عمل اور شعور میں تناسب پیدا کرنے کی ضرورت

عمل اور شعور میں تناسب پیدا کرنے کی ضرورت

اپنی غلطیوں کااحساس نہ کرنا،اپنے تجربوں اور ناکامیوں سے فائدہ نہ اٹھانا، غلطیوں اور ناکامیوں کے اسباب وعلل کو تلاش نہ کرنا، ایک ہی غلطی بار بار کرنا اور ایک ہی سوراخ سیبار بار ڈسا جانا، ایک صحیح الفطرت اور صحیح الحواس انسان کا شیوہ نہیں ہے اور مومن کو تو یہ کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا، جس کو اللہ تعالیٰ نے فراستِ ایمانی عطا فرمائی ہے اور عقل وتجربے سے فائدہ اٹھانے کی سب سے زیادہ دعوت دی ہے‘ قرآن شریف نے گروہ منافقین کی یہ کمزوری اور عیب بیان کیا ہے کہ وہ واقعات اور تجربات سے بالکل فائدہ نہیں اٹھاتے اور سال میں کئی کئی بار آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں:”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں‘ مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں‘ نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔“(سورہ توبہ:126)

مومن کی اسی صلاحیت پر اعتماد کرتے ہوئے ایک صحیح حدیث میں یہ مضمون آیا ہے:”لا یلد غ المومن من جحر واحد مرتین“․
ترجمہ: ”مومن ایک ہی سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جاتا“۔

جاہلیت کی صحیح معرفت ضروری ہے
مسلمانوں کو اسلام کے خلاف کرنے اور دشمنوں کا آلہ کار بننے سے ایسی وحشت ہونی چاہیے کہ اگر خواب میں بھی کوئی واقعہ ایسا دیکھے تو اس کے منھ سے چیخ نکل جائے اور وہ توبہ اور استغفار کرے، جاہلیت سے صرف جذباتی نفرت ہی کافی نہیں، مسلمان کے لیے جاہلیت غلاف کعبہ اوڑھ کر اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر آئے، جب بھی وہ لاحول پڑھے اور اس سے پناہ مانگے وہ کسی بھیس میں اس کے سامنے آئے تو وہ اس کو پہچان جائے اور اس کو مخاطب کر کے کہے:
بہ ہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوشی
من اندازِ قدرت را می شناسم

شیطان کی حکمت عملی
شیطان کی حکمت ِعملی اور جنگی سیاست یہ ہے کہ وہ مسلمان میں جو کم زور پہلو دیکھتا ہے‘ وہ اسی سے حملہ آور ہوتا ہے، وہ ہر طبقہ اور ہر فرد پر ایک ہی طریقہ اور ایک ہی ہتھیار نہیں آزماتا،وہ دین داروں اور عابدوں کو عوام کے درجے کے فسق وفجور کی ترغیب نہیں دیتا کہ اس میں اس کو کام یابی کی امید نہیں، وہ ان کوریا،تکبر، خود پسندی،حب جاہ اور حسد جیسے امراض میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے، قومی سر بلندی‘ حکومت واقتدار کی ہوس اور اوروں کے بجائے اپنے ملک کے وسائل کا خود استعمال کرنا اور اپنے اوپر خود حکومت کرنا اور اپنی زبان اور کلچر کو فروغ دینا ،ہر قیمت پر اپنے ملک کا بول بالا کرنا؛ یہ وہ خوش نما اور دل فریب مقاصد اور یہ وہ دل کش وشیریں خواب ہیں، جن کے بڑے بڑے اہل علم اور بعض اوقات بڑے بڑے دین دار بھی فریفتہ ہوجاتے ہیں۔

