عصر حاضر کی مشکلات کا حل

عصر حاضر کی مشکلات کا حل
سیرت ِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم میں پوشیدہ ہے

محترم شفقت قریشی سہام

ابتدائے آفرینش سے جب بھی دنیا فتنہ وفساد اورظلم وجاہلیت سے بھر جاتی رہی اور انسان شیطان کے مکروفریب میں آتا رہا ، حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی دست برد سے بچانے کے لیے ہادی ورہبر بھیجے، تاکہ وہ انسان کو شیطان کے شر سے بچانے کے لیے راہ نمائی کرسکیں اور شیطان انسان کی خلقی کم زوریوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

یہ ہادی اور رہبر انبیاء علیہم السلام کی شکل میں ہر خطے، ہر ملک اور ہر قوم میں تشریف لائے اور لوگوں کی صحیح سمیت میں راہ نمائی کرنے کا فریضہ انجام دیا اور رُشد وہدایت کا یہ سلسلہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کی صورت میں تکمیل پذیر ہوا، اس وقت جب دُنیا میں فتنہ وفساد کی اندھیری گھٹاؤں میں اُفق عالم پر کوئی ستارہٴ امید نظر نہ آتا تھا، ظلم وطغیان کی ہول ناک موجوں میں انسانیت کی کشتی ہچکولے کھا رہی تھی، مایوسی اور ناامیدی میں جکڑی ہوئی بنی نوع انسان کے چمن آرزو کی کلیاں بکھرتی جارہی تھیں، ایران میں دین مزدکی نے معاشرے میں صنفی انار کی پھیلا رکھی تھی، یونان اور یورپ میں غلاموں کو حق زندگی سے محروم رکھا جارہا تھا، ہندوستان میں ذات پات کی تقسیم سے انسانوں کی تضحیک کی جاتی تھی، فلسطینی یہودیوں نے خود کو خدا کا لاڈلا سمجھ کر باقی دنیا کو دو نمبر مخلوق سمجھ رکھا تھا، عرب بت پرستی اورجنگ وجدال کی آگ میں جل رہے تھے، اس وقت حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم انسانیت کے لیے ملت کا سایہ، امن کا بادل، سلامتی کا پھریرا اور پیغمبر امن وسلامتی بن کر نمودار ہوئے او رامن وسلامتی کے دین، اسلام کی دعوت کا آغاز کیا او رایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو بھائی بھائی او رجنگ وجدل سے بھرے ہوئے خطہٴ عرب کو امن وامان کا گہوارا بنا دیا، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم امن وسلامتی کے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے۔

حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عقیدہٴ توحید قصہ پارینہ بن چکا تھا۔ پہاڑوں، پتھروں، دریاؤں، درختوں، جانوروں اور اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے گئے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو عبادت سمجھا جاتا تھا۔

رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم نے راستے سے بھٹکے ہوئے ان لوگوں کو عقیدہٴ توحید کی تعلیم دی، جس کے نتیجے میں وہ خود کو اشرف المخلوقات اور صرف الله کا بندہ سمجھ کر اس کی عبادت کرنے لگ گئے۔

آپ کی ذاتِ اقدس چوں کہ خاتم الانبیاء ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے تکمیل انسانیت او رمعراج انسانیت کے لیے اپنی سیرت طیبہ کا ایک کامل نسخہ دنیا کے سامنے پیش کیا، جس کی بدولت معاشرہ کی اصلاح ممکن ہوئی، اسی لیے قرآن کریم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو ایک جامع اور کامل سیرت قرار دیتے ہوئے فرمایا:

”بے شک تمہار ے لیے رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) کی زندگی میں ایک کامل نمونہ موجود ہے۔“

اس زمانے میں عربوں کے پاس کوئی الہامی ہدایت کتابی شکل میں موجود نہ تھی اور جو مذہبی کتب موجود تھی، وہ قیام امن یا معاشرے کی اصلاح کے بجائے غارت گری ، فتنہ وفساد پر اُکسانے کی تعلیم دیتی تھیں، یہی وجہ تھی کہ انسانیت اپنی ذات کے اندر او رباہر کا سکون کھو چکی تھی۔ سود، جوئے او رشراب کی غارت گری نے پوری عرب آبادی کو گھن کی طرح چاٹ لیا تھا، جنگ وجدال کے بازار ہر طرف گرم رہتے تھے، قبائل کی نہ ختم ہونے والے جنگوں نے پورے عرب کا امن وسکون تباہ کر رکھا تھا، پورے خطے کی سیاسی، معاشرتی او ر معاشی حالت دگر گوں تھی۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اسوہٴ حسنہ سے قرآن کریم کی جو تعلیم دی ، وہ اس وقت کی مذہبی کتب کی تعلیمات سے بالکل مختلف تھی، جو جنگ، فتنہ وفساد اور ظلم وستم روارکھنے کی تعلیم دیتی تھیں۔

