عباد الرحمن کی تین نمایاں صفات!

عباد الرحمن کی تین نمایاں صفات!

محترم محمد جاوید شیخ

رب تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا رحیم او رمہربان ہے۔ وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ چاہت مودت رکھتاہے۔ ایک ماں اپنی اولاد کے لیے اپنے سینے میں محبت کا بحربے کراں لیے ہوئے روز وشب بسر کرتی ہے، اولاد کی مسرت کو اپنی خوشی جانتے ہوئے اپنے دکھ درد کو بھول جاتی ہے اور اولاد کے دکھ کو اپنا رنج سمجھتے ہوئے اپنی خوشیوں کے قیمتی لمحات کو بھی اولاد کی نذر کر دیتی ہے۔ پھر رب تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے، وہ کیوں کر اپنے بندوں کو تکالیف ومصائب میں اور بالخصوص روزِ قیامت جہنم کے عذاب میں دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ بندے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیں، اس کے نتیجے میں رب ان کے دامن کو خوشیوں سے بھر دے گا۔ انہیں ہر لحظہ سکینت وراحت کی مٹھاس چکھائے گا۔

رب تعالیٰ نے بندوں کو خود سے قریب کرنے کے لیے چند کام بتائے ہیں کہ جن کے طفیل بندے رب سے قریب او رجنت کے بالا خانوں کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ مؤمنین کے اوصاف ِ حمیدہ قرآن مجید اور احادیث ِ نبویہ صلی الله علی صاحبہا وسلم میں مذکور ہیں۔ رب جسے اپنا بنانا چاہتا ہے اسے ان اوصاف سے متصف کر دیتا ہے۔ سورہٴ فرقان میں رحمان کے چنیدہ بندوں کی صفات کا ذکر ملتا ہے، جن میں سے ابتدائی تین صفات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ پہلی صفت کا ذکر کرتے ہوئے الله تعالیٰ فرماتے ہیں: ”رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں ، آہستگی کے ساتھ چلتے ہیں، اکڑ کر نہیں چلتے۔“

اس کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں جہاں ظاہری چال چلن اور بظاہر متکبر انہ انداز کو اپنانے کی نفی معلوم ہوتی ہے وہیں پر یہاں ایک بڑا لطیف نکتہ ہے ،وہ یہ کہ نرم چال اور دھیمے انداز سے چلنے سے مراد رویّوں میں نرمی، معاملات میں درگزر، لہجے میں مٹھاس، بڑوں کا ادب،چھوٹوں پر شفقت، مجبور وبے کسوں سے ہم دردی، ملازمین کے ساتھ نرمی، رعایا کے ساتھ رحم دلی بھی شامل ہے۔ حقیقت میں یہ ایک بڑی پسند اورخوبی ہے۔ الله تعالیٰ کو غرور وتکبر سخت نا پسندہے، اس لیے کہ ”کبر“ اور بڑا پن صرف رب تعالیٰ کو زیب دیتا ہے۔ اسی وجہ سے الله تعالیٰ کے ننانوے صفاتی ناموں میں سے ایک نام” المتکبر“ بھی ہے۔

ہمیں تاریخ کا مطالعہبتاتا ہے کہ مغرور اورمتکبر شخص کو دنیا میں ہی رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فرعون کا دریا میں غرق ہونا، شداد کا ناگہانی موت کا شکار ہونا، نمرود کو ایک مچھر کے ذریعے رسوا کن موت دینا… یہ سب مثالیں اس بات کی غماز ہیں کہ غرور اور تکبر بری عادات میں سب سے بد تر ہے۔ اگر بندہ مومن اس صفت کو اپنا لیتا ہے اور مذکورہ عادات سے خود کو سنوارتا اور سجاتا ہے تو پھر رب سے قریب ہونے کے لیے ایک بڑی شرط کو وہ پوری کر دیتا ہے۔

دوسری صفت یہ ہے کہ جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں یا جھگڑا کرتے ہیں تو یہ انہیں سلام کہتے ہوئے اپنی زبان کو آلودہ او راپنے دامن کو داغ دار ہونے سے بچاتے ہیں۔ اپنے کردار کی شفافیت کو برقرار رکھتے ہوئے حکمت کے ساتھ ان سے ترک کلام کرتے ہیں۔ حضرت نعمان بن مقرن رضی الله عنہ فرماتے ہیں: حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص نے دوسرے شخص کو برا بھلا کہا تو جسے برا بھلا کہا گیا اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم پر سلام ہو۔ اس پر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سنو !تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے، جو ( اے برا بھلا کہے گئے شخص!) تمہاری طرف سے دفاع کرتا ہے، جب یہ تمہیں بُرا بھلا کہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے: نہیں ،بلکہ تم ایسے ہو اور تم اس کے زیادہ حق دار ہو اورجب تم اس سے کہتے ہو تم پر سلام ہو تو فرشتہ کہتا ہے : نہیں، بلکہ تمہارے لیے سلامتی ہو اور تم اس کے زیادہ حق دار ہو ۔“ (مسند احمد)

سورہٴ فرقان کی آیات میں مذکور تیسری صفت بندہ مومن کے خلوت کے لمحات سے تعلق رکھتی ہے۔ فرمایا:” اور جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدہ اور قیام کیحالت میں“۔ گویا کہ رب کے قریب تربندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ جہاں فرض نمازوں کو بر وقت ادا کرتے ہیں وہیں رات کے کسی پہر اپنی آرام گاہوں کو چھوڑ کر رب کے حضور سجدہ وقیام کرتے پائے جاتے ہیں، جیسا کہ ایک اور مقام پر کامل ایمان والوں کی خوبی بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :”ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں او رہمارے دیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں۔“ (السجدہ:61)

رات میں عبادت کے نتیجے میں بندے کا اخلاص اوج ثریا کو چھوتا محسوس ہوتا ہے، ریا کاری، دکھلاوا اور نمودونمائش جیسی غلاظتوں سے اس کی عبادات پاک وصاف ہو جاتی ہیں۔ حضرت رابعہ بصری کی اپنی وفات تک یہ عادت رہی کہ وہ ساری رات نماز پڑھتی رہتیں او رجب فجر کا وقت قریب ہوتا تو تھوڑی دیر کے لیے سو جاتیں، پھر بیدا رہو کرکہتیں: اے نفس! تم کتنا سوؤگے او رکتنا جاگو گے؟! عنقریب تم ایسی نیند سو جاؤ گے کہ اس کے بعد قیامت کی صبح کو ہی بیدا رہو گے۔(روح البیان) کیا ہی خوب ہوجائے کہ الله تعالیٰ مومنین کی دیگر صفات کے ساتھ بالخصوص ان تین صفات سے ہمیں متصف کر دے اور نتیجے میں اپنی رضا کا پرورانہ عطا فرمادے۔ آمین ثم آمین !