عربوں کی فریب خوردگی اور اس کی سزا
شیطان نے عربوں کو یہی سبز باغ دکھایا،ان سے کہا کہ قرآن مجید تمہاری زبان میں نازل ہوا، اللہ کا رسول تم میں مبعوث ہوا، خانہ کعبہ اور تمام عالم کا قبلہ تمہاری سرزمین میں ہے، حرم اور رسول صلی الله علیہ وسلمکی آخری آرام گاہ تمہارے ملک میں ہے، تم قرآن وحدیث اور اسلام کے اسرار وحقائق کو جیسا سمجھ سکتا ہو،دنیا میں کون سی قوم ایسا سمجھ سکتی ہے؟ پھر اس سب کے باوجود خلافت کا مرکز تم سے ہزاروں میل دور، سمندر پار ،قسطنطنیة میں ہو اور ترک تم پر حکومت کریں، جن کی نہ زبان عربی اور نہ نسل عربی، یہ منطق ایسی تھی کہ بہت سے عربوں نے جن کو اقتدار کی تمنا تھی اور وہ عرصے سے ایک عرب ایمپائر کا خواب دیکھ رہے تھے،نیز ان کوترکوں سے بہت سی شکایتیں تھیں اور ان کے احساس برتری اور حاکمانہ رویے سے نالاں تھے‘ ترکوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا اور وہ برطانوی شاطروں کے مقاصد کا آلہ کار بن گئے، شریف مکہ نے مرکز اسلام میں بیٹھ کر اور شام وعراق کے عربوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اتحادیوں کا ساتھ دیا اور ان کے منصوبے کی تکمیل میں معاون بن گئے، ترکوں کو شکست ہوئی، خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا، ملت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہوگیا، وہ حصار، جس کے اندر مسلمان عزت کے ساتھ زندگی گزاررہے تھے، منہدم ہوگیا، مغربی طاقتوں کو اب کسی کا ڈر نہیں رہا اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی انگلی اٹھانے والا بھی نہیں رہا، اس کے نتیجے میں فلسطین یہودیوں کا قومی وطن بنا، اسرائیل کی سلطنت قائم ہوئی، جو عربوں کی چھاتی پر کھونٹے کی طرح قائم ہے، بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا، یہ سب اس عصبیت جاہلیہ کا کرشمہ ہے جس کا عرب شکار ہوئے اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

قران وحدیث میں عصبیت جاہلیہ کی مذمت
قرآن وحدیث کا ایک ادنیٰ طالب علم جانتا ہے کہ کسی نسل، خون، رنگ، زبان، تہذیب کی بنا پر اندھا دھند حمایت اورجتھا بندی‘ اس کی بنیاد پر محبت ونفرت، تعلق اور قطع تعلق، صلح وجنگ، وہ جاہلی عصبیت ہے، جس کی مذمت سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں‘ قرآن شریف میں ہے:
”جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی اور ضد بھی جاہلیت کی۔“(سورہ فتح)

اور صحیح حدیث میں آیا ہے:
”وہ شخص جماعت مسلمین میں سے نہیں جو کسی عصبیت کی دعوت دے، وہ شخص جماعت مسلمین میں سے نہیں جو کسی عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے‘ وہ شخص جماعت مسلمین میں سے نہیں ہے جس کی موت عصبیت پر ہو۔“(ابو داؤد)

ایک مرتبہ ایک مہاجر اور ایک انصاری نے اپنی اپنی قوم کی دہائی دی اور مہاجر نے”یا للمہاجرین“(اے مہاجرو!)اور انصاری نے”یاللانصار“(اے انصاریو) کا نعرہ لگایا۔ آپ کومعلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”دَعُوھا انھا مُنُتِنہ“(ان جاہلی نعروں کو چھوڑو‘ یہ گندی اور بدبودار چیزیں ہیں) ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جاہلی نسبتوں اور ان کے نام پر اپیل کرنے اور ان کی دہائی دینے سے ایسی نفرت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کام لینے والوں کی ہر طرح سے ہمت شکنی اور توہین وتذلیل کی ہدایت فرمائی اور با وجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بڑے سے بڑے دشمن کے لیے بھی کوئی درشت اور ناملائم لفظ استعمال کرنا پسند نہیں کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ترین الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی اور اس میں مطلق رعایت کرنے اور اشارہ کنایہ سے کام لینے سے بھی منع فرمایا۔

