روشناس کرایا اور ہزاروں گھروں کو دینی، علمی اور عملی گہواروں میں تبدیل کیا اور نہ جانے کتنے خاندانوں میں علم وعمل کی چنگاری کو شعلہ میں بدل ڈالا، انہیں کے بطن سے ان لوگوں نے جنم لیا جنہوں نے ان کی تربیت میں رہ کر علمی عملی وہ مقام حاصل کیا جن کی جو تیاں سیدھی کرنے کو سلاطین اپنی سعادت سمجھتے تھے، کسی نے سچ کہا ہے کہ مرد کے بننے سے فرد بنتا ہے او رخاتون کے بننے سے پورا خاندان بنتا ہے، بچپن میں اولاد پر باپ کی قابلیت وتربیت کا اتنا اثر نہیں پڑتا جتنا کہ ماں کی قابلیت اور تربیت کا پڑتا ہے، باپ اپنی اولا دکو سکھاتا ہے، لیکن ماں کے طرزِ عمل سے بچے بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں، بچپن میں ماں کی دینی تربیت باہر کی دنیا میں بچے کو بگڑنے سے بچاتی ہے، مردوں کے مقابلہ میں گھر کے ماحول کو بنانے او ربگاڑنے میں عورتوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے ؛ اگر عورتیں دینی تعلیم سے آراستہ ہو جائیں، اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں او رگھر کے ماحول کو دینی سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں تو گھروں میں اس تیزی سے انقلاب برپا ہوسکتا ہے جس تیزی سے ڈھلان کی طرف پانی آتا ہوا نظر آتا ہے۔ گھروں میں دینی ماحول کے فروغ کے لیے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی دینی تعلیم بے حد ضروری ہے او رگھروں کے ساتھ پورے معاشرہ کو اسلام دشمنوں کے جال میں پھنسنے سے بچاتی ہیں؛ اگر گھریلو ماحول کو دینی ماحول میں تبدیل کرنا ہے اور اولاد کو دین دار بنانا ہے تو اس کے لیے لڑکیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا نہایت ضروری ہے، اسی وجہ سے اسلام نے عورتوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دی ہے اور انہیں زیور علم سے آراستہ کرنے کی تاکید کی ہے، جن گھروں میں خواتین دینی علوم کی حامل ہیں اور احکام شرعیہ اور سیرت نبوی سے واقف ہیں ان کی گودوں سے اسلام کے ایسے سپاہی پیدا ہوئے جن کی صورت اور عملی سیرت دیکھ کر دشمن دوست بنے او رغیراپنے بننے پر مجبور ہو گئے ،خدا کا شکر ہے کہ لڑکوں کی دینی دانش گاہوں کے ساتھ لڑکیوں کی دینی درس گاہیں بھی قائم ہوچکی ہیں، جن میں لڑکیوں کی دینی تعلیم وتربیت کا مکمل نظم موجود ہے ، یہ ادارے زبان حال سے امت ِ مسلمہ سے کہہ رہے ہیں کہ عصری کالجز اور یونی ورسٹیوں میں ڈگریاں تو مل سکتی ہیں مگر میراث نبوت تو صرف اور صرف ان ہی دینی جامعات میں بٹتی ہیں، اگر لڑکیاں حلال وحرام، جائز وناجائر سے او راحکام شرعیہ سے واقف ہو جاتی ہیں تو یقینا گھریلو ماحول کوبدلنا بہت آسان ہو جاتاہے، کیوں کہ عورت کو الله تعالیٰ نے وہ قوت ِ ارادی عطا کی ہے جس سے وہ طاقت ور مرد کو اپنے قابو میں کرسکتی ہے ۔

گھر کا دینی ماحول نہ صرف گھر کے افراد، بلکہ باہر کے احوال درست کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے او ربلاشبہ خواتین کی دینی تعلیم وتربیت فرد کے ساتھ افراد کے تربیت کا ذریعہ بن سکتیہے،دینی تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت کو سمجھتے ہوئے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں اور خاص کر اپنی بچیوں کو علوم اسلامی کے حاصل کرنے کے لیے انہیں بنات کے دینی مدارس میں داخل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو دینی علوم کا حامل، گھر کو دین اسلام کا گہوارہ اور اپنی آنے والی نسل کو دین بے زار، بلکہ بے دین ہونے سے محفوظ رکھیں۔