اسلامی تعلیمات میں یہ خصوصیات شامل تھیں
امن کی خاطر جارحیت کا مقابلہ کرنے کی تعلیم، صلح جوئی کی تعلیم، لڑائی کے دوران بھی امن عامہ کی تباہی کے رویے کی نفی کرنا، انسانی آزادی کی حفاظت کرنا، قیام امن کی خاطر جنگ سے ہاتھ روک لینا، صلح کی درخواست منظور کر لینا اور دشمن کے ساتھ بھی زیادتی نہ کرنا… علاوہ ازیں جنگ کے دوران قتل ہونے والوں کے اعضاء کاٹ کر نعش کی بے حرمتی کرنے کی ممانعت، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنے کی ممانعت بھی شامل تھی، مجاہدین کو دشمن کے علاقہ میں خوف وہراس پھیلانے سے منع کیا گیا او راس علاقے کے لوگوں سے سختی کرنے کی ممانعت کی گئی، پڑاؤ ایسی جگہ ڈالا جائے جہاں مقامی آبادی کو تکلیف نہ ہو، جنگی قیدیوں سے ملنے کی اجازت دی گئی، جب کہ جنگ میں دشمن کے چہرے پر وار کرنے سے منع فرمایا گیا۔

سرکار دور عالم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے کسی بھی پہلو پر نظر ڈالیں تو وہ اتنا پاکیزہ ، جامع اور ارفع واعلی نظر آتا ہے کہ تحریر کے ذریعہ اس کا صحیح ادراک محال ہے۔ آپ کی حیات ِ طیبہ قرآن حکیم کی عملی تفسیر نظر آتی ہے، قرآن حکیم کے احکام ومنشا اور حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے عمل میں سرمُوفرق نظر نہیں آتا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کرہٴ ارض پر جو اسلامی انقلاب برپا کیا، وہ یکسر قرآنی انقلاب تھا، جس کا مقصد ذہنوں اور نظریوں کی تطہیر تھا او راس تطہیر کا دائرہ کسی خاص خطہ زمین تک محدود نہ تھا، بلکہ یہ آفاقی تھا اور روئے زمین کے تمام لوگوں پر محیط تھا، بحیثیت ایک مصلح معاشرہ، بحیثیت سالار جنگ، بحیثیت ایک جج، انجینئر، قانون ساز، ماہر معاشیات او رایک معلم اخلاق… غرضیکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو میں حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کا پیغام او ران کی قائدانہ صلاحیتیں اس مقام پر تھیں کہ انسانیت اپنی تکمیل کے لیے ہر وقت انہیں درجہ کمال پر دیکھے گی۔

معاشرتی زندگی میں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل نفع بخش، فیض رسانی اور ایثار وانفاق کا اس قدر کامل نمونہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے معاشرے سے فقروفاقہ اور معاشی تعطل دور کرنے کے لیے اپنی ساری دولت لٹا دی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے اس بات میں دلی مسرت ہوگی کہ تین رات گزرنے سے پہلے اس میں (سے) کچھ نہ بچے، سوائے اس کے کہ جس سے میں قرض اتارسکوں۔“

اسلامی ریاست کا مرکز مدینہ منورہ تھا، جہاں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے خود نظام عدل قائم فرمایا اور بے شمار مقدمات کے فیصلے قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں کیے اور کسی سفارش اور رورعایت کو آڑے نہیں آنے دیا گیا، گو کہ نظام عدل کے بارے میں پہلی آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی، لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے اسلامی ریاست کو اقتدار میں آنا ضروری تھا ،جو مدینہ منورہ جاکر حاصل ہوا۔

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے پیغام حق کی خصوصیت یہ دکھائی دیتی ہے کہ اس میں تبلیغ، درس او رتربیت تینوں کام ایک ساتھ تکمیل پائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے یہ تینوں فرائض جدوجہد، انتقام ذاتی اور غیرت نفس کے جذبہ کی تسکین کے لیے نہیں،بلکہ محض اعلائے کلمة الله کے لیے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

”میں اس دعوتِ تبلیغ کے عوض تم سے مال ودولت نہیں مانگتا، میرا اجر صرف الله کے ذمہ ہے۔“

حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے شدید ترین مخالفین بھی دلوں میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی صداقت کے معترف تھے او راپنے جھوٹ کا اعتراف بھی ان کو تھا، مگر بدنیتی، جاہلانہ نیت، آبائی دین کا تعصب او راپنی ذاتی اغراض ان کو اعتراف حق سے روکتی تھیں اور مخالفت پر مجبور کرتی تھیں۔

سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے جاں نثاروں کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی گئیں، راستے میں کانٹے بچھائے گئے، گلا گھونٹا گیا، بائیکاٹ کیا گیا، قتل کی سازش کی گئی، جنگ پر مجبو رکیا گیا، وطن سے نکالا گیا، لیکن حیات نبوی صلی الله علیہ وسلم کے بے مثال کردار ، استقامت او رخیر خواہی نے آخر کار انہی دشمنوں کوحضور صلی الله علیہ وسلم پر جاں نثار کرنے والے دوستوں اور غلاموں میں تبدیل کر دیا۔

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”سچ“ بھلائی اور نیکو کاری کی طرف لے جاتا ہے او ربھلائی اور نیکی جنت کی راہ پر لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے،تاآنکہ الله تعالیٰ کے ہاں اس کو صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور ”جھوٹ“ بد کاری کا راستہ دکھاتا ہے اور بندہ متواتر جھوٹ بولتا رہتا ہے، حتی کہ الله تعالیٰ کے ہاں وہ جھوٹا لکھا جاتا ہے اور آخر کا ریہی جھوٹ اسے دوزخ تک پہنچا دیتا ہے۔“

سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

”جو چیز شک وشبہ پیدا کرے اسے ترک کرکے وہ بات اختیار کرنی چاہیے جس میں شک وشبہ نہ ہو، یہ بات یقینی ہے کہ سچ اطمینان ویقین پیدا کرتا ہے او رجھوٹ بے اطمینانی پیدا کرتا ہے۔“

نیز فرمایا:”خبردار! بدگمانی کو عادت نہ بناؤ، بدگمانی میں جھوٹ ہی جھوٹ ہے، بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگاؤ، دوسروں کے عیب تلا ش نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، کسی سے منھ نہ پھیرو، آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔“

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت او ران کے زریں اقوال پر عمل درآمد کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین جب بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو انصار نے سگے بھائیوں سے بڑھ کر مہاجرین کی خدمت گزاری کی اور تمام مسائل آسانی سے حل ہونے میں مدد ملی۔

اسلامی معاشرے کی فضا برادرانہ اخوت کے مطابق بنانے کے لیے حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم نے دوسری بیش بہا تعلیمات کے ذریعے بھی تربیت کی اور اخلاق فاضلہ کو پیدا کرنے او راخلاق رذیلہ کو ختم کرنے کے لیے بہترین سامان تعلیم وتربیت فراہم کیا۔ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے پُرامن بقائے باہمی کا اصول پیش فرمایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کو باقی تمام کاموں پر مقدم فرمایا۔ جاہلانہ معاشرے میں ایک انقلاب پیدا کیا، ایک نئی تہذیب کو جنم دیا، جس کی مثال آج کی دنیا پیش نہیں کرسکتی، عرب ایک شتربے مہار قوم تھے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان کو ڈسپلن کا اس قدر پابند بنایا کہ وہ بت پرستی چھوڑ کر اسلام کی طرف آئے او رمہذب ترین قوم کہلانے لگے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم صرف اہل عرب کے لیے ہی نہیں، بلکہ تمام عالموں کے لیے رحمت بن کر مبعوث ہوئے تھے۔

حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ”ہمارے پاس ایک یہودی کا جنازہ گزرا، حضور کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے، جب عرض کیا کہ یا رسول الله! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ ایک فرد انسانی نہ تھا؟“

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی قدر ومنزلت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک بہت زیادہ تھی۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم نے نہ صرف ہمارے لیے دعوت امن واخوت کی مثالیں چھوڑیں، بلکہ اپنے آخری پیغام، حجة الوداع، میں ان تمام رسوم کو ختم کرنے کا حکم فرمایا، جو امن واخوت کو درہم برہم کرنے او رمعاشرے کی تباہی کا سبب تھیں۔ داعی امن واخوت (صلی الله علیہ وسلم) نے اعلان فرمایا،جاہلیت کے تمام انتقامی خون باطل کر دیے گئے او رسب سے پہلے میں اپنے خاندان کی طرف سے ربیعہ بن الحارث کا خون باطل کرتا ہوں۔

بلاشبہ قرآن کریم کی اعجاز آفرینی اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی عملیت آج بھی اپنے شباب پر ہے۔ اسلام کی برکتوں کا شیریں چشمہ آج بھی رواں دواں ہے، ستم رسیدہ اور افلاس گزیدہ انسانیت کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ظل عاطفت میں پناہ مل سکتی ہے، بشرطیکہ وہ ایمان صادق اور یقین محکم کے ساتھ حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ آج کی مادیت گزیدہ انسانیت کو حضوراقدس صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقوں کے تریاق کی اشد ضرورت ہے۔