مسلمانوں کے دینی عمل اور شعور میں تناسب نہیں
ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے ہم نے دینی جذبے، عبادت کا ذوق اور دینی معلومات کی ترقی کی جتنی کوشش کی، اتنا شعور صحیح اور بے دار کرنے کی کوشش نہیں کی‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بہت سے اسلامی ملکوں میں عمل اور شعور میں وہ تناسب نہیں جو ہونا چاہیے، ایک آدمی آپ کو بڑا دین دار، عابد وتہجد گزار ملے گا، لیکن اس کا دینی شعور بالکل نا پختہ اور طفلانہ ہوگا، بعض مرتبہ وہ دین کے بنیادی تقاضوں سے نا واقف نظر آئے گا اور وہ ایسی غلطی کر بیٹھے گا جو کسی صاحب شعور مسلمان سے حد درجہ مستبعد (مشکل) ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ جاہلیت اور اسلام کا بالکل فرق نہ سمجھتا ہو، وہ نہایت آسانی کے ساتھ کسی جاہلی دعوت اور کسی عیار وشاطر کا شکار ہوجائے ہو اور وہ اس کو اپنے مذموم مقاصد اور اسلام کی بیخ کنی کے لیے استعمال کرے‘ ہوسکتا ہے کہ وہ نیک نیتی اور سادگی کے ساتھ اس کام کو انجام دے اور اس عمل میں اور دین کے تقاضوں میں اس کو کوئی تضاد محسوس نہ ہو‘ تاریخ اسلام میں اس کی بہت سی مثالیں ملیں گی۔

صحابہ کرام کی جامع تربیت
لیکن صحابہ کرام کا معاملہ اس سے بالکل الگ تھا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکمل اور جامع تربیت فرمائی تھی‘ جہاں ان کے اندر عمل کا وہ جذبہ پیدا کیا تھا‘ جس کی مثالیں دنیا کی تاریخ میں نا پید ہیں، وہاں ان کے اندر ایک ایسا شعور پیدا کردیا گیا تھا کہ وہ صحیح اور غلط‘ ظلم وعدل اور جاہلیت واسلام میں ہر وقت امتیاز کرسکتے تھے‘ ان کا ذہن اتنا سلیم اور مستقیم بنادیا گیا تھا کہ کوئی ٹیڑھی چیز اس میں گھس نہیں سکتی تھی، جیسے کسی نلکی میں کوئی ٹیڑھی چیز ٹیڑھے ہو کر داخل نہیں ہوسکتی‘ اس طرح ان کا ذہن سلیم کسی کج چیز کو قبول نہیں کرتا تھا۔

میں اس کی ایک بہت واضح اور طاقت ورمثال پیش کرتا ہوں: آپ کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام کا تعلق ذاتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم سے کیا اور کیسا تھا؟ مختصر یہ ہے کہ توحید کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی انسان کو کسی انسان سے جتنی عقیدت اور تعلق ہوسکتا ہے‘ وہ صحابہ کرام کو آپ کی ذات مبارک سے تھا اور جس کو فارسی کے کسی شاعر نے اس الہامی مصرع میں بیان کیا ہے کہ:
”بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر“

وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک لبوں اور زبان سے جو چیز نکلتی ہے، اس کا منبع اور سر چشمہ وحی اور ہدایت الٰہی ہے، اور آپ کوئی بات اپنے نفس کے تقاضے سے نہیں فرماتے تھے؛ ان کا ایمان تھا:
﴿وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی﴾
ترجمہ: اور نہ خواہش نفس سے منھ سے بات نکالتے ہیں یہ(قرآن) تو حکمِ خدا ہے‘ جو (ان کی طرف) بھیجا جا تا ہے۔“

