عالم کفر کے خلاف ثابت قدم رہنے کی ترغیب

عالم کفر کے خلاف ثابت قدم رہنے کی ترغیب

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً ﴾ دنیا میں انسان جو ایک عاجز اور کم زور مخلوق ہے، جلدبازی اور بے صبری میں ڈھلی ہوئی ہے، وہ بھی بے مقصد کوئی سرگرمی نہیں دکھاتی ہے، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خالق ارض وسماء اس قدر عظیم کائنات کو بلامقصد پیدا کر کے شتربے مہار کی طرح چھوڑ دے۔ ایسا نہیں ہوسکتا، ہر انسان کی فطرت جب تک مسخ نہ ہو وہ کائنات کو بے مقصد تخلیق قرار نہیں دے سکتا، بلکہ فطرت سلیمہ انسان کو زبان سے یہ کہلوانے پر مجبور کردیتی ہے:﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً﴾ اے میرے پروردگار! اس زمین وآسمان کو تو نے عبث پیدا نہیں کیا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تخلیق سے کیا مقصد ہے؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرة میں بیان فرمایا: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً﴾ (البقرة:29) کائنات کا یہ سارا اسٹیج انسان کے فائدے کے لیے سجایا گیا ہے اور انسان کو امتحان کے لیے اس میں بسایا گیا ہے۔ ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلا﴾ (الملک:2) اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس قدر نعمتوں سے نوازا ہے وہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکتا، نہ ہی اپنے پروردگار کے حقوق کما حقہ بجا لا سکتا ہے۔ اس لیے مومن ہمہ وقت اپنی تقصیر کا اعتراف کرتے ہوئے، بصدعجز ونیاز، آخرت کے عذاب سے پناہ مانگتا رہتا ہے: ﴿سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾․

﴿رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً﴾:یہاں منادی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور آپ ہی کے توسط سے ہر وہ شخص بھی اس کا مصداق ہو سکتا ہے جو ایمان کی دعوت دے۔ اے ہمارے پروردگار!ہم ایمان کی منادی کرنے والے کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لائے، توحید پر، رسالت پر، آسمانی کتابوں پر، آخرت پر، حساب وکتاب، حشر ونشر اورجنت وجہنم پر، بس تو ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔ ﴿فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا﴾کبیرہ گناہوں کو معاف فرما، ﴿ وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا﴾صغیرہ گناہوں سے بھی درگزر فرما، کیوں کہ ایمان زمانہ کفر کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے، ہمیں نیک لوگوں کی صحبت میں رکھ کر ان کے ساتھ یعنی انہی جیسی ایمان والی موت سے نواز-(تفسیر أبی السعود، آل عمران :193)۔

مظلوموں کی تسلی
﴿ فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ﴾: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعا کا طریقہ بھی سکھلایا اور قبولیت کی خوش خبری بھی دی کہ صاحب ِایمان مرد ہوں یا خواتین، اللہ تعالیٰ ان کے عمل صالح کو ضائع نہیں فرمائے گا۔ جنہوں نے تحفظ دین کے لیے اپنا وطن، علاقہ، شہر کو قربان کیا، جنہیں دین برحق کی وجہ سے اذیتوں میں مبتلا کیا گیا، جنہوں نے اعلائے کلمة اللہ کے لیے عالم کفر سے ٹکر لی اور قتال کا فریضہ انجام دیا اور خود بھی لیلائے شہادت کو گلے لگا کر اس فانی دنیا سے جدا ہونا گوارا کیا، الله تعالی فرماتے ہیں کہ ہم ان کی بشری خطاؤں کو نظر انداز کر کے جنت کا باسی بنا دیں گے۔

﴿لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ﴾:کافر کی ساری خواہشات حصولِ دنیا کے اردگرد گھومتی ہیں، اس کی سطحی نظر اخروی انعامات کو بھانپنے سے محروم رہتی ہے، اس لیے اس کی ساری تگ ودو دنیاوی ترقی کے لیے پرعزم رہتی ہے، وہ اپنی دنیا کو رنگین بنانے کے لیے مگن رہتے ہیں، لہٰذا ان کی دنیاوی ترقی، تگ ودو سے آپ کسی غلط فہمی میں نہ پڑیں، دنیاوی ترقی وخوش حالی ان کے حق ہونے پر دلیل نہیں اور نہ ہی قیامت کے دن ان کی تگ ودو ان کو کچھ فائدہ دے گی۔ اس آیت میں زیادہ خطاب اہل کتاب کو ہے۔ اس کے بعد والی آیت بھی اہل کتاب سے متعلق ہے۔ اہل کتاب میں یہود پر ذلت ومسکنت کا خدائی فیصلہ آ چکا ہے، اس لیے دنیاوی ترقی کی پیشین گوئی اہل نصاری پر صادق آتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب․

عالم کفر کے خلاف ثابت قدم رہنے کی ترغیب
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اصْبِرُوا﴾: اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو چار ہدایات دی گئی ہیں۔

1..﴿اصْبِرُوا﴾:دین حق کی سربلندی میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کرنا ۔

2..﴿وَصَابِرُواْ﴾ جہاد فی سبیل اللہ میں پیش آنے والی آزمائش کو برداشت کرنا ، گویا ”اصْبِرُوا“عام ہے، اس کا اطلا ق دین کی وجہ سے پیش آمدہ تکلیف کے جھیلنے پر ہوتا ہے اور ”وَصَابِرُواْ“ کا اطلاق خاص ان مصائب پر ہوتا ہے جو قتال فی سبیل اللہ کرتے ہوئے مجاہدین کو پیش آتی ہیں اور وہ تکلیفیں عمومی تکالیف سے زیادہ اور سخت ہوتی ہیں۔(تفسیر أبی السعود، آل عمران:200)۔

3..﴿وَرَابِطُواْ﴾کافروں کی سرحد پر جہاد کی نیت کے ساتھ گھوڑوں کو رکھنا”رباط“کہلاتا ہے۔(تفسیر أبی السعود، آل عمران:200)۔ فقہائے کرام کے نزدیک مرابط وہ شخص ہے جو اسلامی سرحدوں پر پہرہ دیتے ہوئے کچھ وقت گزار لے۔

رباط فی سبیل اللہ کے بکثرت فضائل ہیں۔ ایک حدیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ایک دن اور ایک رات اللہ کی راہ میں رباط کا فریضہ انجام دیتا ہے اسے ایک ماہ رمضان کے روزوں کے بقدر ثواب ملتا ہے، (ایسے روزے) جس میں اس نے افطاری نہ کی ہو اور ایک ماہ قیام اللیل کرنے کے بقدر ثواب ملتا ہے، جس (قیام اللیل) میں وہ نماز سے صرف ضرورت کی وجہ سے الگ ہوا۔( صحیح مسلم)

4..﴿وَاتَّقُواْ اللّہ﴾ جہاد، رباط ومصائب پر صبر کی بنیاد تقوی پر ہونی چاہیے، اللہ کا حکم، اس کی عظمت، اس کے لیے اخلاص کا جذبہ ہی تمام راہوں سے ہم کنار کرتے ہیں۔ اگر ان مہمات میں نام وری، دنیاوی اغراض، قبضہ گیری ہی مقاصد بن گئے تو پھر آخرت کے میدان میں یہ ساری کاوشیں رائیگاں چلی جائیں گی اور دنیا میں بھی ذلت کا سامان پیدا ہوگا۔