ان خصوصیات کو سامنے رکھ کر اب یہ سنیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام کی مجلس میں فرمایا: ”انصر اخاک ظالماً او مظلوماً“(اپنے بھائی کی مدد کرو، ظالم ہونے کی حالت میں بھی اور مظلوم ہونے کی حالت میں بھی) اس عقیدت اور عشق کا تقاضا ،جس کا اوپر ذکر ہوا، یہ تھا کہ وہ اس ارشاد کو بلا چوں وچراماں لیتے اور آنکھ بند کر کے اس پر عمل کرتے، ایسے واضح الفاظ میں فرمادینے اور اہلِ زبان ہونے کے بعد ان کے کچھ دریافت کرنے اور وضاحت چاہنے کا کوئی موقع نہ تھا‘ لیکن اس انداز پر ان کی اس وقت تک تربیت ہوئی تھی، ظلم کی جو مذمت وہ اس زبان مبارک سے ابھی تک سنتے آئے تھے اور ظالم کا ساتھ نہ دینے کی ان کو جس طرح تلقین کی گئی تھی‘ ان کو اس میں اور آج کے ارشاد میں ایک کھلا ہوا تضاد محسوس ہوا، وہ خاموش نہ رہ سکے‘ انہوں نے ادب سے عرض کیا:”یا رسول الله، نصرتہ مظلوماً فکیف انصرہ ظالماً؟“(اے خدا کے پیغمبر! مظلوم ہونے کی حالت میں تو مدد کی جائے، ظالم ہونے کی حالت میں کیسے مدد کی جاسکتی ہے؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً اس پر اپنے کسی تکدر کا اظہار نہیں فرمایا اور نہ ان پر سر زنش کی، بلکہ نہایت بشاشت کے ساتھ اپنے اس فرمان کی تفصیل اور اپنے ارشاد کی تشریح فرمائی‘ فرمایا: ہاں! ظالم کی بھی مدد کی جاسکتی ہے اور کرنی چاہیے؛ مگر اس کا طریقہ کیا ہے؟ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑلو! اس کو ظلم نہ کرنے دو، اب آنکھوں پر سے پردہ اٹھ گیا تھا اور جو گرہ پڑ گئی تھی‘ کھل گئی تھی۔

کسی مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس میں خالق کی نافرمانی ہو
اس شعورکی ایک دوسری مثال سنیے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی عبداللہ بن حذافہ کی سرکردگی میں مسلمانوں کا ایک دستہ بھیجا، جس کو سیرت وتاریخ کی اصطلاح میں (سریہ) کہتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ساتھ جانے والوں کو حکم دیا کہ اپنے امیر کی پوری اطاعت کرنا، ایک موقع پر امیر نے کسی بات کاحکم دیا، اس کی تعمیل میں ذرا تاخیر ہوئی، انہوں نے اس پر غضب ناک ہوکر لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دیا‘ جب لکڑیاں جمع ہوگئیں تو انہوں نے اس کو آگ دکھائی اور ایک الاؤ روشن ہوگیا، انہوں نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس میں کود پڑو‘ انہوں نے انکار کردیا‘ انہوں نے کہا کہ کیا تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات ماننے کا حکم نہیں دیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ بے شک دیا تھا‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا‘ ہم نے اسی آگ سے بچنے کے لیے اسلام کو قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھا ماہے‘ اب ہم اس میں کیسے کود پڑیں؟ بات ختم ہوگئی‘ یہ فوج جب مدینہ پہنچی تو امیر لشکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش کیا اور اپنے ساتھیوں کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عمل کی تصویب فرمائی اور فرمایا کہ اگر یہ اس آگ میں کود جاتے تو پھر کبھی یہ نکل نہیں سکتے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
”انما الطاعة فی المعروف“
(اطاعت نیک کام ہی میں جائز ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ زریں اصول دیا جو اس کی ہر دور میں راہ نمائی کرتا رہا ہے اور جس نے بڑے نازک موقعوں پر جابر اور ظالم بادشاہوں کی اندھا دھند اطاعت اور گم راہ کن قائدوں اور راہ نماؤں کی غیر مشروط پیروی اور رفاقت سے روکا ہے‘ وہ اصول یہ تھا کہ”لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“ (کسی مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں، جس میں خالق (خدا) کی نافرمانی ہوتی ہو اور اس کا کوئی حکم ٹوٹتا ہو) تاریخ اسلام میں مسلمانوں نے بڑے بڑے نازک موقعوں پر اپنے دماغی توازن اور اپنی قوت تمیز کو برقرار رکھا اور وہ ہر فتنہ کی آگ کا ایندھن نہیں بن سکے، ان میں سے ایسے ایسے جری اور ذہین، مصلح اور عالم پیدا ہوئے جنہوں نے وقت کے دھارے میں بہنے سے انکار کردیا اور اس اصول کے ماننے سے انکار کیا:
”چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی“

وہ واقعات جن کی تاریخ کربلا کے میدان سے شروع ہوتی ہے اور کسی نہ کسی شکل میں اس وقت بھی اس کی جھلک نظر آسکتی ہے، یہ سب اسی زریں اصول کا نتیجہ تھا کہ
”لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“․